Topics

قلندر بابا اولیاء کا طرز تفہیم


عمر ہا در کعبہ بت خانہ می نالد حیات

تا زبزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں

 

ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہری و معنوی زندگی موجودہ اختتام پذیر صدی میں فیضانِ الٰہی کا بیش بہا سرمایہ ہے۔قلب وذہن اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ آپ  کا ذکرِ مسعود زمانہ ماضی میں کیا جائے۔ یعنی سرمایہ ہے کی جگہ سرماہ تھی لکھا جائے۔ حضور قلندر بابا الیاء   کا وجود زندگی کی بے چین فریاد کی تسکین ہے جسے کائنات  کی بزم ِ عشق سے دانائے راز کی صورت میں قدرت نے ایک معنی خیز آب و گِل کے سانچے میں ڈھالا تھا۔ اقبال تو جُنوں کے سکھائے ہوئے حرفِ راز کو بیان کرنے کے لیے نفَس ِ جبرئیل کا انتظار کرتے رہے اور جب ، ان کے جُنوں نے ان کا قلم روک دیا تو انہیں صرف اتنا کہنے کا حوصلہ ہوا۔

وہ حرف راز جو مجھ کو سکھا گیا ہے جُنوں

خدا مجھے نفسِ جبرئیل دے تو کہوں

مگر حضور قلندر بابا اولیاء نے اس بھری بزم میں اسی راز کو بر ملہ بیان کر کے عقل و خرد کے لیے سامانِ فکر و نظر مہیا کر دیا۔

آپ کی ہدایت و ارشاد کا ممتاز وصف یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ فرمایا۔ لکھایا، تلقین فرمائی اس کا تخاطب براہ راست ذہن انسانی ہے۔ یہی اسی مضمون کا مدعا و مقصود ہے کہ آپ  کی زبان و قلم سے نکلے ہوئے ملفوظات سخن فہمی کی ہر صنگ میں یکساں موجود ہیں اور جونثر شعر و اشعاربن کر سرِ محفل دھیمے لہجے میں پند و نصائج یا بزلہ سنجی سمیت ہلکے پھلکے متبسم اندازِ تکلم میں  پیش کئے جاتے رہے۔ وہ اپنے اندر معنوی نکات کا بیش بہا خزانہ لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ جنھیں سنتے تو تمام  حاضرینِ مجلس تھے یا پڑھنے والے پڑھتے تھے مگر ان کے ادراک و فہم آفرینی کا لطف وہی لوگ اٹھاتے تھے جن کا ذہن حضور قلندر بابا اولیاء کے قرب ذہنی سے ہم آہنگ ہوتا تھا۔

ایک دفعہ آپ  نے واشگاف انداز میں فرمایا تھا ۔

"ہم آپ کا مطلب سمجھ گئے تھے ۔ ہم ذہن پڑھتے ہیں، الفاظ اور ان کے معنے ہمارے سامنے نہیں ہوتے۔ ہمارے مرشد ہمیں خلافت یونہی نہیں دے دی تھی۔"

آپ بھی حضور کے ماورائی لہجے میں کہے گئے ارشاد " ہم ذہن پڑھتے ہیں" کو بار بار پڑھیں گے تو آپ کے ذہن کی  گرہیں ایک ایک کر کے کھلتی جائیں گی۔ اور اگر آپ اس قولِ فیصل کی گہرائیوں تک پہنچنے  میں کامیاب ہو جائیں گے  تو آپ کا ذہن بھی حضور قلندر بابا اولیاء کے ذہں مبارک کے زیر سایہ دوسروں  کا ذہن پڑھنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔

آپ  کی طرز تفہیم کا وصف یہ تھا کہ کسی واقعہ ،تمثیل، لطیفہ، شعر  وغیرہ بیان کرنے میں صرف کلیدی کلمات استعمال کرتے تھے۔ طول بیان، اور تشریح و توضیح کو ضروری نہیں سمجھتے  تھے بلکہ توقع کرتے تھے کہ اس گورکھ دھندے میں آپ کے سامعین بھی مبتلا نہ ہوں۔ اور براہ راست الفاظ کی روح کو اپنے فہم کی روح میں داخل کر لیں۔ اور  فیض ربی کا تماشا دیکھیں۔

اُسے عمرِ خضر سے کیا غرض جسے اک نظر میں وہ مل گیا

وہی لمحہ بھر کی تھی جستجو جو ہزار سال کی بات ہے

حضور قلندر بابا اولیاء اکثرو بیشتر عمومی افہام و تفہیم کے لیے اپنے ساتھ یا اپنے سامنے والے واقعات کو بنیاد بنا کر کسی خیال یا نکتہ کو پیش کیا کرتے تھے۔ اس حقیقت بیان اور صداقتِ نظریہ و خیال کے متعلق کوئی ابہام یا عدم صداقت کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً نمود و تفاخر کو زندگی سے ملوث نہ کرنے  کاعہد اس واقعہ کے ضمن میں پیش آیا جب ایک دفعہ بمبئی  کے ایک سیٹھ نے بابا تاج الدین  ناگپوری (حضور قلندر بابا اولیاء کے محترم نانا) کو کمخواب کا قیمتی لباس اراہ ِ عقیدت پیش یا۔ حضور فرماتے ہیں کہ نانا تاج الدین  نے سیٹھ  کے سامنے اس لباس کو پہن لیا  اور کچھ دیر تک اس کی دلجمعی کے لیے کٹیا میں ٹہلتے رہے۔ سیٹھ کے جانے کے بعد آپ  نے اس کٹیا کی کچی زمین  کی گیلی   مٹی کو جو کیچڑ بن گئی تھی، ہاتھ میں لے کر اس قیمتی لباس پر جگہ جگہ ملنا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے  کہ کیا میں اس کپڑے کی خاطر اپنی زندگی خرچ (ضائع) کردوں۔ بابا جی(حضور قلندر بابا اولیاء) فرماتے ہیں کہ اسی دن سے میری نظر میں قیمتی اشیاء کی حیثیت ختم ہو گئی۔یہ حضرت بابا قلندر کے بچپن  کا واقعہ ہے۔ آپ نے ہی حضرت نانا کے طرز عمل پر اعتراض کیا تھا۔ اسی  نشست میں حضور قلندر بابا اولیاء نے نانا کے جلال کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے پُر اسرار کلمات کو یوں بیان کیا۔۔۔" کیا ہم نے جیلیں  یوں ہی بنائی ہیں۔ (یعنی ان میں لوگ تو آئیں گے)" ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان لمحات میں ماضی ، حال اور مستقبل کا کونسا بیزار کن منظر پیش نظر تھا جس نے اس خوفناک وعید کی صورت میں بابا تاج الدین  کے پاک و شفاف ذہن کو ٹھیس پہنچائی تھی۔حضرت قلندر بابا اولیاء نے یہ نہیں بیان کیا ۔ اور نہ کسی کو اس مجلس میں یہ سوال کرنے کی جراءت ہوئی  کہ حضرت نانا تاج الدین  نے ایسےجلالی کلمات کس واقعاتی  پس منظر میں کہے تھے۔ اس دو طرفہ خاموشی سے افہام و تفہیم کا یہ پہلو نکلتا ہے کہ اگر اس کی توضیح کی واقعی ضرورت ہوتی تو حضرت قلندر بابا اولیاء استفسار کا انتظار کیے بغیر کود ہی بتلا دیتے۔ دوسرا پہلو یہ سامنے آتا ہے اور یہی زیادہ قرین ِ قیاس ہے کہ بیان کرتے وقت حضرت قلندر بابا اولیاء نے خود اپنے ذہن میں اس واقعہ کی تمثیل  کو باطن میں بالالتزام دیکھا اور ان پر وہی کیفیت طاری ہوئی جو بچپن میں واقع ہوئی تھی۔

ایک اور موقع پر فرمایا: دوزخ جنت ہے اگر اس میں ڈالا جانے والا گناہ گار اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور حکم جان کر بخوشی اور اطاعت کے ساتھ قبول کرے ۔ اور جنت دوزخ بن جائے گی اگر اس میں بھیجا جانے والا اسے اپنا حق سمجھے۔ ۔۔روز حشر اللہ تعالیٰ  صرف دوزخیوں کو حکم دے گا کہاانہیں جہنم میں لے جاؤ۔ اس مقام پر اہل جنت کے متعلق کوئی حکم نہ ہوگا۔ کیونکہ جنتی اسے اپنا حق سمجھتے ہوئے جنت میں جانا چاہتے ہیں ۔ اور یہی دوزخ ہے۔

ایک نشست میں سود کے متعلق ذکر ہوا۔آپ نےفرمایا۔ دنیا کی ساری برائی سود کی وجہ سے ہے۔ اگر سود کا خاتمہ نہ ہوا تو دنیا خراب و ختم ہو جائے گی۔ آپ  نے مزید فرمایا کہ میرے نزدیک بہترین عمل سود سے اجتناب ہے۔حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شانِ والا کا ذکر ان الفاظ میں کیا کہ آپؐ دنیا کے عظیم ترین اور کامل ترین انسان ہیں کہ آپؐ نے دنیا میں سب سے پہلے سود کی حرمت (حرام قرار دینے) کا اعلان کیا۔

توبہ کے متعلق استفسار پر چند بیش بہا باتیں فرمائیں: انسان فطرتاً اپنی پیدائش ہی سے کچھ اچھے کچھ برے اعمال کا تصور لے کر آتا ہے اچھے عمل پر کاربند رہنے سے اس کے دل کو اطمینان رہتا ہے اور اپنی عقیدت کے تحت بُرے عمل سے بچتا رہتا ہے۔ اگر کوئی کام سہواً سرزد ہو جائے تو دل میں کسک محسوس کرتا ہے،پچھتاتا ہے اور اس سے توبہ کرتا ہے کہ یہ نا دانستہ غلطی ہو گئی۔ اور توبہ مقبول ہو جاتی ہے تو یہ اللہ کو پسند ہے۔ مگر جب کسی گناہ کو قصداً کیا جائے تو جب تک اس گناہ یا برے کام سے بچنے کا حتمی اقرار نہ کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل بھی نہ کیا جائے تو یہ توبہ قبول نہیں ہوتی۔

حضور  کے مزاج میں شگفتگی اور بزلہ سنگی کی کمی نہ تھی ۔ بعض دفعہ ایسے اشعار بھی بے تکلف سنا جاتے تھے کہ حاضرین محفل حد ِ ادب و احترام میں رہتے ہوئے ان کی داد بھی دیتے تھےاور جواباً حضور صرف زیرِ لب مسکراتے تھے۔ان اشعار کو موقع محل کی مناسبت سے پیش کر دینا ہی تہذیب و اخلاق کا عملی درس کا درجہ رکھتا ہے اور مزاح کی بندش کے خلاف عدم پسندیدگی کا اظہار بھی۔آپ بھی اس ضمن میں پیش کیے گئے (ذاتی کلام سے ہٹ کر) چند شگفتہ و شستہ اشعار سے لطف اندوزہوں۔

جام ہے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن

سامنے ڈھیرہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا

______

اس  نے دیوانہ سمجھ کر نہ کیا مجھ سے حجاب

چاک ہو کر تو بڑَے کام گریباں آیا

______

 

یہ کالی کالی بوتلیں ہیں  جو شراب کی

راتیں انہی میں بند ہیں عہدِ شباب کی

______

 

فصلِ گل آئی یا اجل آئی کیوں درِ زنداں کھلتا ہے

کیا کوئی وحشی  اور آیا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا

______

گوہر جاں (کلکتہ کی مشہور خوش ذوق، اور خوش ادا مغنیہ)  کے متعلق اکبر الہ آبادی کا تنا ہی فی البدیہہ اور شگفتہ شعر

خوش ادا کون ہے کلکتہ میں گوہر کے سوا

سب کچھ اللہ نے  دے رکھا ہے شوہر کے سوا

______

ہماری روزمرہ کی زندگی میں دو امور بطور خاص قابل ِ ذکر ہیں۔ یعنی (۱) خواہش یا ارادہ کی تکمیل اور (۲) نا مساعد حالات سے کامیابی سے گزرنے کےلیے صبر و استقلال کا فقدان۔

۱۔ ہم بسا اوقات ذکر و شمار سے کام لے کے تسبیح کے دانوں کی طرح اپنے ارادہ ، اپنی خواہش یا اپنی دعا کو دہراتے رہتے ہیں مگر نتیجہ عموماً صفر ہی رہتا ہے ارادہ کی تکمیل کے سلسلہ مین حضور قلندر بابا اولیاء  فرماتے ہیں:

ارادہ کی تکرار ( بار بار دہرانا) ارادہ کی قوت ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ارادہ سوا لاکھ بار ہی دہارایا جائے۔ لیکن ارادہ میں اتنی قوت ہونی چاہیئے ، جو سوالاکھ بار دہرانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر وہ قوت موجود ہے توا یک حرکت کافی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا  اور زیادہ تر اس زمانہ میں ۹۹۹ فی ہزار یسا ہی ہوتا ہے کہ سوالاکھ بار دہرایا ہوا ارادہ بھی ایک بار کی قوت سے آگے نہیں بڑھتا۔ دراصل ارادہ دہرایا ہی نہیں جاتا کیونکہ جن الفاظ کے ذریعہ ارادہ کو دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ الفاظ دہرانے والے انسان کے ذہن میں اپنی کوئی تصویر یعنی معنی کے خدوخال پیدانہیں کرتے ۔ ارادہ دراصل کوئی نہ کوئی شکل و صورت رکھتا ہے۔ جس مطلب کا ارادہ ہو مطلب اپنی پوری شکل و صورت کے ساتھ ارادہ میں مرکوز ہونا ضروری ہے بغیر شکل وصورت کے کسی ارادہ کو ارادہ نہیں کہہ سکتے۔۔

۲۔ نا مساعد حالات میں پیش آنے والی مشکلات اور پابندیوں کوصبراور خوشی سے برداشت کرنے اور ان سے کامیابی سے گزرنے کے لیے دلکش  پیرایہ میں اظہارِ خیال کرتے ہیں ، کا مفہوم یہ ہے کہ کم ہمتی اور بے عقلی کے دباؤ  میں آکر پیش آنے والی پابندیوں سے فرار ڈھونڈنا ہے۔ کم ہمتی دہرے نقصان کا سبب بنتی ہے یعنی ناکامی بھی ہوتی ہےاور نقصان بھی اٹھانا پڑتاہے۔

قلندربابا اولیاء  فرماتے ہیں: اگر کوئی پابندی اس نے ( جو حالات کا شکار ہے) رضاکارانہ برداشت کی تو اس کا فائدہ اس کو ملتا ہے۔ اور وہ فائدہ اس کا انعام ہے۔لیکن اگر کوئی مجبوراْ پابندی برداشت کرتاہے (کیونکہ اس سے مفر نہیں) تو اس کے لیےوہی پابندی سزاہے ۔ غور طلب یہ ہے کہ وہ انعام سے تو انکار کرتا ہے اور سزا کےلیے ہر وقت آمادہے۔اور سزا برداشت کرتا ہے۔ اس لیے کہ سزا برداشت کرنے کےلیے مجبور ہے۔ اگر وہ طرز فکر میں تبدیلی کر دے اور رضا کارانہ پابندی برداشت کر لے تو ہ سزا نہیں رہتی بلکہ انعام بن جاتی ہے۔یہ وہ بد عقلی ہے جو انسان کو ہمیشہ پریشان رکھتی ہے۔


 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔