Topics
شادی کے بعد حضور بابا صاحبؒ دہلی میں قیام پذیر
ہوگئے۔ سلسلہ معاش قائم رکھنے کے لئے مختلف رسائل و جرائد کی صحافت اور شعراء کے
دیوانوں کی اصلاح اور ترتیب کاکام اپنے لئے منتخب کیا۔ شب میں شہر کے شعراء، ادباء
کی محفلیں جمتیں اور دن کے وقت ان کے پاس صوفی منش لوگ آتے اور تصوف پر سیر حاصل
گفتگو اور تبصرے ہوتے۔ آپ کے شاعرانہ ادبی مشوروں سے شعراء مستفید ہوتے اور اہلِ
ذوق حضرات آپ کی صحبتِ صالحہ سے مشرف و بامراد ہوتے تھے۔ یوں اسی عرصہ میں سید محمد عظیم
رحمۃ اللہ علیہ نے باقاعدہ علمی کام کا آغاز کیا۔ اس ضمن مین ابھی تحقیق کی ضرورت
ہے کہ ان کے تالمذہ اور ہم عصر کون سے لوگ تھے اور کن شعراء کے کلام میں انہوں
نےاصلاح سخن کا فریضہ انجام دیا۔
۱۹۳۶ میں آپ نے برطانوی ہندوستانی
فوج میں ایک سال ملازمت کی۔ دہلی میں چار مہینے کی ٹریننگ کے بعد ۳۰۰ سپاہیوں کے ہمراہ بمبئی
گئے اور وہاں سے پونا گئے۔ ایک مرتبہ جاپان کی جنگ میں جانے کی بات ہوئی تو قلندر
بابااولیاءؒ نے کہا میرے والد بوڑھے ہیں۔ پہلے میں ان سے جانے کی اجازت لے لوں۔ آپ
اپنے والدین کا بہت ادب کرتے تھے۔۱۹۳۷ میں
ایک مرتبہ آرمی میں ڈیوٹی کے سلسلے میں کولمبو گئے۔ایک دن اپنے کمرے میں بیٹھے
ہوئے تھے کہ وہاں ایک گولا آکر گرا۔اس وقت قلندر بابااولیاءؒ نے جو حفاظتی ٹوپی
پہنی تھی اس میں آنکھوں کی حفاظت کے لیے جو شیشہ تھا وہ دھماکے کی شدت سے ٹوٹ گیا
اور کافی سارا دھواں مٹی سمیت سانس کے ذریعے اندر چلا گیا اور پسلیاں اندر دھنس
گئیں۔ بیت تکلیف ہوئی، زخمی بھی ہوگئے، آخر عمر تک ٹانگوں پر ان زخموں کے نشان موجود
تھے۔ انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔تکلیف کے باعث وہ کروٹ نہیں لے سکتے
تھے۔آپ صحت مند ہونے کے بعد واپس اپنی ملازمت پر چلے گئے بعد میں ملازمت چھوڑ دی۔
اس بارے میں سید نثار علی
بخاری کا بیان ہے کہ:
" قلندر بابا نے
شادی کے کچھ عرصہ بعد حکومت برطانیہ کی بری فوج میں جونیئر افسر کی حیثیت سے
ملازمت کرلی -- ملایا ، سنگاپور کی طرف آٹھ مہینے ملازمت کی کہ بم پھٹنے کے حادثہ
میں آپ زخمی ہوگئے اور صحت یاب ہونے پر آپ
نے ملازمت ترک کردی -وطن واپس آنے کے بعد آپ اپنے پدر
بزرگوار کے ساتھ ہاپوڑ باغپت ضلع میرٹھ کی تحصیلوں میں رہے اور عارضی طور پر
سرکاری آسامیوں پر کام کرتے رہے .. چونکہ یہ کام آپ کی اعلیٰ طبیعت کے منافی
تھا اس لئے اس سلسلہ کو بہت جلد ترک کرکے..... دہلی میں قیام پزیر ہوگئے اور
دہلی میں معاش کا ذریعہ رسائل و جرائد کی صحافت اور شعراء کے دواوین کی اصلاح و
ترتیب کا کام منتخب فرمایا - کبھی رؤسا اور امراء کی پیشکش قبول نہ کی اور
نہ ہی خود دولت مند بننے کی خواہش اور کوشش کی –"[1]
اسی دور کے بارے
میں سید نثار علی بخاری بتاتے ہیں کہ:
"قلندر
بابا سال میں ایک مرتبہ دہلی سے بلند شہر تشریف لایا کرتے تھے اور
ڈیڑھ دو مہینے غریب خانے پر قیام فرماتے - اس دوران میں شہر اور کبھی کبھار
بیرون شہر بھی شعراء و ادباء کی محفلیں جمتیں اور صبح و شام کے اوقات میں آپ کے
پاس صوفی منش لوگ آتے اور تصوف و بزرگان دین اور اولیاء عظام کے مکتوبات و ملفوظات
پر سیر حاصل گفتگو اور تبصرے ہوتے دوسروں کی باتیں اطمینان سے سنتے اور آپ کی
خداداد صلاحیت علم سے شعراء اور ادباء مستفید ہوتے ۔۔۔اور اہل ذوق حضرات آپ کی
صحبت صالحہ اور دقیق و پیچیدہ مسائل کی تصریحات سے محظوظ ہوتے اور سکون قلب حاصل
کرتے اسی طرح شب و روز سالہا سال تک بہترین فضا و ماحول میں گزرے -[2]
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔