Topics
قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے اوصاف حمیدہ کا ذکر
کرتے ہوءے آپ کے شاگرد رشید خواجہ شمس الدین عظیمی لکھتے ہیں!
قلندر بابا رحمۃ اللہ علیہ
لباس
عمدہ مگر سادہ استعمال کرتے تھے - قمیض میں کالر نہیں ہوتا تھا - پاجامہ چوڑے
پائنچہ کا ، موری تقریباً چھ انگل لوٹی ہوئی - گرمی میں صرف قمیض پاجامہ میں لیکن
سردیوں میں جب کہیں باہر تشریف لے جاتے تو شیروانی اور ٹوپی ضرور پہنتے - جوتے
ہمیشہ براؤن رنگ کے پہنتے - سیاہ رنگ جوتے استعمال نہیں کرتے تھے فرماتے کہ جو
آفاقی شعاعیں (Cosmic Rays ) دماغ پر وارد ہوتی ہیں -وہ جسم میں دور
کرتے ہوئے پیروں کے راستے زمین میں جذب ہوجاتی ہیں لیکن اگر سیاہ رنگ جوتے پہنے
جائیں تو سیاہ رنگ ان کو جذب کرکے زمین تک نہیں جانے دیتا جس سے جسم اور ذہن کو
نقصان ہوتا ہے -
بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے استعمال کی ہر چیز
کی ایک جگہ مقرر تھی - شیروانی ، دھل کر آئے ہوئے کپڑے ، بستر پر تکیہ ، پائنتی پر
چادر ، تکیہ کے بائیں جانب ٹوپی ، غرض ہر چیز اپنی جگہ
پر موجود ہوتی تھی ۔بستر پر چادر تکیہ صاف ستھرا استعمال کرتے۔کوئی
نہ کوئی کتاب آپ کے مطالعے میں ضرور رہتی جو عموماً تکیے کے نیچے بائیں
جانب موجود رہتی اور ساتھ میں قلم بھی ہوتا۔ کتابوں کی الماری
میں کتابوں کی ترتیب ایسی کہ فلاں خانے میں دائیں طرف تیسری کتاب یا بائیں جانب
پانچویں کتاب فلاں مضمون پر ہے نکالو - حتیٰ کہ جوتے اتارتے وقت اس التزام سے
رکھتے کہ جوتے ایک سوت بھی آگے پیچھے نہ ہوتے –
مزاح
خود بھی فرماتے اور دوسرے کی شگفتہ بات کو پسند فرماتے - تبسم فرماتے یا ہنستے
لیکن کبھی قہقہہ نہیں لگاتے تھے –مزاح ہمیشہ ایسا فرماتے جس سے محفل میں تہذیب و اخلاق بھی
رہے اور شگفتگی بھی ہو جائے۔
بچوں
سے خاص الخاص شفقت فرماتے، ان کی ہر بات
سنتے تمام عمر کسی بھی بچے سے سختی نہ کی ، دوسروں کو بھی شفقت کی تلقین کرتے
۔بچوں کی دل آزاری سے گریز فرماتے اور بچوں کی خوشی کو ہمیشہ مقدم رکھتے۔ دوسروں
سے اچھے برتاؤ اور حسن سلوک پر خاص زور دیتے ، اور خود تو خاص الخاص ااس پر
عمل پیرا رہتے۔ آپ کی تمام باتوں میں محبت کا پہلو نمایاں رہتا تھا۔
قلندر بابا نے کبھی زندگی میں صابن سے ہاتھ
نہ دھوئے، گرم پانی سے ہاتھ دھو کر تولیے
سے صاف کر لیا کرتے تھے۔ ہاتھ دھونے میں کافی وقت صرف ہو جاتا تھا۔ جب تک ہاتھ میں
لگی ہوئی چکنائی دور نہیں ہو جاتی تھی ہاتھ دھوتے رہتے تھے ۔ جھوٹ سے سخت نفرت کرتے سب کو نصیحت کرتے کہ نہ
بڑے جھوٹ بولیں اور نہ بچہ جھوٹ بولے۔ نہ تو فضول خرچ تھے اور نہ ہی نمود و نمائش
کے قائل۔ہمیشہ سادگی پسند کرتے تھے۔ اپنے تمام فرائض کی ادائیگی میں بہت پابند
تھے۔ اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے ۔چیخ کر بلانے کو سخت نا پسند کرتے ۔جو ذرا اونچی آواز میں بولتا
اسے تاکید فرماتے کہ
" ارے بھائی آہستہ بولو ،بلاوجہ کیا بلڈ
پریشر ہائی کرنا"
اگر جواب میں کہا جاتا ہے،" بھائی صاحب
عادت بن گئی ہے
"
تو آپ فرماتے " کیا عادت بن گئی ہے ۔۔۔بنا لی ہے!
صحیح کر لو کیا فائدہ اتنی زور سے کیوں بولتے ہو۔"
اس
سلسلے میں ہمیشہ نصیحت کرتے" آواز کمرے سے باہر نہیں جانی چاہیے اور نہ دوسرے
کمرے میں آواز سے کوئی پریشانی ہو۔
وقت کی بہت زیادہ پابندی کرتے کہیں جانا ہوتا
تو مخصوص وقت پر تیار ہوتے، اور پورے وقت پر پہنچ جاتے۔ پورے وقت پر تمام کام کرتے
۔بہت مہمان نواز تھے۔ ہر آنے والے کچھ نہ کچھ پیش کرتے ۔تمام زندگی کبھی کوئی
مہمان خالی واپس نہ گیا۔
بہت کم گو تھے۔ فضول گفتگو سے پرہیز کرتے ۔مقابل
کے ذہنی سطح پر اس کی ضرورت اور سمجھ بوجھ کے مطابق گفتگو فرماتے ۔کوئی بات بتاتے
وقت اکثر و بیشتر عمومی افہام و تفہیم کے
لئے اپنے ساتھ یا اپنے سامنے ہونے والے واقعات کو بنیاد بنا کر کسی خیال یا نقطہ
کو پیش کیا کرتے تھے۔ اس سے حقیقت بیانی اور صداقت نظریہ اور خیال کے متعلق
کوئی ابہام یا عدم صداقت کا شائبہ نہیں ہوتا تھا۔
آپ کے دوست سید نثار علی بخاری بتاتے ہیں کہ آپ
اپنے والد صاحب کا بے حد احترام کرتے۔ ان کے سامنے ہمیشہ نیچی آواز میں بولتے اور
نظریں نیچی رکھتے۔
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔