Topics

روزگار


تقسیم ہند کے بعد حضور قلندر بابا اولیاءؒ اپنے والد، رفیقہ حیات، بچوں اور اپنے  بہن بھائیوں کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئےاور کراچی میں رہائش اختیار کی۔ابتدائی دنوں میں  کراچی میں لی مارکیٹ کے محلے میں ایک نہایت خستہ و بوسیدہ مکان کرائے پر لیا۔ کچھ عرصہ کے بعد خان بہادر عبدالطیف، کمشنر بحالیات  مقرر ہوئےجو حضور بابا تاج الدین ناگپوریؒ کے عقیدت مند تھے، نے آپ سے کہا کہ ایک درخواست لکھ کر دے دیجئے تاکہ آپ کے لئے کوئی اچھا سا مکان الاٹ کردیا جائے۔سید محمد عظِیم  نےاس درخواست پر توجہ نہیں دی۔

کچھ عرصہ کے بعد آپ نے عثمان آباد شو مارکیٹ کے علاقہ میں رہائش اختیار کی۔۶۰ کے آخری برسوں میں کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں حیدری کے مقام پر رہائش پذیر ہوئے اور یہیں آپ کا وصال ہوا۔

اسی بارے میں سید نثار علی بخاری کا بیان ہے کہ:

"اور قلندربابا اولیا لی مارکیٹ کے علاقہ میں اپنے مکان سے ملحق میرے اور میری ہمشیرہ اور بھانجوں کے لئے ایک مکان کرایہ پر لے لیا اور ہم سب بھی وہیں رہنے لگے لیکن یہ علاقہ رہنے کے قابل نہیں تھا چنانچہ میں پیر الہی بخش کالونی میں منتقل ہوگیا اور قلندر بابا عثمان آباد میں مکان خرید کر تشریف لے گئے۔"

حضرت سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نےکراچی میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد ذریعہ معاش کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ لارنس روڈ کی فٹ پاتھ پر روزانہ صبح جا کر بیٹھ جاتے اور بجلی کے فیوز وغیرہ لگا کر اپنی زندگی بسر کرتے۔ پھر اردو ڈان میں سب ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز ہو گئے۔

۱۹۴۵ علامہ نیاز فتح پوری کے رسالہ نقاد میں کام شروع کیا۔اسی دور میں رسالہ میں بیشتر کہانیاں آپ نےلکھیں جو فرضی ناموں سے شایع ہوئیں۔ایک عرصہ تک رسالہ نقاد میں کام کرتے رہےتھے۔

کچھ رسالوں کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئیے ۔ کئی مشہور کہانیوں کے سلسلے بھی قلم بند کئے ۔ جو دوسروں کے نام سے چھپتی رہیں۔ سلسلہ وار کہانیوں سے متعلق ایک کتاب بھی زیور طبع سے آراستہ ہوئی اور وہ عوام میں اتنی مقبول ہوئی کہ اس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہوئے۔

یہ دور پھر پور ادبی زندگی کا دور تھا۔ اسی دور میں آپ نے شاعری کی کہانیاں اور افسانے لکھے۔

اس بارے میں عبدالرؤف عظیمی لکھتے ہیں کہ:

"آپ کو شعر و شاعری سے خص شغف تھا۔۔برخیا تخلص فرماتے تھے۔۔۔۔مختلف رسائل اور ہفت روزہ میں کہانیاں قلم بند کیں۔۔شاعرانہ کلام کی اشاعت کے ساتھ غیر معمولی افسانے بھی لکھے اس کے بعد ایک عرصے تک کراچی سے شایع ہونے والے ماہنامہ"نقاد " میں کام کرتے رہے۔ چند رسائل کی ادارت میں معاونت بھی کی۔ نقاد میں ملازمت کے زمانے میں ماہنامہ نقاد میں ایک سلسلہ وار کہانی شیطان کی سوانح عمری کے عنوان سے قسطوں میں چھپنا شروع ہو گئی۔۔شیطان کی سوانح عمری اور معمے کی بنیاد پر ماہنامہ نقاد عوام میں بے انتہا مقبول ہوا۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  صاحب بتاتے ہیں کہ میرا چشم دید ہے کہ ماہنامہ نقاد کے دفتر کے سامنے لوگوں کی بڑی بڑیقطاریں لگی رہتی تھیں۔

اسی دور کے بارے میں سید نثار علی بخاری کا بیان ہے کہ:

قلندر بابا نے سیٹھ عثمان بمبئی والا کے کارخانہ میں آرمیچر وغیرہ باندھنے کا کام شروع کردیا۔ اسی دوران روزنامہ اردو ڈان میں ایک مناسب اسامی پراسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے فائز ہوگئے اور جب اردو ڈان بند ہوگیا تو رسالہ نقاد میں کام کرنے لگے نقاد رسالہ کے دفتر کے قریب رتن تالاب پر طفیل احمد صاحب چغتائی رہتے تھے۔

قلندر بابا تقریبا روزانہ شام کو دفتر سے فارغ ہو کر چغتائی صاحب کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ہفتہ کی شام میرے پاس پیر الہی بخش کالونی میں تشریف لاتے اور رات کو وہیں قیام فرما کر اتوار کو اپنے گھر تشریف لے جاتے۔

 

رتن تالاب پر قلندر بابا اولیا رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کے بعد علمی گفت گو ہوتی ۔ گویا رتن تالاب ایک طرح سے قلندر بابا اولیا کی علمی بیٹھک کی حیثیت رکھتا تھا جہاں اہل علم اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔ نثار علی بخاری نے اس دور کی بعج روحانی کیفیات اور واردات بھی بیان کی ہیں۔ اس دور کی بابت عبدالرؤف عظیمی نے خواجہ شمس الدین عظیمی کی قلندر بابا اولیاء سے دوسری ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے رتن تالاب پر علمی گفت گو کا ذکر کیا ہے۔

عبدالرؤف عظیمی لکھتے ہیں کہ:

" دوسری ملاقات چار سال بعد 1954ء میں ہوئی -عظیمی صاحب کے ایک دوست طفیل احمد چغتائی ملٹری میں لیفٹننٹ تھے ، وہ اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے کہ میرے ایک دوست تھے محمّد عظیمؒ معلوم نہیں وہ اب کہاں ہیں-بہت تلاش کیا لیکن نہیں مل سکے - ایک دن انہوں نے خواجہ صاحب کو بتایا میرے وہ دوست مل گئے ہیں اور آج کل ماہنامہ نقاد میں کام کرتے ہیں -آپ ان کے ہمراہ جب ماہنامہ نقاد کے دفتر پہنچے تو وہاں شگفتہ ،شاداب اور پرسکون چہرہ ،مردانہ وجاہت کی مکمل تصویر دیکھ کر چار سال پہلے کی ملاقات ذہن میں گھوم گئی -آپ کو دیکھتے ہی محمّد عظیم صاحب نے آپ کو سینے سے لگالیا  پیشانی پر بوسہ دیا اور آنکھوں کو چوما- آپ پہلی مرتبہ وصال کی لذت سے آشنا ہوئے -اس ملاقات کے بعد مستقل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا -خواجہ صاحب مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد روزانہ شام کو دفتری اوقات کے ختم ہونے سے کچھ منٹ پہلے ماہنامہ نقاد کے دفتر کے سامنے ان کے انتظار میں کھڑے ہوجاتے -وہاں سے دونوں رتن تالاب صدر جاتے -رتن تالاب صدر کراچی میں علم دوست حضرات جمع ہوتے تھے -روحانیت پر سیر حاصل گفتگو ہوتی اور مغرب کی نماز کے بعد آپ دونوں وہاں سے بس میں بیٹھ کر  1 ڈ ی 1 /7     ناظم آباد آجاتے تھے - 


 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔