Topics

بچوں سے محبت


قلندر بابااولیاءؒ بچوں سے محبت کرتے تھے۔بچے بھی آپ پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ اپنی ہر بات ان سے کہہ دیتے تھے۔ آ بچوں کی ہر بات سنتے تمام عمر کسی بھی بچے سے سکتی نہیں کی۔دوسروں کو بھی شفقت کی ہدایت کرتے اور فرماتے:

                 بچوں کو ماریں نہیں پیار سے سمجھائیں۔ بچوں سے جھوٹ مت بولیں  ۔ بڑے جھوٹ نہیں بولتے  تو چھوٹے بھی جھوٹ نہیں بولتے۔

قلندر بابااولیاءؒ مزاجاً خاموشی پسند تھے۔گھر میں بچے جب مل کر کھیلتے تو شور بھی ہوتا تھا۔اکثر ایسا ہوتا کہ قلندر بابااولیاءؒ کے پاس کوئی بیٹھا ہوتا تو وہ بچوں کو ڈانٹ دیتا کہ شور مت کرو یا باہر جا کر کھیلو۔ قلندر بابااولیاءؒ فرماتے: کوئی مسٔلہ نہیں۔آپ بچوں کی وجہ سے پریشان مت ہوں انھیں یہیں کھیلنے دیں۔جس طرح سے یہ کر رہے ہیں انہیں کرنے دیں۔

قلندر بابااولیاءؒ جب بیرون شہر جاتے تو بچوں کے لیے تحائف اور کھلونے لاتے۔اگر کوئی بچہ کسی چیز کی فرمائش کرتا تو فرماتے: ہاں صحیح ہے۔جیسے ہے وقت ہو گا ہو جائے گا۔عید کے موقع پر آپ بچوں کیلئے نئے کپڑوں، جوتوں،بچیوں کی چوڑیوں اور مہندی کا خصوسی اہتمام کرواتے تھے۔عید پر جتنے بچے اور بڑے آپ سے ملنے آتے آپ سب کو ایک روپے کا بالکل نیا نوٹ بطور عیدی دیا کرتے تھے۔عیدی دینے کے بعد سر پر ہاتھ پھیرتے اور پھر فرماتے: اندر کمرے میں اماں جی کے پاس جائیں اور کچھ کھائیں پیئں۔یک روز  قلندر بابااولیاءؒ نے ماں باپ کی اولاد سے محبت کے تعلق پر ایک قصہ سنایا۔

 ایک بادشاہ تھا اسکی کوئی اولاد نہیں تھی طے یہ ہوا کہ کوئی بچہ پال لیا جائے۔ایک جمعدارنی کا انتخاب ہوا کہ یہ گھر گھر صفائی کرنے جاتی ہے اس سے کہا جائے کہ خوبصورت بچہ لے آئے۔ جمعدارنی نے خوبصورت بچہ کی تلاش شروع کر دی دو مہینے گزر گئے بچہ نہ ملا۔

بادشاہ نے اسکو بلا کر کہا کہ اگر کل بچہ نہیں لائی  تو مین تجھے قید کر دوں گا۔

وہ اگلے دن ایک بچہ لائی۔وہ موٹے موٹے نقوش والا کالا سا بچہ تھا۔ناک اسکی بہہ رہی تھی آنکھیں اسکی میلی تھی۔

بادشاہ نے بچہ کو دیکھ کر کہا پورے شہر میں تجھے یہ ہی بچہ ملا ہے؟ ۔

 جمعدارنی نے کہا کہ شہر میں اس سے خوب صورت بچہ مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔

بادشاہ نے پوچھا یہ کس کا بچہ ہے ؟ ۔ جمعدارنی بولی: سرکار یہ میرا بیٹا ہے۔


 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔