Topics

قلندر کا مقام

 

]۳[  قلندر ایسا مرد آزاد ہوتا ہے جس کا باطن مصفیٰ اور مجلی ہوتا ہے۔ اس کے اوپر تخلیقی فارمولے کھل جاتے ہیں۔ مرد آزاد قلندریت کے مقام پر پہنچ کر زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے سارے ذی روح اس کے ماتحت کر دیئے جاتے ہیں۔ مخلوق جب اس کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ہے تو وہ اس کو سنتا بھی ہے اور اس کا  تدارک بھی کرتا ہے کیوں کہ قدرت نے اسے اسی کام کے لیے مقرر کیا ہے۔

                ابدالِ حق سلسلہ عظیمیہ کے بانی مرشد کریم سیدنا حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا رحمتہ اللہ علیہ کے حالات ِ زندگی کا ذکر جمیل پیش کرنے سے پیشتر مناسب ہے کہ لفظ "قلندر" کی وضاحت کر دی جائے۔

                                قلندر ایسا مرد آزاد ہوتا ہے جس کا باطن مصفیٰ اور مجلیٰ ہوتا ہے اس کے اوپر تخلیقی فارمولے کھولے جاتے ہیں۔ وہ علم الاسماء کے علوم کا عالم ہوتا ہے۔ قلندر شے کی صفات اور خالق سے مخلوق کے صفاتی اور ذاتی رشتے کے اسرار و رموز سے واقف ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے جسم مثالی کی پر انوار روشنیاں اسے فیڈ کرتی ہیں۔ مشاہدہ اس کا شیوہ ہوتا ہے۔ قلندر کا مقام محبوبیت ہے۔ ایک عاشق دوسرا معشوق ہوتا ہے۔ مرد آزاد قلندریت کے مقام پر پہنچ کر زمان و مکان (Time And Space) کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے سارے ذی روح اس کے ماتحت کر دیئے جاتے ہیں۔

                لیکن اللہ تعالی کے یہ نیک بندے غرض ، طمع، حرص اور لالچ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ مخلوق جب ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ہے تو وہ اس کو سنتے بھی ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہیں کیوں کہ قدرت نے انہیں اس کام کے لیے مقرر کیا ہے۔ یہی وہ پاکیزہ بندے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی ٰ فرماتے ہیں کہ:

                                "میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ پھر وہ میرے  ذریعے بولتے ہیں۔ میرے ذریعے سنتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں۔"

ان نیک بندوں کی تعلیمات یہ ہیں کہ ہر بندہ کا اللہ کے ساتھ محبوبیت کا رشتہ قائم ہے۔ ایسا رشتہ جس میں بندہ اپنے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کرتا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

                                حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے ایسے محبوب بندے ہیں کہ جتنی قربت اللہ نے آپ ﷺ کو عطا کی ہے کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ جس قوم یا جس فرد پر حضور ﷺ کے اعلا اوصاف اور روحانی اقدار کی چھاپ نہ ہو اس کا یہ کہنا کہ میں حضور ﷺ کا امتی ہوں۔ حضور ﷺ کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی ہے جو خود عارف نہیں کو کسی کو عارف کیسے بنا سکتا ہے۔ جو خود قلاش اور مفلوک الحال ہے وہ کسی کو کیا خیرات دے گا۔ اس پاکیزہ کردار عارف ِ حق نے ہمیں بتایا کہ آج ہم کفر و شرک کے طوفان سے اگر بچے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ وہ آواز ہے جو پیدا ہوتے ہی ہم اپنے بچوں کی حق آشنا س سماعت میں منتقل کر دیتے ہیں۔ اذان کے معنی اور مفہوم پر تفکر کرنے سے یہ بات مشاہدہ بن جاتی ہے  کہ پیدا ہونے والے ہر بچے کے دماغ کی اسکرین پر پہلا نقش یہ رقم ہوتا ہے کہ ہمارا پیدا کرنے والا اللہ  ہے وہ اللہ  ہمیں زندہ رکھتا ہے اور ہمارے لیے زندگی کے وسائل فراہم کرتا ہے۔

فی زمانہ ماحول کے اثرات سے لوگوں کے اعصاب کمزور ہو گئے ہیں۔ ان کی مصروفیات میں حد درجہ اضافہ ہو گیا ہے چناں چہ آج لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ پرانے طریقۂ  ہائے ریاضت پر عمل کر سکیں۔ آج کے سائنسی دور میں کوئی بات اس وقت قابلِ قبول ہوتی ہے جب اسے فطرت کے مطابق اور سائنسی توجیہات کے ساتھ پیش کیا جائے۔ سلسلہ عظیمیہ کا مشن بھی یہی ہے کہ لوگوں کے اوپر تفکر کے دروازے کھول دیئے جائیں۔ چناں چہ حالات حاضرہ کے پیشِ نظر سلسلہ عطیمیہ کے اسباق و اذکار بہت مختصر اور آسان مرتب کیے گئے ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہو کر سالک کو حضور قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ کے مشن کو تمام عالم میں پھیلانے کے لیے عرفان خداوندی نصیب ہوتا ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے مرکزی مراقبہ ہال سرجانی ٹاؤن کراچی اور جامعہ عظیمیہ لاہور بہت جلد روحانی اسکول کام شروع کردے گا اور اسی طرح بتدریج روحانی علوم کا یہ سلسلہ ایک جامع اور مکمل پروگرام کے ساتھ پاکستان اور بیرونِ ملک امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے ممالک میں شروع ہو جائے گا۔

                 قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۹ ء کی شب ایک بجے جب کہ شب بیدار، خدار سیدہ بندے اپنے اللہ کے حضور حاضری دیتے ہیں مستقل حضوری میں اللہ کے پاس تشریف لے گئے۔ اس برگزیدہ ہستی کی نماز جنازہ میں انسانوں کے علاوہ لاکھوں فرشتے صف بستہ تھے اور حدِ نظر تک اولیا ء اللہ کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ حضور قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ نے روحانی مشن کی پیشِ رفت اور اپنے روحانی خاندان کے لیے ورثہ میں ایک کتاب "لوح وقلم" چھوڑی ہے۔

                اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ہم نے قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا، ہے کوئی سمجھنے والا ]القمر ۲۲[

                اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہم نے ہر چیز کو جوڑے میں بنایا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔

اس آیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ قرآن حکیم کی آیت  ومن کل شی خلقنا زوجین لعلکم تذکرون  میں دراصل اللہ تعالیٰ نے زمانیت اور مکانیت کا راز بیان فرمایا ہے۔کسی چیز کے دو قسم ہونے سے مراد اس کے دو رخ ہیں۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے کے متضاد ہوتے ہیں۔ یہ دونوں رخ متضاد ہونے کے ساتھ ایک دوسرے سے بالکل متصل بھی ہوتے ہیں۔ اگرچہ ایک دوسرے سے متضاد ہونے کا سبب صفت کا امتیاز ان دونوں رخوں کو ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ کر دیتا ہے تا ہم ان دونوں رخوں کا مجموعہ ہی وجود شے کہلاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب یہ دونوں رخ ایک جگہ ہوتے ہیں تو ان ہی کی اجتماعیت محسوس شے بن جاتی ہے۔ شے کا ایک رخ "محسوس" کرنے والا یعنی حساس ہوتا ہے اور شے کا دوسرا رخ وہ ہے جو محسوس کیا جاتا ہے ان دونوں رخوں کے مجموعہ کو مذہب کی زبان میں امر ربی کہا جاتا ہے۔ چناں چہ امر ربی کے دو رخ یا دو اجزاء ہوئے ایک رخ یا جزو جو صفت اور صلاحیت کا جاننے والا یا استعمال کرنے والا۔ دوسرا رخ وہ ہے جسے صفت یا صلاحیت کہتے ہیں۔ یہ دونوں اجزاء مل کر ایک امر ربی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دونوں اجزاء متصل ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ یہی علیحدگی وہ فعل ہے جو تنزل کے بعد ایک اعتبار سے زمان اور دوسرے اعتبار سے مکان کہلاتے ہیں۔ جب یہ فعل حدودِ ذہن کے اطراف میں واقع ہوتا ہے تو اس کا نام  زمان ہے اور جب یہ فعل شکل و صورت کے اطراف میں ہوتا ہے تو اس کا نام مکان ہے۔ مثلاً نماز پرھنے والے کے زہن میں جب نماز کی حس پیدا ہوتی ہے تو اس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک رخ نماز کی ہیت اور دوسرا رخ نماز کا احساس کرنے والا ذہن۔

اگر اللہ تعالیٰ کا وجود اشیاء کو جوڑے جوڑے نہ بناتے تو یہ درمیانی فصل جو زمان و مکان بنتا ہے، پیدا نہ ہوتا۔ یہ فعل اس وقت تخلیق ہوتا ہے جب وجود شے میں ابعاد یعنی (Dimension)   پیدا ہو جاتے ہیں۔ ابعاد عالم مثالی یعنی ناسوتی دنیا میں ہوتا ہے۔ یہ عالم ارواح میں نہیں ہوتا۔ اسی لیے عالم ارواح میں زمان و مکان نہیں ہوتے۔ وہاں موجود شے صرف امر مشکل ہوتا ہے امر متحرک نہیں ہوتا۔ زمان و مکان کا تعلق صرف عالم ِ ناسوت تک محدود ہوتا ہے۔

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔