Topics

حیات ِ عظیم


مادی کائنات غائب اور مخفی بساط پر قائم ہے   غیب میں نظر دیکھتی ہے کہ ناسوتی دنیا اور لاکھوں دنیائیں ایک بھان متی ہیں ہے، یہاں کوئی باپ ہے اور کوئی ماں ہے، کوئی بچہ ہے، کوئی استاد ہے، کوئی شاگرد ہے، کوئی دوست ہے، کوئی دشمن ہے، کوئی گنہگار ہے کوئی پاکباز ہے، دراصل یہ سب اسٹیج پر کام کرنے والے کرداروں کے مختلف روپ ہیں، جب ایک کردار یا سب کردار اسٹیج سے اتر جاتے ہیں، سب ایک ہو جاتے ہیں اور ان کے اوپر سے دوری کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے یہ ایک راز ہے جس کی پردہ کشائی انبیاء کے وارث اولیاء اللہ کرتے ہیں انہیں میں سے ایک برگزیدہ ہستی حضور قلندر بابا اولیاء ہیں۔

حامل علم  لدنی،  ابدال حق ، صدرالصدور مرد حق آگاہ،  رہنمائے معرفت، فخراولیاء، عارف حق، مرد قلندر، ،وارث علوم الانبیاء، روحانی ڈائجسٹ کے روح رواں،  امام سلسلہ عالیہ عظیمیہ،  حسن اخری سید محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاءؒ، صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک طرز فکر ہیں جو نور انسانی کے لیے راہنمائی کا روشن مینار ہیں، آپ نے نوع انسانی کو قرآن میں تفکر اور توحید باری تعالی پر اتحاد کی دعوت نہایت عالمانہ لیکن موجودہ دور کے لئے عام فہم اور سائنسی انداز میں دی ہے۔

 آپ نےفیضان نبوت کی مشعل معرفت کو اس طرح سے تھاما،  کہ اس کی ضیائے تابناک سے تمام عالم منور ہوگیا۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:

"میں نے  اس عظیم بندے  کے چودہ سال شب و روز دیکھے ہیں، ذہنی جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندے کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے میں نے عظیم بندے کےمن مندر میں اللہ  کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندے کے نقطہ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر موجوداربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں بندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندے کی ذہنی حالت پر قائم ہے اس لئے کہ یہ  اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس کی اس بندے کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔"

قلندر بابا اولیاء جیسی ہستیاں صرف کسی ایک قوم کے لئے نہیں۔۔۔ پوری نوع انسانی کا سرمایہ ہوتی ہیں، ایسے لوگوں کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی لوگ ان کی تعلیمات سے فیض یاب ہوکر اللہ کا عرفان حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی بات کو مرشد کریم حضرت خواجہ  شمس الدین عظیمی نے کتاب "تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ "کے پیش لفظ میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ!

"نورانی لوگوں کی باتیں بھی روشن اور منور  ہوتی ہیں۔ زندگی میں ان کے ساتھ ایک لمحے کا تقرب سو سالہ اطاعت بے ریا سے   افضل ہے اور عالم قدس  چلے جانے کے بعد ان کی یاد  ہزار سالہ طاعت بے ریا سےاعلیٰ اور افضل  ہے کہ ایسے مقرب بارگاہ بندوں کے تذکرے سے آدمی کا انگ انگ  اللہ تعالی کی قربت کے تصور سے رنگین ہو جاتا ہے۔"

آپ کی زندگی کے حالات و واقعات،کشف و کرامات اسرارورموز کی خوشبو سے معطر ملفوظات و ارشادات پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن آپ کی ذات مبارکہ الفاظ کے محور  میں نہ سماسکی، مرشد کریم فرماتے ہیں!

ہمارے لئے اس عظیم بندے کی شخصیت اور تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش بھی کچھ کم اہمیت نہیں رکھتی درحقیقت ان کوششوں سے خود ہماری اپنی شخصیت ایک نئی جہت اور کائناتی علم کے حوالے سے تفہیم  وآگہی کی نئی راہوں سے روشناس ہوتی ہے۔ قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور تعلیمات میں  ٹفکرخود اپنی شخصیت کو جلا بخشتا ہے۔

"بڑے لوگوں کی عظمت  کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ان کی ذات دوسروں کو نہ صرف راہ نمائی عطا کرتی ہے بلکہ ان کی تعلیمات دکھوں  اور پریشانیوں کا مداوا ہوتی ہیں۔"

زیر نظر سوانح حیات حضور قلندر بابا اولیاءرحمۃ اللہ علیہ بھی سلسلے کی ایک کڑی ہے اس بات سے متعلق کہ ایسے  مقرب بارگاہ بندے کا تذکرہ کیا جائے جس سے آدمی جس آدمی کاانگ انگ  اللہ تعالی کی قربت کے تصور رنگین ہو جائے اور اسی کی تعلیمات  دکھوں اور پریشانیوں کا مداوا بن جائیں۔

یہ تمام تواریخ انتہائی احتیاط سے مرتب کی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ ان تواریخ سے متعلق باقاعدہ مکمل ریکارڈ بھی حاصل کیا جائے۔ لیکن کچھ اہم ریکارڈ کی عدم دست یابی کی بناء پر قریب ترین عرصہ کا اندراج کیا گیا ہے۔ لہذا یہ امر لازم ہے کہ کسی واقعہ سے متعلق تاریخ میں اختلاف ہو۔تاہم اس صورت میں یہ اختلاف معمولی اور قابل نظر انداز ہی ہوگا۔

 ولادت با سعادت

۲۹ جولائی ۱۸۹۸ (قومی شناختی کارڈ پر ۱۸۹۴ درج ہے)

بہ مقام پیرزادگان، قصبہ  خورد ضلع بلندشہر صوبہ یوپی بھارت

ابتدائی تعلیم

۱۹۰۲ مولانا شیرانی سے درس قرآن لیا۔ قصبہ خواجہ کے مکتب میں داخلہ لیا۔

میٹرک

۱۹۱۲ :ہائی اسکول بلند شہر سے کیا۔

انٹرمیڈیٹ

   ۱۹۱۳:علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

ابتدائی تربیت

۱۹۱۳۔۱۴ : علی گڑھ قیام کے دوران دور اندیشی کی طرف میلان بڑھ گیا۔

 زیادہ وقت قبرستان کے پاس مولانا کاہلی کے حجرے میں گزارتے رات تشریف لے جاتے تو صبح سے واپس آتے۔

تاج الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے دربار میں:

۱۵ -۱۹۱۴ :مولانا کابلی رحمۃ اللہ علیہ سے فراغت کے بعد بابا تاج الدین ناگ پوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس روحانی تربیت کے لیے حاضر ہوئے۔

۲۲-۱۹۱۴ : بابا تاج الدین ناگ پوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ۹ سال تک دن رات قیام کیا۔ بابا تاج الدین ناگ پوری رحمۃ اللہ علیہ نے روحانی تربیت فرمائی۔

والدہ کی وفات :

قبل از ۱۹۲۲ :  زمانہ تربیت میں ہی حضور قلندر بابا اولیاء کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی سعیدہ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کو چھوڑ کر عالم بقا میں چلی گئیں، ایک ہم شبرہ کے علاوہ سارے  بچے حضور قلندر بابا اولیاء سے چھوٹے تھے۔ کوئی بھی باشعور نہ تھا، آپ بہن بھائیوں کی تربیت کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔

شادی اور دہلی میں قیام:

۱۹۲۳-۲۴:             بابا تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق آپ کی شادی دہلی میں ان کے عقیدت مند کی صاحبزادی سے ہوگئی، شادی کے بعد دہلی میں قیام پذیر ہو گئے۔

صحافت شاعری:

۱۹۲۵: دہلی میں قیام کے دوران  میں رسائل و جرائد کی صحافت اور شعرا کے دواوین کی اصلاح اور تربیت کا کام کرتے رہے۔دن کو صوفی منش لوگ آتے،  اور تصوف کی محفلیں  ہوتیں ،  جب کہ رات کو شاعر ادیب اور اہل ذوق حضرات آپ سے فیض یاب ہوتے۔

تاج الاولیاءرحمۃ اللہ علیہ  کا وصال:

۱۷ اگست ۱۹۲۵ : بابا تاج الدین ناگپوری وصال فرما گئے۔ وصال سے قبل بابا تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ   نے فرمایا تھا کہ میرے بعد یہاں قیام نہ کرنا چناں چہ  نانا صاحب کے وصال کے بعد ناگپور آ ناجانا ترک کر دیا۔لہذا۱۹۲۶ کو ناگ پور  کو چھوڑ دیا۔

پہلی ملازمت :

۱۹۳۶:برطانوی ہندوستانی فوج میں ایک سال ملازمت کی۔

  برما روانگی   :

۱۹۳۷: فوجی ملازمت کے دوران برما روانگی اور زخمی ہونے پر اسپتال داخل ہوئے۔

اولاد نرینہ:

 ۱۹۳۷ :بڑے صاحبزادے  محترم آفتاب مرحوم کی ولادت ہوئی۔

شاعری  :

۱۹۴۲:اگرچہ قیام دہلی سے شعراء کے دواوین کی  اصلاح کیا کرتے تھے تاہم دست یاب ریکارڈ کے مطابق 5 دسمبر  کی تحریر کردہ آپ کی یہ غزل سید نثار علی بخاری کے نام مکتوب کی زینت بنی۔

"عشق ہی میرا سفر ہے، عشق ہی کاشانہ ہے"

  اعلان پاکستان:

۴ جولائی ۱۹۴۷: تقسیم سے قبل ہی ایک دوست کے نام بذریعہ خط اعلان پاکستان پر اظہار خوشی اور مبارک باد دی۔

پاکستان تشریف آوری  :

۱۹۴۷ : مہاجرین کے ساتھ پاکستان آئے۔ اوائل  ۱۹۴۸ میں کراچی میں لی مارکیٹ کے محلہ عثمان آباد میں رہائش اختیار کی۔ کچھ عرصہ راول پنڈی بھی قیام کیا۔

روزگار کا آغاز:

وسط    ۱۹۴۸   : پاکستان آکر روزگار کے سلسلہ میں کراچی میں سیٹھ عثمان کے کارخانہ میں کام کیا پھر کراچی کے لارنس روڈ کی فٹ پاتھ پر بجلی کے فیوز لگانے کا کام کیا۔

ملازمت کا آغاز:

 اختتام ۱۹۴۸:  ڈان اخبار(اردو) میں دو سال تک ملازمت کی سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔

درون خانہ

۱۹۵۰ :بڑی صاحبزادی کی شادی کی جمیل صاحب سے ہوئی۔

پیر اور مرشد کی پہلی ملاقات:

۱۹۵۰: خواجہ شمس الدین عظیمی اور حضور قلندر بابا اولیاء کی پہلی ملاقات اردو ڈان کے دفتر میں جنوری کے مہینے میں ہوئی  حضور قلندر بابا اولیاء نے اس موقع پر آپ کو کھانے کے لیے" پان" دیا۔

دوسری ملاقات:

۵۴-۱۹۵۳:   چار سال بعد خواجہ شمس الدین عظیمی اور حضور قلندر بابا اولیاء کی دوسری اور اہم ترین ملاقات ہوئی ۔یہ  ملاقات خواجہ صاحب کے ایک دوست چغتائی صاحب کی وساطت سے ہوئی۔ اسی ملاقات کے بارے میں خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں!

"اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ہو گئے"

نظام تکوین:

قبل از۱۹۵۴             : نظام   تکوین میں انتظامی ذمہ داری کا آغاز ہو چکا تھا۔

تکوینی ملاقات:

وسط ۱۹۵۴: حضرت علی شاہ قلندر اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی آمد اہم تکوینی ملاقات ہوئی، قانون پر تبادلہ خیال ہوا۔

دوسری ملازمت  :

۱۹۵۴ :علامہ نیاز فتح پوری کے رسالہ نقاد میں کام کیا۔ اسی دور میں رسالہ میں بیشتر کہانیاں آپ نے لکھیں جو فرضی ناموں سے شائع ہوئیں۔

باقاعدہ بیعت:

۱۹۵۶: حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی نے ت سخت سردیوں میں گرانڈ ہوٹل کراچی میں رات تین بجے بلایا حضور قلندر بابا اولیاء رات ٹھیک دو بجے ہوٹل کی سیڑھیوں پر جا کر بیٹھ گئے ۔تین بجے حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی نے دروازہ کھولا، اندر بلایا اور سامنے بٹھا کر حضور بابا صاحب کی پیشانی مبارک پر تین پھونکیں ماریں۔ پہلی پھونک  میں عالم ارواح منکشف ہوگی۔ا دوسری پھونک  میں عالم ملکوت و جبروت سامنے آگیا۔ تیسری پھونک میں حضور بابا صاحب نے  عرش معلیٰ کا مشاہدہ کیا۔اس کے بعد حضرت ابو الفیض علی قلندر علی سہروردی نے  قطب ارشاد کی تعلیمات تین ہفتوں میں پوری کرکے خلافت عطا فرمائی ۔

 ناظم آباد میں  سکونت:

قبل از۱۹۵۷: 1-D  1/7ناظم آباد میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

لوح و قلم:

۱۹۵۷ :لوح و قلم کا مسودہ خواجہ شمس الدین سے لکھوانا شروع کیا۔

دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری:

۱۹۵۸: دربار رسالت مآب صلی اللہ وسلم میں حاضری کا آغاز ہو چکا تھا۔

"لوح وقلم" کی تکمیل

۱۹۵۹: شاہ کار تصنیف لوح و قلم کا مسودہ مکمل ہوگیا ۔

 نام کی مقبولیت

 وسط ۱۹۵۹ :  زبان خلق پر حضور بھائی صاحب کے نام سے مقبولیت حاصل کی۔

خانوادگی:

اوائل ۱۹۶۰: ۹ روحانی سلاسل کا خانوادہ بننا  مکمل ہو چکا تھا۔

سلسلہ عالیہ عظیمیہ کا قیام:

 جولائی ۱۹۶۰: دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے سلسلہ عظیمیہ کے قیام کی منظوری حاصل کی۔

تکوینی مصروفیات:

 ۱۹۶۴ : تکوینی  نظام میں بہت زیادمصروفیات بڑھ گئیں۔

بڑے صاحبزادے کی وفات:

۱۴ اپریل ۱۹۶۴: بڑَ صاحب زادےآفتاب احمد ٹھٹھہ کے قریب  گاڑی کے حادثے میں وفات ہو گئے گئے۔اس سانحہ پر ایک آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی۔ آفتاب احمد کی لوح مرقد پر "نوور بصر" لکھوایا۔

بعد  میں ایک موقع پر آپ نے اس کے بارے میں فرمایا اولاد کی ذمہ داری کے بارے میں خیال آیا تو اس لیے ایسا ہوا۔

خواجہ صاحب کے ہاں تشریف آواری:

 قبل از ۱۹۵۶: خواجہ  شمس الدین  کے ہاں آپ کی باقاعدہ تشریف آوری کا آغاز ہو چکا تھا۔ زندگی کا طویل عرصہ ان کے ہاں گزارا۔

خانوادہ:

قبل از ۱۹۶۷: ۱ا روحانی سلاسل کا خانوادہ بننا مکمل ہوگیا۔

عظیمیہ  فاؤنڈیشن کا قیام:

 بعد از ۱۹۷۰: عظیمیہ  ٹرسٹ فاؤنڈیشن کا قیام آپ کی حیات میں ہی ہو چکا تھا۔ عظیمیہ  ٹرسٹ فاؤنڈیشن میں ہی آپ کا مزار مبارک ہے۔

بیماری کا آغاز

اوائل ۱۹۷۷:آپ کی صحت خراب ہونا شروع ہوگئی۔

بیماری میں اضافہ

اوائل ۱۹۷۸: بیماری نےطول پکڑنا شروع کرلیا۔ ا علاج معالجہ سے بھی فرق نہ پڑا۔

صحت میں شدید کمزوری:

 بعدد ازوسط ۱۹۷۸:  بیماری کے باعث صحت بہت کمزور ہو گئی حتی کہ  زیادہ وقت لیٹے ہی رہتے، خرابی صحت کے باعث ہلنے بھی تک ہلنے میں بھی تکلیف پیش آنے لگی۔اپنے وصال کے بارے میں کچھ عرصہ قبل ہی بتا دیا تھا۔

روحانی ڈائجسٹ کا اجرا:

یکم دسمبر ۱۹۷۱ء  : روحانی ڈائجسٹ کا پہلا شمارہ آپ کی زیر سرپرستی میں چھپا.

اللہ سے درخواست:

۱۹۷۸: جب بیماری سے بڑھ گئی اور کوئی علاج و معالجہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا تو آپ کے قریبی عقیدت مند سراج صاحب نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ اس بیماری کو روحانی قوتوں سے ختم فرمائیں۔

اس پر بابا صاحب نے فرمایا:

"میں نے اللہ تعالی سے درخواست کی تھی کہ اللہ تعالی نے مجھے یہ ہدایت کی ہے کہ میں عوام کی طرح دنیا میں رہوں،  اور عوام کی طرح علاج کراؤں اور عوام ہی کی طرح  نقل مکانی کروں۔"

روحانی ڈائجسٹ:

یکم جنوری ۱۹۷۹  : روحانی ڈائجسٹ کا دوسرا شمارہ آپ کی زیر سرپرستی چھپا  اس کے بعد آپ کا وصال ہوگیا اور یوں آپ کی حیات میں ڈائجسٹ دو مرتبہ چھپ سکا۔روحانی ڈائجسٹ کے سر ورق کی پیشانی پر ایک تحریر آپ کی طرز فکر اور رسالہ کا مقصد بیان کرتی ہے جسے آپ نے خود اس طرح لکھوایا تھا:

"یہ پرجہ بندہ کو خداتک لے جاتا ہے

            اور بندہ کو خدا سے ملا دیتا ہے"    

وصال:

۲۷ جنوری  ۱۹۷۹ : رات ایک بج کر دس منٹ بروز ہفتہ آپ اپنے خالق حقیقی  کے حضور حاضر خدمت ہو گئے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون۔

۲۷ جنوری ۱۹۷۹:روحانی ڈائجسٹ کا تیسرا شمارہ چھپ کر تیار ہو چکا تھا کہ حضور قلندر بابا اولیاء کے وصال کی خبر آگئی۔ڈائجسٹ کی چھپوائی ہنگامی طور پر روک دی گئی اور یہ خبر ان سائیڈ ٹائٹل پر شایع ہوئی۔

"آہ قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ"

واحسرتا کہ آج دنیا اس وجود سرمدی سے خالی ہوگئی جس کے بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے " میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور میں ان کے کان ، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں - پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہیں ، میرے ذریعے بولتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں -  "

اخبارات:

سید محمد عظیم کے وصال کی خبر روزنامہ جنگ روزنامہ جسارت اور روزنامہ ملت گجراتی نے  نمایاں طور پر شائع کی۔

 

 


 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔