Topics

خواب اور قلندر بابا ااولیاء رحمۃ اللہ علیہ

 

انسان کے اندر کام کرنے والے حو اس کی نوعیت ورق کی ہے ورق کے ایک صفحے کی عبارت بظاہر روشن ہے دوسرے کی عبارت نسبتاً  دھندلی ہے ۔صفحہ کا روشن حصہ بیداری ہے اوردھندلہ حصہ خواب ہے۔

خواب ہماری زندگی کا نصف حصہ ہے اور ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ایسے حو اس بھی کام کرتے ہیں۔ جن کے ذریعے انسان کے اوپر غیب کا انکشاف ہوجاتا ہے قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے "ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پرسےدن کو( سورہ یاسین) آیت مقدسہ کی روشنی میں ہمارے اندر کام کرنے والے دونوں حواس ( بیداری کے حواس و خواب کے حواس )ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں بالکل اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یک جان ہو گئے۔

انسان کے اندر کام کرنے والے حواس کی نوعیت بھی ورق کی طرح ہے۔ ورق کا ایک صفحہ بیداری ہے اور دوسرا صفحہ خواب ہے ۔دونوں صفحوں پر ایک ہی عبارت لکھی ہوئی ہے۔ صرف زاویہ نظر کا فرق ہے۔ نظر ایک صفحے پر تحریر کو زیادہ روشن اور صاف دیکھتی ہے اور دوسرے صفحے کی عبارت کو دھندلا  اور غیرواضح دیکھتی ہے روشن اورواضح دیکھنے کے حالت میں نظر ذہن کوعبارت کے مفہوم سے آگاہ کر دیتی ہے۔اور جب نظر اس عبارت کو دھندلہ  اورغیر واضح دیکھتی ہے تو ذہن اس عبارت کا مفہوم سمجھنے سے قاصر رہتا ہے یعنی اس وقت بیداری میں کام کرنے والی نظر کے لئے دھندلی ہے ۔اس لئے اس میں زیادہ غور و فکر مرکوز ہو جاتی ہے توانسان عبارت کی معنویت اور معنویت میں حقیقت کو تلاش کرلیتا ہے۔

بتانا یہ ہے کہ ورق کے ایک صفحہ کی  عبارت جو بظاہر روشن ہے ہم سرسری طور پر کوئی نہ کوئی معنی بنا لیتے ہیں۔ جس میں حقیقت کا پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے اور ورق کے دوسرے صفحے کی عبارت میں ( جو بہت غوروفکر کے ساتھ مطالعہ کی جاتی ہے)حقیقت کے چھپے ہوئے پہلو نمایاں ہوجاتے ہیں۔جس کوہم خواب دیکھنا کہتے ہیں وہ دراصل ورق کے دوسرے  صفحے کی وہ  عبارت ہے جو بیداری کے ہو اس کی گرفت میں نہیں آتی۔

انسان کے اندر کام کرنے والے حو اس بیداری کے ہوں یا خواب کے غیب سے براہ راست ایک ربط رکھتے ہیں۔ کیونکہ ایک ہی عبارت الگ الگ دو صفحوں پر تحریر ہے اس لیے اس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔

انسان نے اپنی نادانی کی وجہ سے ایک حصے کا نام ظاہر اور دوسرے حصے کا نام  غیب رکھ لیا ہےفی الواقع یہ طرز وفکر اللہ تعالی کے بیان کردہ قانون کے خلاف ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ہم نکالتے ہیں رات کو دن سے نکالتے ہیں دن کو رات سے اور داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور دن کو رات میں ۔یعنی رات اور دن کے حواس ایک ہی ہیں۔فرق یہ ہے کہ ہم  ہم نے ان حواسواں میں ایک حو اس کو اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہےچونکہ یہ تسلط خود ہمارا اختیار کردہ ہے ۔اس لیے ہم نے اس پابندی میں مقید ہو کر خود کو پابند کر لیا ہے اور اس پابندی نےہمیں ٹائم اور اسپیس کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔

 خواب یا خواب کے حواس میں ہم ٹائم اسپیس کے ساتھ ہاتھ میں کھلونا نہیں بلکہ ٹائم اسپیس ہمارے لئے کھلونا بنے ہوئے ہیں۔خواب میں چھوٹی ٹائم اسپیس (زمانیت مکانیت) کی جکڑ بندیاں  نہیں ہیں اس لئے ہم خواب میں ایسے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں جو ٹائم اسپیس سے ماوراء ہیں اور ہمارا یہ مشاہدہ سب کا سب غیب  اور مستقبل کی نشاندہی کا ضامن ہے۔

آسمانی صحائف اور قرآن مجید میں مستقبل کی نشاندہی کرنے والے خوابوں کا ایک سلسلہ ہے جو نوع انسانی کو تفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ قرآن مجید کے مطابق یہ بات صرف انبیاء کے لیے مخصوص نہیں کہ انبیاء ہی کے خواب سچے ہوتے ہیں بلکہ ہر انسان اللہ تعالی کے اس قانون سے فیضیاب ہے۔تاریخ کے صفحات میں کتنی خوابوں کا تذکرہ ہے جو مستقبل کا انکشاف کرتے ہیں بعض  خواب پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں

 گیارہ ستارے سورج اور چاند

 سورہ یوسف میں مستقبل کے آئندہ خوابوں کا تذکرہ آیا ہے۔

"یوسف علیہ السلام نے کہا اے میرے باپ میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں ۔اور سورج اور چاند اور یہ سب مجھ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا میرے بیٹے جس طرح تو نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے سورج اور چاند کے آگے جھکے ہیں اسی طرح پروردگار تجھے برگزیدہ بنانے والا ہے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے جنہیں اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت عطا ہوئی تھی اپنے لخت جگر کو یہ بھی بتایا کہ اس خواب کو اپنے بھائیوں کو نہ بتانا ۔(قرآن الحکیم)

حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس خواب میں موجود حضرت یوسف علیہ السلام کے مطابق ملک کو دیکھ لیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نےاپنےجگر گوشہ کو یہ ہدایت فرمائی کہ اپنے بھائیوں سے آپ کا تذکرہ نہ کرنا ۔خواب کی تعبیر میں یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کی جان کے دشمن ہو جائیں گے۔

 خواب میں مستقبل کی نشاندہی

اسی طرح جب حضرت یوسف علیہ السلام زندان مصر میں قید تھے۔ قیدیوں نےجن میں  ایک دشاہ کا ساقی گرتھا اور دوسرا باورچی تھا اوروہ بادشاہ کو زہر سے ہلاک کرنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے اپنےخواب سنائے۔ ایک شخص نے بتایا "میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں انگور نچوڑرہا ہوں"

دوسرے نے کہا میں نے دیکھا کہ

" سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اسے کھا رہے ہیں۔"

حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر میں فرمایا کہ انگور میں نچوڑنے والا بری ہو جائے گا ۔اور اسے پھر ساقی گری سونپ دی جائے گی۔ دوسرا سولی پر چڑھایاجائے گا۔اور اس کا گوشت مردار جانور کھائیں گے۔

14 سال کے غیب کا انکشاف

 قرآن مجید میں بیان کردہ چوتھا خواب بادشاہ مصر کا ہے ب۔ادشاہ نے تمام درباریوں کو جمع کرکے بتایا کہ سات گائیں  دوسری سات  گائیں کو نگل رہی ہیں اور سات   بالیں ہری ہیں اور دوسری  سات  سورکھی ۔

بادشاہ کے دربار میں ماہرین خواب نے اس خواب  کو بادشاہ کی پریشان خیالی کا مظہر قرار دیا لیکن حضرت یوسف علیہ سلام نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی  کہ سات برس تک لگاتار چھٹی کرتے رہو گے انصاف برسوں میں غلے کی خوب فراوانی ہوگی اس کے بعد سخت قحط پڑ جائے گا۔ایک دانہ  بھی باہر سے نہیں آئے گا انصاف سالوں میں وہی غلہ  کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ کیا جا چکا ہوگا۔غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن پاک میں بیان کردہ خوابوں میں ایک پیغمبر کا ہے اور تین خو اب عام انسانوں کےہیں ۔انجیل میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے خو اب کا ذکراس طرح کیا گیا ہے۔

”اور خدا نے رات کو خواب میں اسرائیل سے باتیں کیں اور کہا اے یعقوب، اے یعقوب، اس نے جواب  دیامیں حاضر ہوں۔ اس نے کہا میں خدا تیرے باپ کا خدا ہوں۔ مصر میں جانے سے نہ ڈر کیونکہ میں وہاں سے بڑی قوم پیدا کروں گا میں تیرے ساتھ مصر کو جاؤں گا ۔اور پھر تجھے ضرور لوٹا بھی لاؤں گا۔ا اور یوسف اپنا ہاتھ تیری آنکھوں پر لگائے گا۔"

واقعات اسی طرح پیش آئے جس طرح خوابوں میں نشاندہی کی گئی تھی۔

بد خوبادشاہ

خلیفہ ہارون رشید کی ملکہ زبیدہ کا خواب بھی قابل غور ہے ملکہ زبیدہ نے اپنے بیٹے امین الرشید کی پیدائش کا خواب دیکھا کہ چار عورتوں نے امین الرشید کو کفن میں لپیٹنا شروع کر دیا ہے۔ لپیٹتے وقت ایک عورت نے دوسری سےکہا۔"بدچلن"  ظالم نہ سمجھ اور فضول خرچ فرماں روا" تیسری نے کہا گناہگار ،بے وفا کم کر اور ناتجربہ کار حکمراں "چوتھی نے کہادھوکے باز عیاش اور مغرور تاجدار ،تاریخ بتاتی ہے کہ خواب کا ایک ایک لفظ درست ثابت ہوا۔ اس بات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ذہن بیداری کی طرح خواب میں بھی معنویت اور مفہوم کی طرف متوجہ رہے تو خواب اور خواب کی تعبیر ساتھ ساتھ ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔

خواب میں پیشنگوئیاں

علامہ اقبال کی پیدائش سے پہلے ان کے والد نے خواب دیکھا ۔کہ ایک بہت بڑا میدان ہے اس میں لوگوں کا ہجوم ہے ۔فضا میں رنگارنگ پروں والا ایک نہایت خوبصورت پرندہ اڑرہا ہے۔ لوگ دیوانہ وار ہاتھ بڑھا کر اس پرندے کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔علامہ اقبال کے والد بھی اس میں شامل ہیں وہ پرندہ باوجود جدوجہد کے ہاتھ نہیں آتا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ یکایک یک پرندہ فضا سےاتر کر ان کی گود میں آگیا اور انہوں نے اسے پکڑ لیا۔

حضرت مجدد الف ثانی کی ولادت سے پہلے ان کے والد نے خواب میں دیکھا کہ تمام دنیا میں اندھیرا چھایا ہوا ہے اور بندر لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔یکایک حضرت مجدد الف ثانی کے والد کے سینہ سے ایک نور نکلا اور اس میں ایک تخت ظاہر ہوا۔ اس  تخت پر ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہے۔ اس کے سامنے ملحدوں اور ظالموں کو ذبح کیا جارہا ہے۔ اور کوئی شخص بلند آواز سے پکار رہا ہے:

جناح الحق وزحق با الباطل ان الباطل کان زھوقا ۔

( حق آ گیا اور باطل مٹ گیا اور باطل کے مقصد میں مٹنا ہی ہے)

تعبیر  یہ بتائی  گئی کہ تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا اور اس کے ذریعہ حق کا بول بالا ہو گا اور کفر کا خاتمہ ہو جائے گا۔

تاج الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ

 حضرت بابا تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ پوری کی والدہ ماجدہ نے ان کی پیدائش سے ایک ایسا میدان ہے جس کی وسعت کا اندازہ ممکن نہیں اس میدان میں ہزاروں شہر آبادہیں  اور اس شہر میں ہر مذہب اور ملت کے لوگ رہتے ہیں۔ سردی کا موسم ہے۔چودھویں رات ہے۔ چاندنی ہر سمت ہے پھیلی ہوئی ہے ۔ہر شخص چاندنی کےحسن سے سرشار ہے پھر دیکھا کہ چاند آسمان سے ٹوٹ کر ان کی گودمیں آگرا اور اس کی روشنی عالم میں پھیل گئی۔

قلندربابا اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے والد بزرگوارنے نصف شب کے بعد  خواب دیکھا کہ وہ آسمان کے نیچے کھڑے ہیں۔ رات کا وقت ہے ۔ ستارے جھل مل کررہے ہیں۔ شمال کی طرف بہت دور دراز ایک بہت روشن ستارہ شہاب ثاقب ٹوٹتا ہے اور برق رفتاری کے ساتھ زمین پر آتا ہے۔ والد بزرگوار اس ستارے کو حاصل کرنے کے لیے اپنا دامن پھیلاتے ہیں۔اور یہ ستارہ ان کی گود میں آگرتا ہے دہشت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جب اس ستارے کو دامن سے اٹھاتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا سچا موتی ہے۔ اس  خواب کے ٹھیک نو مہینے بعد ابدال حق قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ دنیا میں تشریف لائے۔

 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔