Topics

روحانی اساتذہ

 

سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ ۴ جنوری ۱۸۹۵ بہ مقام موضع کوٹلی لوہاراں شرقی ضلع سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔آپ کا نسب گیلانی سادات میں سے ہے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا رسول بخش سے حاصل کی۔جب کہ حضرت ابولفیض رحمۃ اللہ علیہ نے روحانی فیض حضرت سید پیر مہر علی شاہ گولڑو شریف رحمۃ اللہ علیہ، میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ اور بابا غلام محمد سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیا۔ آپ کے مرشد کریم بابا غلام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے حیات گڑھ، گجرات میں رشد و ہدایت اور تزکیہ کی تعلیم سے لوگوں کی خدمت فرمائی۔باباغلام محمد   کامزار جلال پور سے ڈیڑھ کلو میٹر دور موضع حیات گڑھ میں واقع ہے۔

حضرت ابو الفیض  اپنے مرشد کریم کے حکم پر لاہور تشریف لائے اور تمام عمر لاہور میں بندگان خدا کی رہ نمائی فرماتے رہے۔آپ کا وصال ۱۰ ستمبر ۱۹۵۸ کو ہوا۔حضرت ابولفیض قلندر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ  کامزار ہنجروال لاہور میں واقع ہے۔ آپ نے کئی کتابیں تحریر فرمائیں جس میں"جمال الٰہی" جمال رسول اور "الفخر فخری" زیادہ مقبول ہیں۔

۱۹۵۴ میں سلسلہ سہروردیہ کےبزرگ قطب ارشاد حضرت ابو الفیض قلندر سہروردی کراچی میں تشریف لائے۔سید محمد عظیم  نے بیعت حاصل کرنے کی درخواست پیش کی۔ حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردی نے قطب ارشاد کی تعلیمات تین ہفتوں  میں پوری کرکے خلافت عطا کردی۔

بیعت کے بارے میں عبدالرؤف عظیمی نے تحریر کیا ہے کہ:

۱۹۵۶ء میں موسم سرما میں  قطب ارشاد ، حضرت ابو الفیض قلند ر علی سہروردی صاحب کراچی تشریف لائے ۔خواجہ صاحب نے ان کی آمد کا تذکرہ سید محمد عظیم صاحب سے کیا تو انہوں نے فرمایا، ان سے میرا سلام عرض کیجئے گا۔

 اس غائبانہ تعارف کے بعد سید محمد عظیم صاحب تک آپ کے توسط سے سہروردی صاحب کی مصروفیات اور علمی نشستوں کی معلومات پہنچتی رہیں۔

 اسی دوران ایک روز سید محمد عظیم نے عظیمی صاحب سے فرمایا،

"میرے سینے میں دل کی جگہ چبھن ہوتی ہے۔ "

جب عظیمی صاحب نے اس کا تذکرہ سہروردی صاحب سے کیا تو انہوں نے فرمایا،

"ٹھیک ہے، ٹھیک ہوجائے گا۔"

ایک روز خواجہ صاحب نے سہروردی صاحب کی تحریر کردہ کتاب ’’جمال الہیٰ‘‘ سید محمد عظیم صاحب کو مطالعہ کے لئے پیش فرمائی تو انہوں نے ایک نقشہ بناکر آپ کو بتایا کہ اس نقشہ کی مدد سے اگر کوئی کتاب پڑھی جائے تو پتا چل جاتا ہے کہ مصنف یا مؤلف صاحب حال ہے یا نہیں اور اسی طرح اس کی لاشعوری کیفیات بھی اس کی تحریر میں ظاہر ہوجاتی ہیں۔عظیمی صاحب نے یہ سارا واقعہ سہروردی صاحب کوسنایا تو وہ بہت خوش ہوئے۔

ایک روز سید محمد عظیم صاحب نے عظیمی صاحب کہا: ان سے پوچھئے گا ۔۔۔کیا وہ مجھے بیعت فرما لیں گے۔"

 جب عظیمی صاحب نے بڑے حضرت جی سے سید محمد عظیم صاحب کے لئے عرض کیا توانہوں نے آپ کو ملاقات کے لئے گرانڈ ہوٹل میں بلایا ( سہروردی صاحب ان دنوں گرانڈ ہوٹل۔ میکلوڈ روڈ میں مقیم تھے)۔ جب آپ ملاقات کے لئے ان کے پاس پہنچے تو کچھ دیر کے بعد ابو الفیض قلندر علی سہروردی صاحب نے فرمایا "عظیم صاحب کے علاوہ سب تھوڑی دیر کے لئے کمرے سے باہر ٹھہریں۔"

ہیرے کی پہچان جوہری کو خوب ہوتی ہے۔ مردم شناس ، صاحب اسرار حضرت ابولفیض قلندر علی سہروردی   نے سید محمد عظیم برخیا کو دیکھا۔ نے آپ نے حضرت حمد عظیم کے قلب  کو نور الٰہی اور نور نبوت سے منور پایا۔ بیعت کی درخواست کومنظور فرمایا۔  ہوٹل سے واپسی پر سید محمد عظیم  نے خواجہ صاحب  کو بتایا کہ  سہروردی صاحب نے بیعت کے لئے رات تین بجے کا وقت دیا ہے۔سید محمد عظیم صاحب سخت سردی کے موسم میں ، رات دو بجے ہی سے ہوٹل کی سیڑھیوں پر جاکر بیٹھ گئے ۔ ٹھیک تین بجے بڑے حضرت جی نے دروازہ کھولا اور اندر بلالیا ۔ انہیں اپنے سامنے بٹھاکر ، پیشانی پر تین پھونکیں ماریں، پہلی پھونک  میں عالم ارواح منکشف ہوگی۔ا دوسری پھونک  میں عالم ملکوت و جبروت سامنے آگیا۔ تیسری پھونک میں حضور بابا صاحب نے  عرش معلیٰ کا مشاہدہ کیا۔[1]

 اسی واقعہ کے بارے میں سید نثار علی بخاری بتاتے ہیں کہ

"ماہ جنوری 1956ء کی کسی تاریخ میں قلندر بابا نے مجھ  سے ارشاد فرمایا تھا کہ بھائی یکم مئی 1956ء  کو ایک خوش خبری سنیں گے .. میں نے عرض کیا اتنی طویل مدت انتظار کیوں کراتے ہو ، ابھی وہ تہنیت سنا دیجئے - لیکن آپ نے فرمایا کہ کام ہو جانے کے بعد ہی سنانا اچھا ہوتا ہے .. چنانچہ ماہ مئی 1956ء کے اوائل میں آپ نے مژدہ تہنیت سنایا کہ..."اب میری از سر نو زندگی  کا آغاز ہوا ہے .. اس طرح کہ میں رتن تالاب والے مکان میں بیٹھا تھا کہ نانا تاج الدین اور دیگر چند بزرگ تشریف لائے .. ان کی آمد کی تاب بجلی نہ لا سکی .. بلب گل ہوگئے ..   .. ان بزرگوں نے فرمایا کہ عرصۂ دراز سے یہ معاملہ زیر بحث تھا کہ تم کو کون سے سلسلہ سے منسلک کیا جائے ،  الحمدللہ اب یہ بات طے ہوگئی ہے کہ تم کو سلسلہ سہروردیہ میں لے لیا گیا ہے .. یہ خوش خبری سنا کر مبارک باد دی اور ان سب  بزرگوں نے میرے حق میں دعا کر کے فرمایا کہ تیرا نصیبہ بڑے حضرت جی ابوالفیض قلندرعلی سہروردی قطب ارشاد کے پاس ہے .. وہ اسی سال کراچی میں تشریف لائیں گے ان کے ہاتھ پر بیعت ہونا -میں وقت مقررہ پر گرانڈ ہوٹل واقع میکلوڈ روڈ کراچی بڑے حضرت جی کی خدمت با برکت میں حاضر ہوا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی ..انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ دم فرمایا .. دم فرمانے سے میرا باطن روشن ہوگیا اور عالم ارواح  .. عالم ملکوت و جبروت منکشف ہوگئے حتیٰ کہ تشہید عرش اعلیٰ بھی ہوگئی "--[2]

اس کے بعد حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ  کی روح پر فتوح نے حضور قلندر بابا اولیاؒء کی روح کو تعلیم دی - سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام نے براہ راست علم لدنی عطا فرمایا –[3]تعلیمات کی تکمیل پر حضرت محمد کی بارگاہ اقدس سے " حسن اخری " کا خطاب عطاہوا۔ قلندریت  کے اعلا مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ملائکہ  ارض و سماوی اور حاملان عرش میں آپ "قلندر بابا اولیاء کے نام سے مشہور ہیں۔آج بھی یہی عرفیت زبان زد عام ہے۔

جن روحانی بزرگوں نے آپ کی روحانی تعلیم و تربیت  کی اور جن بزرگوں  کی ارواح سے نسبت اویسیہ کے تحت نسبت فیضان حاصل ہے ان کے اسمائے گرامی یوں ہیں: [4]

ان بزرگان سے براہ راست تعلیم حاصل کی اور فیض یاب ہوئے۔

مولانا کابلی                                                                                                 براہ راست تعلیم دی

تاج الاولیاء بابا تاج الدین ناگپوری سرکار                       خانوادہ                      براہ راست تعلیم دی

حضرت ابوالفضل قلندر علی سہروردی                          خانوادہ                      براہ راست تعلیم دی

حضرحسن عظمی سراج الدین بندگی شاہ                         خانوادہ                      براہ راست تعلیم دی

حضرت حسن کبری مہدی ظہورالدین عبد المقتدر          خانوادہ                      براہ راست تعلیم دی

حضرت محمد صغری تاج الدین (چراغ الدین)                خانوادہ                      براہ راست تعلیم دی

حضرت شیخ بہاء الحق الدین زکریا ملتانی                            خانوادہ                      بطریق اویسیہ تعلیم دی

شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی                خانوادہ                      بطریق اویسیہ تعلیم دی

حضرت شرف الدین بو علی شاہ قلندر                             خانوادہ                      بطریق اویسیہ تعلیم دی

حضرت نجم الدین کبری شیخ کبیر                                    امام سلسلہ                 بطریق اویسیہ تعلیم دی

حضرت ممشاد دینوری                                                  امام سلسلہ                 بطریق اویسیہ تعلیم دی

حضرت ذوالنون مصری                                               امام سلسلہ                  بطریق اویسیہ تعلیم دی

حضرت شیخ  غوث اعظم عبد القادر جیلانی                        امام سلسلہ                  بطریق اویسیہ تعلیم دی

حضرت شیخ بہاء الحق نقشبندی خواجہ باللہ                        امام سلسلہ                 بطریق اویسیہ تعلیم دی

حضرت ابوالقاہر                                                         امام سلسلہ                  بطریق اویسیہ تعلیم دی

حضر ت بایزید بسطامی                                                   امام سلسلہ                  بطریق اویسیہ تعلیم دی

حضرت امام موسی کاظم رضا                                         امام سلسلہ                 بطریق اویسیہ تعلیم دی

حضرت عبد القاسم جنیدی بغدادی                                امام سلسلہ                  بطریق اویسیہ تعلیم دی

باب علم حضرت علی کرم اللہ وجہہ                                                                  بطریق اویسیہ تعلیم دی

سید  لانبیاء سرورکونین حضرت محمد                                                         براہ راست تعلیم دی  

سید الانبیاء سرور کونین حضرت محمد وسے آپ نے بہ راہ راست تعلیم حاصل کی۔ پھر حضور کی ہمت اور نسبت کے ساتھ ساتھ بارگاہ رب العزت میں پیشی ہوئی اور اسرارو رموز کا علم حاصل ہوا۔ اس عرصے میں حضرت سیدمحمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے مسلسل دس رات اور دس دن شب بیداری کی اور تہجد کے نوافل میں کئی کئی سو مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھی۔[5]

جب تعلیم کا یہ سلسلہ حضور بنی کریم تک پہنچا تو آپ نےبراہ راست علم لدنی عطا فرمایا، اورسیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمت و نسبت کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں پیشی ہوئی اور خالق کائنات سے اسرار رموز کا علم ہوا۔

علم لدنی کی تعلیم کے دوران اور اس کے بعد بھی حضور بابا صاحب ڈھائِ تین گھنٹَ سے زیادہ کبھی نہیں سوئے۔ نیند پر ان کو پوری طرح غلبہ اور دسترس حاصل تھی۔ غذا کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط تھے۔ چوبیس گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ دو چپاتی اور کبھی ایک چپاتی تناول فرمایا کرتے۔


 



[1] شمس الدین عظیمی خواجہ، تذکرہ قلندر بابا اولیا مکتبہ تاج الدین بابا کراچی، سن ندارد ، ص۳۰

[2] سید نثار علی بخاری م کلام عارف(مرتبہ

[3] شمس الدین عظیمی خواجہ، تذکرہ قلندر بابا اولیا مکتبہ تاج الدین بابا کراچی، سن ندارد، ص ۳۱

[4] یاسر زی شان: تعارف حضور قلندر بابااولیا ،شرح رباعیات(چراغ الدین) ۲۰۰۵،ص۲۵

[5] کتابچہ روحانی تربیتی ورکشاپ ، قلندر شعور فاونڈیشن کراچی، ۲۰۰۱، ص ۱۰

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔