Topics

تعلیمات قلندر بابا اولیاء


]۳[ صدیوں کی تحقیقات کے بعد سائنس دانوں نے زمین پر موجود تمام تر اشیاء کو جان دار اور بے جان کے نام سے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ان کے مطابق تمام بے جان اشیاء[Non Living things] دھاتیں، مٹی، پتھر، گیسیس [Gases] اور دیگر تمام عناصر میں سے ہر چیز بہت سے مالیکیول سے مل کر بنتی ہے۔ یہ مالیکیول بہت سے ایٹموں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ان ایٹموں میں سے ہر ایک ایٹم دراصل بہت سے ذرات سے مل کر وجود پاتا ہے۔ جنہیں پروٹان، نیوٹران، الیکٹران اور دیگر ناموں سے پاکارا جاتا ہے۔ البتہ ایٹم میں موجود الیکٹران کے بارے میں یہی رائے قائم کی گئی ہے کہ مادی اشیاء کی ساخت کی تشکیل اور حرکت میں الیکٹران کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ دوسری طرف جان دار اشیاء [ Living Things]  کا تجربہ کیا گیا اور جان دار اشیاء حیوانات، انسان اور ناباتات کو قرار دیا گیا ۔ ان تینوں اشیاء کے ہر حصے کا تجزیہ  کر کے سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہر جان دار واجوس کی اکائی [Unit] ایک خلیہ [Cell] ہے۔ جب خلیفہ کا مزید تجزیہ کیا گیا تو اس کی گہرائی میں کرموسومز کے کردار کو نہایت نائٹروجن آکسیجن وغیرہ کو بنیاد کے طور پر پایا گیا۔ چناں چہ فیصلہ یہ ہوا کہ جان دار اور بے جان اشیاء درحقیقت عناصر کی مختلف ترتیب کا نتیجہ ہیں۔ جب کہ تمام عناصر کی تہہ میں الیکٹران ہی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ سائنس دان الیکٹران کو اب تک دیکھ سکے ہیں نہ ہی آیندہ دیکھنے کی توقع ہے۔ ان کے نزدیک الیکٹران نظر نہ آنے والی ایک لہر ہے جو تمام تر عناصر اور ان کے مختلف اجسام کو ہر لمحہ ھیات عطا کرتے ہیں۔

                اتنا کچھ کرنے کے باوجود سائنس دان ابھی تک یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ جب زندگی کی ابتدا ء یا انتہا الیکٹران یا لہریں ہیں تو الیکٹران کس بنیاد پر قائم ہیں۔ کون  سی ہستی الیکٹران اور ان کے اندر کام کرنے والی توانائیوں کو حیات فراہم کر رہی ہے؟ لیکن سائنس دانوں نے اپنی تحقیق و تجس کے بعد کچھ فوائد ضرور حاسل کیے ہیں۔ مثلاً رفتار کو بڑھا کر فاصلے کم کر دیئے گئے ہیں۔ خلا میں چہل قدمی کا دعویٰ کیا گیا۔ بیماریوں کے علاج میں پیش رفت کی گئی۔ مواصلاتی نظام قائم کیا گیا۔ دوسری طرف سائنس دانوں کی کاوشوں کا یہ انداز تسلسل کائنات میں کسی قسم کی آسانی فراہم نہیں کرتا جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ وحی اور الہام کی بنیاد پر دنیا میں رائج تمام مزاہب کا جائزہ لیا جائے تو سوائے اس کے کوئی  اور چیز نظر نہیں آتی کہ مزاہب کا اجرا ء اس لیے ہوا ہے کہ انسان کسی نہ کسی طرح روئے زمین کی مخلوقات سے عظیم اور بلند تر ہو جائے۔ وہ زندگی کے ہر لمحے اور ہر شے پر برتری اور فوقیت رکھتا ہو۔ مذاہب کا مطالعہ کرنے سے یہ اہم تر حقیقت سامنے آتی ہے کہ جتنے بھی پیغمبر اس دنیا میں تشریف لائے ان کی تعلیمات کا بنیادی مقصد اور نقطہ مشترک یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کو پہچانتے ہوئے کسی بھی طرح مادے کے مفروضہ حواس سے آزاد ہو جائے اور اپنی روح کو جلا بخشے۔ اس مرھلے میں تمام پیگمبروں کی تعلیمات اور کوششیں ایک سی ہیں۔ پیگمبروں کی تعلیمات کا دوسرا باب یہ ہے کہ انسان اپنی روح سے واقف ہونے کے بعد اپنی روح کے ذریعے علوم کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کرے۔ یہ ذخیرہ پیغمبروں نے بھی کیا اور ان کے شاگردوں نے بھی۔ علوم کے اس ذخیرے کی بنا پر ہی قرآن کے مطابق ایک پیغمبر اور اس کی امت دوسرے پیغمبر اور اس کی امت سے بزرگی اور فضیلت میں آگے ہو جاتی ہے۔

                تلک الرسول فضلنا بعضھم علی بعض

                آقائے نامدار سیدنا حضور الصلوٰۃ والسلام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں پوری فرما کر رھمت للعالمین کے خطاب سے مشرف فرمایا۔ یعنی نوع انسان جس حد تک علوم کا ذخیرہ اپنے زہن اور فہم و ادراک میں کر سکتی ہے وہ تمام علوم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عطا  فرما دیئے گئے۔ حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام کی ماچور ہ دعاؤں میں کہیں کہیں ان علوم کا تذکرہ ملتا ہے جن میں ایک دعا تصوف کی کتب میں بھی پائی جاتی ہے۔ ” یا اللہ میں تجھے تیرے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جن کو تو نے مجھ پر ظاہر کیا جن کو تو نے اپنے علم میں اپنے لیے محفوط کیا اور تجھے تیرے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جو تو میرے بعد کسی پر ظاہر کرے گا۔“

بہ حیثیت رحمت للعالمین حضور کا فیض و اکرام نہ صرف آپ کی امت کے لیے ہے بل کہ آپ کا فیض یعنی علوم کی بخشش جو کسی بھی نوع یا انسان کو اللہ تعالیٰ تک پہنچا دیں ، ہر ایک کے لیے عام ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظاہری آنکھوں سے پردہ فرمانے کے بعد علوم کے یہ خزانے ایک تسلسل کے ساتھ آپ کے ورثاء میں منتقل ہوتے رہے۔ علوم کا یہ لامتناہی ذخیرہ ہی نور محمدی ہے۔ یہی ذخیرہ ازل میں آدم کی پیشانی پر چمکا۔ اسی نور نے موسیٰ علیہ اسلام میں جلال پیدا کیا۔ اسی نور نے ابراہیم علیہ اسلام کو عاشق بنا دیا۔ یہی ذخیرہ عیسیٰ علیہ اسلام کے عشق میں گرمی کا باعث بنا۔ چناں چہ حیات انسانی کے ارتقاء کے ساتھ اس ذخیرے  نے خود کو ایک سانچے میں ڈھال کر ”محم“ ﷺ کی شکل میں پیش کر دیا۔ نہ جانے اس ازلی نور کو اپنے اصل قالب میں ڈھلنے کے لیے کتنے لاکھوں ، کروڑوں سال کے ارتقاء کا انتظار کرنا پڑا ہو تب جا کر

الیوم اکملت لکم دینکم کی تفسیر بنا۔

                کیا وہ نور ”یعنی ذاتِ الٰہی کی معرفت کے علوم کے عظیم ذخائر“ آپ کے جسم اطہر کے ساتھ زمین میں چھپ گئے۔ جب کہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ اے محمد ﷺ اگر ہم تمہیں پیدا نہ کرتے تو کائنات نہ بناتے۔ چناں چہ اگر یہی نور چھپ جاتا تو اب روئے زمین پر کچھ بھی نہ ہوتا۔ بہ حیثیت رھمت للعالمین آپ ﷺ نے اس دولت سرمدی کو اپنے ورثاء کے حوالے کر دیا۔ اسی دولت سرمدی کی بناء پر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ صدیق قرار پائے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  علم کا دروازہ بن گئے۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ غنی کے خطاب سے نوازے گئے ۔ ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مرنا اور دوبارہ اٹھنا اپنے ساتھ ٹھہرایا گیا۔ یہی نور زمانے کے ساتھ بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ میں جلوہ گر ہوا۔ جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اسی نور کے شرف سے معزز ٹھہرے۔ اس ہی نور سے منصور حلاج کو بقائے دوامی حاصل ہوئی۔ اسی نور کے سہارے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور خواجہ بہاالحق والدین نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ جذب کی راہوں سے روشناس ہوئے۔ زمانے کے ساتھ ساتھ یہی نعمت مختلف سینوں میں قیام کرتی اس بیسویں صدی میں سید محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا  اولیا  رحمتہ اللہ علیہ کی شکل میں جلوہ گر ہوگئی۔

                ” علم حضوری کائنات کے صفاتی احساس کا مجموعہ ہے۔ علم حضوری روح کی بیداری سے میسر آتا ہے ۔

                علم حصولی اگر چہ محض روح کی تحریکات کا نتیجہ ہے لیکن اس کا اظہار جسم کے ذریعے ہوتا ہے۔“ ایک

                عارف عالم ناسوت سے ترقی کر کے زینہ بہ زینہ عالم ملکوت، جبروت اور لاہوت تک جا پہنچتا ہے۔ یہ

                ترقی جسمانی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اس راستہ میں صرف روح کی کوششیں کام آتی ہیں۔ انسان

                کی پیدائش سے لے کر حضور ﷺ تک جس قدر صحیفے نازل ہوئے ہیں ان میں اس بات کی پوری

                وضاحت کی گئی ہے۔ یونانی فلسفہ نے بھی ان ہی صحائف سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اگرچہ یہ فائدہ انہیں

                انبیاء کے شاگردوں ہی سے پہنچا لیکن ان کی اپنی   عقل کی کارفرمائی نے اس کو زیادہ سے زیادہ الجھا دیا

                اور ایسی متبدل تحریفات کیں جن سے ان کے شاگرد غلط راستوں پر پڑ گئے۔  فلسفہ کی تعلیمات کا یہ

                خصوصی زمانہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی پیدائش  کے بعد  اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی پیدائش

                سے پہلے کا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی تعلیمات میں جس انا

                ]یعنی روح[ كی وضاحت کی گئی ہے اس انا یا روح کو اہل فلسفہ کی کوششوں نے مبہم ہی نہیں بلکہ مہمل

                کر دیا۔ بالخصوص تیسری، چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں علمائے اسلام یونانی فلسفہ سے زیادہ

                متاثر ہوئے۔ ان کی طرزِ فکر عقل کی ایسی راہوں پر گامزن نظر آتی ہے جو فلسفہ نے نکالی تھیں۔

                دراصل اس قسم کے علماء فریب میں مبتلا ہو کر اس معرفت سے دور ہو چکے تھے جو حضور علیہ الصلوٰۃ

                والسلام سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین تابعین اور تبع تابعین کو پہنچی تھی۔“

حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کے اس فرمان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی مذہب کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اس عالم ناسوت ]مادی زندگی[ میں بھی اپنے مٹی یا گوشت پوست کے جسم سے بالا تر ہو کر اپنی روح کا عرفان حاسل کرنے اور نہ صرف روح تک رسائی حاسل کرے بلکہ اپنی روح کے ذریعے زمان و مکان کی حد بندیوں سے آزاد ہو کر کائنات کے قلب میں داخل ہو اور کائنات کی حقیقی اساس کو پالے۔

                مذاہب کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انبیاء کی زندگی کا یہی مقصد تھا کہ انسان روح کو پا لے۔ لیکن انبیاء کے پردہ فرمانے کے بعد ان کے پیرو کار دو گروہ میں تقسیم ہوتے رہے۔ ایک گروہ نہایت سنجیدگی سے مذہب کو اپنی خواہشات کی قربانی دے کر کائنات کے خالق کا عرفان حاسل کرنے کا ذریعہ سمجھتا۔ دوسرا گروہ دنیا پرستی کے ساتھ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مذہب کو روح کی طرزوں سے ہت کر مادیت  میں الجھا دیتا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ دنیاوی رسم و رواج پر تو زور دیا جاتا۔ خلوص و محبت سے عاری رسمی عبادات کی پرزاور تبلیغ کی جاتی اور مذہب کے نام پر دنیا داری کے فوائد و لوازمات سے بھی پوری طرح لطف اندوز ہوا جاتا۔ مگر روح کو جس ارتقاء کے لیے انسان دنیا میں پیدا ہوتا ہے کو نظر انداز کر دیا جاتا ۔  اس کا نتیجہ ہمیشہ مذہب سے بیزاری، اضمحلال، پریشانی اور الجھنوں کی صورت میں نکلتا رہا۔پہلا گروہ جو مذہب کو روح کے عرفان کا ذریعہ سمجھتا تھا ظاہری چکاچوند سے کچھ اس طرح ہٹ جاتا کہ عام نظریں اس کی تلاش  سے دور ہو جاتیں۔ غیر مسلم افکار اور کاروباری مذہبی گروہ نے قرآن کے اوپر قدغن لگانے کی کوشش کی۔ کسی کو یہ جرات تو نہیں ہو سکی کہ قرآن میں تبدیلی کر سکے۔ کیوں کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود خالق کائنات نے لیا ہوا ہے۔ لیکن تفاسیر اور معانی کو ایسے انداز میں پیش کیا گیا کہ عوام رسم و رواج اور اعمال کی لاحاسل بحث و تمحیص میں تو الجھ جائیں لیکن روح جس کے بغیر جسم انسانی محض سڑاند ہے، غلاظت ہے“ سے بے خبر رہیں۔

تبع تابعین کے بعد عالم اسلام میں سازش ، ملوکیت، مناقبت اور جاہ پرستی نے مسلمانوں کے اذہان پر ایسے مضبوط پنجے گارے کہ آج کے مسلمان ان علوم کے لیے نہ پنپ سکے۔ جس کا راستہ خود حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام نے اپنی  حیات مبارکہ میں ایک ایک لمحہ کے ایثار سے ہموار کیا تھا۔

حضور  قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات ہمیں اس حقیقت کا سراغ عطا کرتی ہیں کہ قرآن ایک واحد لاشریک ہستی کی طرف سے نازل ہو۔ جس ہستی پر یہ کتاب اتری وہ  صرف اور صرف ایک ہی طرزِ فکر کی حامل ہے۔

اس طرزِ فکر کی نشان دہی قرآن ہی کے الفاظ میں ہے کہ:

”اے محمد ﷺ کہہ دو میرا مرنا جینا ، اٹھنا بیٹھنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے۔“

قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہیں کہ قرآن دراصل کائناتی تخلیق کے فارمولوں کی دستاویز ہے۔ اس دستاویز  کا اصل مقصد یہی ہے کہ انسان اسی زندگی میں اپنے اصل خالق تک رسائی حاصل کر لے۔ اس وقوف کی بناء پر امت محمدی کو ”خیرامت“ کا نام دیا گیا ہے۔

قرآن کا دوسرا رخ ہمیں مادی زندگی کے طور طریق بتاتا ہے تاکہ عرفان الٰہی کے حصول میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں فراہم ہوں کہ انسان قرآن کے احکامات پر عمل پیرا ہو کر اپنے ذہن کو پُرسکون رکھے اور معاشرہ میں ہر قسم کے اضطراب اور پریشانیوں کا ازالہ کر کے ہر فرد خیالاتی انتشار سے چھٹکارا حاصل کر لے تا کہ انسان انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کی معرفت  و قربت سے مشرف ہو اور نور محمدی ﷺ کی اس سعادت کو حاسل کرے جو انسان کا ازلی شرف ہے۔ زندگی گزارنے کے وہ سلیقے چاہے وہ رہن سہن یا بات چیت سے تعلق تکھتے ہوں یا معیشت سے یا ازدواجی زندگی سے یا معاشرتی ادب سے ان سب کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کی طبیعت میں انتشار کم سے کم ہو کر توازن پیدا ہو جائے۔ یہی توازن اسے استغناء سے روشناس کرتا ہے اور  استغنا ء کی منزل کسی بھی شخص کو اس کی روح سے قریب کر دیتی ہے ورنہ مادی زندگی کے تمام اعمال قبر تک کے دھندے ہیں۔ قبر کے بعد جو کچھ روح انسانی کے لیے کار امد ہے وہ یہ ہے کہ انسان نے قبر مین جانے سے پہلے تک اپنی روح کو کس قدر عروج دیا ہے اور یہ روح زمان و مکان سے آزاد و علوم کا کس قدر ذخیرہ رکھتی ہے۔ یہی ذخیرہ روح کے لیے سہولتیں فراہم کرتا ہے۔

قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات  انکشاف کرتی ہیں کہ کائنات میں موجود  ہر شے خواہ وہ انسان ہے یا حیوان ، نباتات سے ہو یا جمادات سے یا ان کے اندر اور باہر کام کرنے والے تمام تر محرکات اور احساسات یہ سب کے سب کسی حاثے کی پیدا وار نہیں ہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ ایک تسلسل کا حصہ ہیں۔ یہ سب ایک باقاعدہ منصوبہ ہے۔ آپ کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات کے ہر فرد کی ابتدا ء سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذہن میں بننے والے پرگرام سے ہوتی ہے۔ یہ پروگرام اللہ تعالیٰ کے لفظ ”کُن“ فرمانے سے ظاہر ہوتا ہے۔ ظاہر ہونے کے بعد مخلوق کو اللہ کی طرف سے سماعت ، بصارت اور فہم کے احساسات عطا کیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ” الست بربکم“ کہہ کر مخلوق سے اپنا تعارف کروایا جاتا ہے اور پھر مخلوق سے ” بلی“ کہلوا کر اس کی تجدید لی جاتی ہے ۔ عالم ارواح کے بعد یہ تمام پروگرام یا مخلوق ایک اور عالم میں منتقل ہو جاتی ہے ۔ جسے لوح محفوظ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ لوح محفوظ کے بعد تمام مخلوقات عالم جو میں منتقل ہوتی ہیں۔ اس عالم کو عالم برزخ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ پھر اس عالم کے بعدمخلوق عالم ناسوت میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس عالم کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اسفل السافلین کے نام سے یاد کیا ہے۔ ایسا عالم جو سافلین یعنی گھٹیا ترین عالمین میں سے ہے۔ جب روح اس عالم میں یعنی مادی دنیا میں داخل ہوتی ہے تو اس عالم کے حواس اس پر اپنا تسلط جما لیتے ہیں۔ یہ حواس اس قسم کے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنی اسل کو بھول جاتا ہے۔ اپنی اسل یعنی اپنے رب کے بھولنے کی بنا ء پر  اس دنیا کو اسفل السافلین قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس عالم میں انسان کو کچھ کرنے یا نہ کرنے کے اختیارات حاسل ہو جاتے ہیں۔ چناں چہ انسان کو سوائے اپنی جسمانی یا مادی لذتوں اور اس کے بکھیڑوں کے کسی چیز کی خبر نہیں رہتی۔ وہ اپنے اختیارات کا رخ ان لذتوں کے حصول  میں استعمال کر کے ان کو اپنی منزل قرار دے دیتا ہے۔ مادیت میں الجھنے کے بعد روح کے اوپر اسفل السافلین کے حواس کی مقداریں بڑھ جاتی ہیں۔ چناں چہ روح کو اسفلالسافلین کے حواس سے دور رکھنے کے لیے انبیاء اور رسولوں کو بھیجا جاتا ہے۔ وہ اچھائی بُرائی کا تصور دے کر انسانی دل چسپیوں اور اختیارات کا رخ خالق کی طرف موڑنے کا پروگرام اپنے اپنے زمانے اورحالات کے مطابق مرتب کرتے ہیں۔ انسان کو چوں کہ اختیارات حاسل ہوئے ہیں اس لیے انسان خود کو بے بس نہیں کہہ سکتا۔ جب اپنی دل چسپیوں اور اختیارات کا رخ شہر کی طرف مرکوز کر سکتا ہے تو اپنی ہی مرضی سے خیر کے امور کی طرف بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔ اب یہ انسان کی مرضی ہے کہ وہ اپنی روح کو عروج دے یا نہ دے۔لیکن ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان کی مادی زندگی باقی عالمین کی زندگیوں کے مقابلے میں نہایت مختصر ہوتی ہے۔اسے اس دنیا سے بہرحال کوچ کرنا ہوتا ہے۔ اب مرتے وقت جس قسم کے حواس کا خزانہ ہوتا ہے وہی احساسات عالم اعراف میں بھی قائم  رہتے ہیں۔ ان ہی حواس کے تحت حشر نشر کی منزل طے ہوتی ہے۔ یہی احساسات اور حواس جو اس نے اپنے اختیارات سے حاصل کیے ہیں جنت دوزخ میں داخلے کی بنیاد بنیں گے۔ اگر روح میں اسفل السا فلین یا مادی حواس کا غلبہ ہو جائے تو یہ مادی حواس اور ان کی دل چسپیاں اصل میں انسان میں ایسے گہرے زخم پیدا کر دیتی ہیں جو اس مادی زندگی کے بعد ناسور کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

                صدیوں کی پیدا کردہ انسانی مصلحتوں ، جہالت اور ظلمتوں کے اس اتھاہ سمندر میں حضور بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی ذات مبارک ہر مذہب کے پیرو کاروں کے لیے رہبر کامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی تعلیمات ہمیں وہ شعور عطا کرتی ہیں کہ کوئی بھی انسان اس مادی زندگی میں اپنے اختیارات کو بروئے کار لا کر کائنات کے طویل ترین سفر کو مختصر کر کے مقام حضوری حاصل کر سکتا ہے۔

                یہی مقام سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عطیہ ہے۔ اس مقام کو صرف انسان ہی پا سکتا ہے۔ یہ مقام کسی بزرگ سے بزرگ تر فرشتے کے شعور سے بھی ماوراء ہے۔ انسانی عظمت کا آغاز بھی اس مرحلے سے ہوتا ہے۔ اس مقام کو قرآن نے تدلیٰ کا نام دیا ہے۔

                سائنس دانوں کے بہ قول اتنی ترقی کے بعد انسان نے اپنی صلاحیتوں کا محض دو یا تین فی صد استعمال سیکھا ہے۔ سائنس دان کچھ جانتے ہوئے بھی بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود وہ وحی اور الہام کی طرزوں سے قطعی نا واقف ہیں۔ اگر

سائنسی ترقی اس حد تک ہے تو انہیں یہ بتانا پڑے گا کہ آج سے ہزاروں برس پہلے حضرت سلیمان علیہم السلام کے دربار میں ایک شخص بغیر کسی مادی وسیلے کے کس طرح پندرہ سو میل کی مسافت سے ملکہ سبا کا تخت لے آیا۔حضرت عیسیٰ علیہم السلام کس طرح مردوں کو زندہ کرتے دیتے تھے۔ آج کا انسان چاند پر پہنچنے کا بہت واویلا کرتا ہے اسے یہ جواب دینا ہو گا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ السلام نے کون سی سائنس کے ذریعے ایک اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کردیئے۔ واقعہ معراج میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کس طرح کائنات کے تمام تر زون سے گزر کر بارگاہ الٰہی میں شرف ملاقات سے فیض یاب ہوئے۔سائنس دانوں نے تو اس پر غور ہی نہیں کیا۔ لیکن جہالت میں  علم کے دانش وروں نے بھی کسر نہ چھوڑی۔ وہ مادی دل چسپیوں ، رسم و رواج اور فرقہ بازی کے لاحاصل شیطانی کھیل میں  مصروف ہو گئے ۔ سائنس دانوں کے اپنے قول کا تجزیہ کیا جائے تو وحی و الہام کے مقابلے میں یہ لوگ ایک فیصد صلاحیت کے اہل واقع ہوئے ہیں۔ لامتناہیت کی طرز میں غور کریں تو قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فرمان آنکھوں کے سامنے چمک اٹھتا ہے کہ:

”کچھ ہونے کے باوجود آج بھی نوع انسان کا شعور انگوٹھا چوستے بچے کا سا ہے۔“

سائنس دان کائنات کی بنیاد کے بارے میں نت نئے نظریات قائم کرتے آئے ہیں اور اپنے نظریات کو آئے دن بدلتے رہنے پر اس نعمت عظمیٰ کا دروازہ بند کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ پہلے تو یہ فیصلہ ہونا چاہیئے تھا کہ کیا حضور  علیہ اصلوٰۃ والسلام کا مقابلہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام سے کیا جانا چاہیے۔اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام ایک برگزیدہ پیغمبر ہیں مگر کیا اس رحمت للعالمین ؐ جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں پوری کر دیں کا موازنہ کسی پیغمبر سے ہو سکتا ہے؟ قرآن حکیم ہی میں اس خود ساختہ مفروضہ کا جواب ہے۔ اگر حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو دیدار الٰہی کی تاب نہ تھی تو یہ بات آپ پر  اور آپ کی امت پر تو صادق آ سکتی ہے مگر اس واقعہ کا سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اور آپ کی امت پر اطلاق کرنا نہ صرف حد درجہ نادانی ہے بلکہ گستاخی اور بے ادبی ہے۔

جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضور علیہ الصلوٰۃ کے مراتب کے بارے میں سورہ کہف میں ہے:

                                ترجمہ : پھر پایا ہمارے بندوں میں ایک بندہ ]موسیٰ نے [ جسے ہم نے اپنے ہاں سے رحمت دی تھی

                                اور اسے ہم نے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا۔ موسیٰ نے اس سے کہا کہ کیا میں تیری اس شرط

                                پر پیروی کروں کہ تو مجھے سکھائے اس میں سے جو تجھے سکھایا گیا ہے۔کہا اس بندے نے بے شک

                                تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا۔ اس بات پر جو تیری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ کہا]موسیٰ نے[

                                انشاء اللہ تو مجھے صابر ہی پائے گا اور میں تیری بات میں تیری مخالفت نہیں کروں گا اور میں تیری

                                عبادت میں تیری مخالفت نہیں کروں گا۔اس بندے نے کہا پس اگر تو میرے ساتھ رہے۔ تو مجھ

                                سے کسی بات کا سوال نہ کر۔ یہاں تک کہ میں تیرے سامنے اس کا ذکر کروں۔ پس دونوں چلے اور

                                ایک دریا پر ایک کشتی میں سوار ہوئے اور اس بندے نے کشتی میں سوراخ کر دیا۔ موسیٰ نے بندے

                                سے کہا تو نے کشتی میں اس لیے سوراخ کر دیا کہ کشتی غرق کر دے۔ یہ تو نے خطرناک بات کی ہے۔

                                اس بندے نے کہا میں نے تجھ سے کہا نہیں تھا کہ تو صبر نہ کر سکے گا۔ موسیٰ نے فرمایا میرے بھول

                                جانے پر سختی نہ کر۔گرفت نہ کر۔پھر دونوں چلے یہاں تک کہ انہیں ایک لڑکا ملا۔ تو اسے مار دیا۔

                                پھر موسیٰ نے کہا تم نے ایک بے گناہ کا ناحق مار دیا۔ پھر اس بندے نے کہا کیا میں نے تجھ سے نہیں

                                کہا تھا کہ تو صبر نہ کر سکے گا۔ پھر موسیٰ نے کہا کہ اب میں تجھ سے کوئی سوال کروں تو مجھے ساتھ نہ

                                رکھ۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں میں پہنچے تو ان سے کھانا مانگا۔ انہوں نے مہمان

                                نوازی سے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے ایک دیوار پائی جو گرنے ہی والی تھی۔ تب اس کی مرمت کر

                                دی اور کوئی اجرت بھی نہ لی۔موسیٰ نے کہا بندے سے آپ کو اجرت لینی چاہیئے تھی۔ بندے نے

                                کہا اب میرے اور تیرے درمیان جُدائی ہے۔ ہم اب ساتھ نہیں چل سکتے۔ اب میں تجھے ان

                                باتوں کا راز بتاتا ہوں جن پر تو صبر نہ کر سکا۔ جو کشتی تھی وہ بہت غریب لوگوں کی تھی جو دریا پر

                                مزدوری کرتے تھے۔میں نے اس میں عیب کر دیا۔ کیوں کہ دریا کے دوسری طرف ایک

                                ایک بادشاہ تھا جو جب اچھی کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا اور رہا لڑکا اس کے والدین بہت ایمان

                                دار تھے ہم ڈرے کہ یہ تو سکش اور کافر نکلے گا۔ وہ انہیں بھی سرکشی اور کفر میں مبتلا نہ کر

                                دے۔ ان کا رب اس کے بدلے میں ان کو ایسی اولاد دے گا جو پاکیزگی میں ان سے بڑھ کر

                                ہو اور جو دیوار تھی وہ اس شہر کے دو یتیم بھائیوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور

                                ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ پس تیرے رب نے چاہا کہ وہ جوان ہو کر اپنا خزانہ نکالیں اور یہ

                                کام میں نے اپنے ارادے سے نہیں کیا۔ یہ حقیقت ہے اس کی جس پر تو صبر نہیں کر سکا۔

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات پر غور کرنے سے اللہ تعالیٰ کی لامتناہیت اور نوع انسان کو عطا کردہ علوم کی لامحدودیت کا احساس جا گزیں ہونے لگتا ہے۔ ذہن کو مختلف فرقوں اور جھوٹے عقیدوں سے آزاد کر کے یہ واقعہ سمجھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اس شخص سے جو نبی نہیں ہے علم حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس بندے کی تمام شرائط کو تسلیم کرتے ہیں اور نتیجتاً ان شرائط پر قائم نہ رہ کر اس علم سے محروم رہ جاتے ہیں جو بہ راہ راست بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے یعنی ایک صاحب وحی ہستی ایسے یعنی ایک صاحب وحی ہستی ایسے بندے سے علم حاصل کر رہی ہے جسے قرآن میں محض بندہ قرار دیا گیا ہے۔ رسول یا نبی نہیں۔

یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ بے شک حضرت موسیٰ علیہ السلام جلیل القدر صاحب وحی ہستی ہیں لیکن آپ انی ہی علوم سے متصف ہیں جو آپ کو سکھا دیئے گئے ہیں۔جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں ہر قسم کی محدودیت سے پاک اور آزاد ہیں۔

دیدار الٰہی اور شرف گفت گو کے ضمن میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ معراج نوع انسان کے لیے سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ سورۃ نجم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

عَلَّمَهۥ شَدِيدُ               

                ترجمہ: ان کو تعلیم کرتا ہے جس کی طاقت زبردست ہے۔ اصلی صورت پر نمودار ہوا۔ جب وہ افق اعلا پر

                تھا۔نزدیک آیا۔ پھر  اور نزدیک آیا۔ جھکا ، دوکمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ کم پھر اس نے اپنے بندے

                سے باتیں کیں جو کرنی تھیں۔ جو دیکھا اس نے جھوٹ نہیں دیکھا۔ اب کیا تم اس سے اس چیز میں جھگڑا

                کرو گے جو اس نے دیکھی؟

قرآن کریم فرقان حمید کی بیان کردہ یہ آیات ہر دانش ور اور سائنس دان کو تفکر کے عظیم الشان ذخائر فراہم کرتی ہے ۔ معراج کی افضلیت یہ تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات حاصل ہوا اور محض اتنے فاصلے سے جو دو کمانوں سے بھی کم تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بندے سے گفتگو کی جو وہ چاہتے تھے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ سب کچھ سچ تھا۔ حقیقت پر مبنی تھا۔ کیوں کہ سب کچھ ان کی آنکھ سے دیکھا گیا اور سنا گیا۔

لاریب اور عظیم الشان کتاب قرآن کی یہ آیات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عظمت کی انتہائی بلندیوں کا پتہ دیتی ہیں۔

معراج کی عظیم نعمتوں سے سرشار ، دیدار الٰہی  اور قرب الٰہی کی ابدی خوشیوں سے معمور آقائے نامدار حضور علیہ الصلوٰۃ کو اپنی امت کا اس قدر خیال ہے کہ  رحمت للعالمین کے فیضان اور وراثت سے کوئی محروم نہ رہ جائے۔ آپ نے یہ تمام تر علوم الصلوٰۃ معراج المومنین فرما کر اپنی امت کو عطا فرما دیئے ہیں۔ جو مادی حواس کے پس پردہ دیکھتا ، سنتا اور سمجھتا ہے وہ صلوٰۃ کے ذریعے معراج کی سعادتوں اور برکتوں سے مشرف ہو جاتا ہے کیوں کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی عمل یا فرمان قرآن کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ اس ہی نعمت کا تذکرہ قرآن نے یومنون بالغیب کہہ کر اس جانب اشارہ کیا ہے۔

کہیں پر  و فی انفسکم افلا تبصرون ” میں تو تمہارے اندر ہوں دیکھتے کیوں نہیں“

کہہ کر  اس راز سے پردہ اُٹھایا ہے۔

کسی جگہ پر صلوٰۃ میں حضور قلب کو امر لازم قرار دیا ہے اور کسی مقام پر ” ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی صلوٰۃ سے غافل ہیں“ کہہ کر نماز کے حقیقی مفہوم سے روشناس کرایا ہے۔اس ہی لیے حضور پاک کا ارشاد گرامی ہے کہ میری امت میں ایسے افراد بھی ہوں گے جو بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے برابر ہوں گے اور ان پر فوقیت رکھیں گے۔

                خیر البشر ، علم ذات کے امین باعث تخلیق کائنات سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے علوم کے وارث حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات یہ حقیقت منکشف کرتی ہیں کہ فرقہ ورایت اور جھوٹ کے جتنے بھی عقیدے گھڑ لیے جائیں نہ تو قرآن حکیم کی عظمت میں کسی قسم کی کمی ہو سکتی ہے اور نہ ہی قرآن کے حقیقی مفہوم کو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی حضور کی بزرگی اور تقدس پر کوئی حرف آسکتا ہے۔

                حضور قلندر بابا رحمتہ اللہ علیہ لیاء کا شعور ہمیں اس فہم سے روشناس کرتا ہے کہ کسی بھی پیغمبر کی حیثیت اپنی امت کے لیے ایک باپ کی ہوتی ہے۔ جو ماں کی ممتا کے جذبوں سے بھی مالا مال ہوتا ہے۔ جس کے پاس کائنات کی تسخیر کے فارمولے بہ طور امانت ہوتے ہیں ۔ قرآن کے الفاظ میں ہر رسول کے درجات علوم کی بنیاد پر مخصوص ہوتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے لامتناہی علوم کے خزانوں کے امین ہیں۔ اب یہ امت کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو سعادت مند اور نیک بخت ثابت کر کے تسخیر کائنات کے فارمولوں کے علوم حاصل کریں۔ فرقہ پرست ، جھوٹا ، فریبی، ریا کار، مذہب فروش سید نا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقرب نہیں ہو سکتا۔ ایسے شخص کا خود کو آپ کا امتی کہنا نہ صرف جھوٹ ہے بلکہ آپ کی شان کے اقدس میں حد درجہ گستاخی اور بے ادبی ہے۔

                حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات ہمیں اس حقیقی شعور کا ادراک کراتی ہیں جس کی بنیاد پر جان لیا جاتا ہے کہ انسان دو حواس سے مرکب ہے۔ ایک حواس مظاہر میں کام کرتے ہیں جنہیں ہم مادی حواس کہتے ہیں۔ یہ حواس صرف اور صرف مادیت سے دل چسپی رکھتے ہیں۔ کیوں کہ مادے کو قرار نہیں ہے۔ یہ فانا ہونے والی چیز ہے۔ مادی حواس بھی مادے کی طرح عارضی اور مفروضہ ہیں جب کہ دوسرے حواس ان مادی حواس کا بالکل الٹ ہوتے ہیں۔ عرف عام میں انہیں روحانی حواس کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ حواس مادے کی نفی کرتے ہیں۔ ان میں داخل ہو کر مادے کی حقیقی روح کا ادراک ہوتا ہے۔ ان حواس سے انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ ہی حقیقی نظر ہے۔یہی نظر اس کو اس کے رب سے متعارف اور دیدار کا ذریعہ بنتی ہے یہی حواس اس مشروب تک رسائی کرا دیتے ہیں جسے پی کر انسان حیات جاودانی حاصل کر لیتا ہے۔

 

 

 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔