Topics

جمالِ ذات- باب اول -عظیم بندہ


اے اللہ! عظیم بندہ ملا دے۔اے اللہ! عظیم بندہ ملا دے۔اے اللہ! عظیم بندہ ملا دے۔اور اللہ کا وہ فرستادہ عظیم بندہ مجھے مل گیا۔میرے اندر کی آتما کو قرار آ گیا۔ تاریک زندگی روشن ہو گئی۔ مجھے اجالا مل گیا۔ ایسا لگا کہ یوم ازل میں اس عظیم بندہ پر میری روح قربان ہو گئی تھی۔ دھیرے دھیرے میرے اندر کا سورج جو شک اور بے یقینی سے گہنا گیا تھا، افق سے باہر آیا اور اس سورج نے نیئر تاباں بننے کے لئے سفر شروع کر دیا۔حضرت محمد عظیم سے راہ و رسم بڑھی، جذبات و احساسات محبت بن گئے۔ پھر محبت نے عشق کا روپ دھار لیا اور عشق مجازی سراپا عقیدت کی تصویر بن گیا۔

۱۹۵۰ء جنوری کی ایک صبح ایک دوست کی تلاش میں اخبار ڈان کے دفتر میں گیا تو وہاں ایک صاحب سے دعا سلام ہوئی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ اتنا پرسکون چہرہ دیکھ کر دل اتھل پتھل ہو گیا۔ شگفتہ شاداب اور پرسکون چہرہ، آنکھوں میں کیف و مستی کا خمار، مردانہ وجاہت کی تصویر۔۔۔۔۔۔یقین نہیں آیا کہ اس زمانہ میں کسی بندے کو اتنا سکون میسر آ سکتا ہے۔ سریلی شیریں مگر مردانہ بھاری آواز میں بندہ نے کہا:’’تشریف رکھیں کیا کام ہے؟‘‘

اور پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ اس وقت بھرپور جوانی کے منہ زور گھوڑے کی رکابیں میں نے مضبوط ہاتھوں سے تھام رکھیں تھیں۔۔۔۔۔۔عظہم بندہ نے میری عمر اور میرے جذبات کی مناسبت سے دو شعور سنائے۔ آنکھوں میں چمک اور خمار کے سرخ ڈورے میری آنکھوں میں دیکھ کر عظیم بندہ نے دل پر نشتر رکھ دیا۔

محبت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔میں گم سم ہو گیا۔ ایک حجاب تھا جو میرے اوپر چھا گیا۔۔۔۔۔۔پلکیں حیا کے بوجھ سے جھک گئیں۔۔۔۔۔۔میرے اندر کا چور پکڑا گیا۔محبت کرتے ہو، بے وفائی کے ساتھ۔بے وفا بننا، محبت کے ساتھ اس دنیا کی ریت ہے۔میں بوجھل قدموں سے اٹھا سلام کیا۔ کہا، پان تو کھاتے جایئے۔ میں جس دوست کی تلاش میں گیا تھا وہ نہیں ملا۔ مگر مجھے مستقبل کا دوست مل گیا۔ ایسا دوست جو پہلی ہی ملاقات میں میرے دل میں اتر گیا۔

نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ ہندوستان سے آنے والے لوگ اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے تھے۔ شہزادیاں ٹاٹ کے پردوں میں بندرروڈ کے فٹ پاتھوں پر حیات و زیست کے معاملات میں الجھی ہوئی تھیں۔ کبر و نخوت کی بڑی بڑی تصویریں آرام باغ کی پتھریلی زمین پر شب بسری پر مجبور تھیں۔۔۔۔۔۔جن خواتین کا کسی نے آنچل نہیں دیکھا تھا وہ حوائج ضروریہ کے لئے قطار در قطار کھڑی نظر آتی تھیں۔ جن مردوں و خواتین نے کبھی ناک پر مکھی کو نہ بیٹھنے دیا تھا۔۔۔۔۔۔وہ بھیک کے بڑے بڑے پیالے لے کر ناشتہ اور دوپہر کی روٹی کے لئے انتظار کرتے تھے۔ زیادہ لوگ ایسے تھے جو خورد و نوش اور رہائش کے لئے فکر مند تھے۔ ہر طرف ہر آدمی پریشانی کا پیکر تھا۔

میں بھی انہی میں سے ایک فرد تھا۔میں نے پاکستان کی تخلیق میں کیا کچھ نہیں دیکھا ہے؟

بڑے شہر میں ایک گھر سے جب کیمپ میں جانے کے لئے باہر نکلے تو سڑکوں پر مسلمانوں کی لاشیں دیکھیں، سڑک پار کرنے کے لئے مجھے سوچنا پڑا کہ میں اپنے بھائیوں اور اپنے بچوں کی زخمی سربریدہ لاشوں پر سے کیسے گزروں مگر جب کوئی چارہ کار نہیں رہا۔۔۔۔۔۔توپنجوں کے بل گزر گیا۔

دیکھا کہ چوباروں سے خون ٹپک ٹپک کر جم گیا ہے۔ نالیوں میں پانی کے ساتھ خون بہہ رہا ہے۔ قرآن پاک کے مقدس اوراق سڑک پر بکھرے پڑے ہیں۔ میں اللہ کی کتاب کے نورانی اوراق اٹھاتے اٹھاتے اور لمبے کُرتے کے دامن میں جمع کرتے کرتے شیراں والا دروازہ میں سے باہر نکل آیا۔ وہاں غیر مسلم فوجی کھڑے تھے۔ مجھے ایک فوجی نے وارننگ دی اور بندوق میری طرف تان لی۔ میں نے اس سے اس ہی کی زبان میں کہا۔

اگر گرنتھ صاحب کے اوراق اس طرح زمین پر ہوتے تو کیا تم انہیں نہ اٹھاتے؟

فوجی بندوق پر ہاتھ مار کر اٹینشن ہو گیا اور دونوں ایڑیوں پر گھوم گیا۔

میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا اور میں سوچنے لگا مسلمان اتنا بے حس ہو گیا ہے کہ اسے یہ بھی نظر نہیں آتا کہ قرآن کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔

جو قافلے ریلوں میں سفر کر کے آئے ہیں انہیں آج بھی یاد ہے کہ ریلوں کی چھتوں پر یخ بستہ ہواؤں میں انہوں نے سفر کیا ہے ۔ جو جہاں گر گیا وہ وہاں مر گیا، بے گور و کفن لاشیں ریلوے لائن کے دونوں اطراف نظر آ رہی تھیں۔ ہماری پاک فوج ریلوں میں آنے والے قافلوں کی محافظ نہ ہوتی تو شاید وہاں سے ایک فرد بھی پاکستان زندہ نہ آتا۔

ان حالات میں کیسے کسی کے چہرے پر سکون مل سکتا ہے۔ میں ایک ٹوٹا ہوا ریزہ ریزہ بکھرا ہوا انسان تھا۔ مستقبل کی روشنی اتنی مدہم تھی کہ بے یقینی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اطمینان قلب لگتا تھا تقدیر سے نکل گیا ہے۔

ایسے میں ایک بندہ ملا جو پرسکون تھا، خوش تھا۔ گو کہ لباس بہت معمولی تھا، گو کہ ایک جھونپڑا تھا، گو کہ بظاہر مالی وسائل محدود تھے، مگر یہ بندہ خوش تھا۔ فکر فردا سے آزاد تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ جدوجہد جاری رہی اور اتنا زیادہ منہمک ہو گیا۔ سکون نام کی کوئی شئے قریب نہیں رہی۔ دنیاوی رنگ و دو اور حرص و ہوس میں عظیم بندے کا عظیم چہرہ بھی دھندلا گیا

دادی اماں کی بات "بیٹا انتظار کر" بھی ذہن سے نکل گئی۔

جب میں دنیا میں اچھی طرح لتھڑ گیا، کثافت میرے جسم کا میل بن گئی، وسوسوں نے زندگی کو بے کیف کر دیا۔ خوف نے لقمہ تر سمجھ کر مجھے نگل لیا۔ جھوٹی انا اور پر فریب وقار کے جال میں بے دست و پا ہو گیا تومیں نے خواب میں دیکھا کہ:

ایک بزرگ مجھے شفاف چشمے کے پانی سے نہلا رہے ہیں۔ جسم میں تعفن اٹھ رہا ہے۔ ایسا تعفن جس کو سونگھ کر بار بار قے ہو رہی ہے۔

بزرگ نے مجھے نہلا دھلا کر سفید چادر میں لپیٹا اور کہا:دادی کے پاس جانا ہے؟

آنکھ کھلی تو دنیا بدل چکی تھی۔ کانوں میں دادی اماں کی آواز آنے لگی۔

بیٹا! تو اتنا بودا اور کمزور ہے کہ سب بھول گیا۔تو اللہ کی دی ہوئی نعمت کو بھی بھول گیا۔

ظہر کی نماز کے وقت سے مغرب کی نماز تک مسجد میں بیٹھنا میرا معمول بن گیا۔

ایک ہی بات ورد زبان تھی۔

‘‘اے اللہ !اپنا فرستادہ عظیم بندہ ملا دے۔‘‘

اللہ سے اپنی کوتاہی کی معافی مانگتا تھا۔ آہ و زاری کرتا تھا اللہ کو پکارتا تھا۔’’اے اللہ! عظیم بندہ کہاں ڈھونڈوں؟‘‘

تلاش میں پیر تھک گئے۔ دل ڈوب گیا، آنکھیں پتھر بن گئیں۔ نیند روٹھ گئی۔بھوک و پیاس نے منہ موڑ لیا۔یاد میں فراق میں اور فریاد میں دن رات گزرتے رہے۔مادی جسم سوکھ کر کانٹا بن گیا۔آنکھوں میں سیاہ حلقے نمایاں ہو گئے۔دوستوں نے کہا وظیفوں کی رجعت ہو گئی۔عاملوں کاملوں نے اشارہ کیا۔ آسیب لپٹ گیا ہے۔کوئی جادو ٹونے کا چکر ہے۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ میں اپنی آگ میں جلتا رہا۔ قریب تھا کہ مادی وجود جل کر کوئلہ بن جائے۔ کہعصر کے بعد اور غروب آفتاب سے پہلےیہ خبر کانوں میں رس گھول گئی۔بھائی عظیم نقاد کے دفتر میں کام کرتے ہیں۔

افتاں و خیزاں رھڑکتے دل کے ساتھ محبوب کے حضور حاضری ہوئی۔ پہلی مرتبہ وصال کی لذت سے آشنا ہوا۔اسرار و رموز سے بھرے ہوئے سینے سے مجھے چمٹا لیا۔پیشانی پر بوسہ دیا، آنکھوں کو چوما۔۔۔۔۔۔عید ہو گئی۔

آندھی، برسات، گرمی، سردی روزانہ شام کے وقت دو سال تک محبوب کا دیدار ہوتا رہا اور پھر محبوب نے اپنے قدموں سے چل کر میرے گھر کو اپنے نور سے منور کر دیا۔ گھر میں رونق آ گئی۔ طویل عرصہ تک شب و روز محبوب کے قدموں میں زندہ رہا۔ کوتاہ بینی سے کبھی محبوب کی نظر میں اپنائیت نہیں دیکھتا تھا تو میں موت کے گلے لگ جاتا۔

موت اور زندگی کی لڑائی میں محبوب نے کبھی موت کی فتح کو قبول نہیں کیا۔دماغ آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ محبوب کون ہے، میں یا میری زندگی۔عنایات خسروانہ اور لطف و کرم یہ بتاتا ہے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ عظیم بندہ کو اپنا محبوب کہوں۔ عظیم بندہ خود ہی محب ہے اور خود ہی محبوب۔

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔

دوسری طرز فکر انبیاء کی طرز فکر ہے۔ جس میں محبت، اخوت، خلوص، صدق مقال، ایثار ، اللہ کی مخلوق سے محبت اور خود اپنی روح سے محبت کے تقاضے ہیں۔ جو بندہ اللہ کی محبت سے آشنا ہو جاتا ہے اسے اللہ اپنا دوست بنا لیتا ہے اور جو بندہ تعصب، تفرقہ اور خود نمائی کے خول میں بند رہتا ہے اسے شیطان اپنا دوست بنا لیتا ہے۔[1]

 



[1] خواجہ شمس الدین عظیمی: صدائے جرس، روحانی ڈائجسٹ فروری ۱۹۹۳، ص ۱۴ تا ۱۸

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔