Topics

قلندربابااولیاءرحمۃ اللہ علیہ کا منظوم مکتوب گرامی


نظم ایک شعری اصطلاح ہے اس کے معنی پرونا، ترتیب دینا، تشکیل دینا اور انتظام کرنا کے ہیں۔ یہ شاعری کی ایک منظم صورت ہے۔کسی بھی بے ترتیب اور بکھرے ہوئے مواد کو موضوع اور مرتب شکل میں پیش کرنا نظم کہلاتا ہے ۔نظم میں زندگی کے ہر پہلو کو بیان کیا جاتا ہے اس کی کئی اقسام ہیں جن میں نظمِ معریٰ،  آزاد نظم، شہر آشوب ، بائیکو وغیرہ شامل ہیں۔

اردو نظم کا پودا دکن میں بویا گیا اور تین سو سال تک اس میں مناظر فطرت ،مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر نظمیں لکھی گئیں۔نظم گوئی میں دکن کی  تین سو سالہ شاعری کے بعد اٹھارویں صدی میں نظیر اکبر آبادی نے اس کو پروان چڑھانے میں مدد دی۔ نظیر نے اپنی نظموں میں روزمرہ کے مسائل ،رسومات ،پندونصائح،  طنز و ظرافت اور عوامی ضرورتوں کی ترجمانی کی جس کی بنا پر وہ شاعر عوام کے لقب سے ملقب ہوئے 1857ءمیں سے قبل کی  نظم گوئی اپنی  مروجہ  ہیئت سے پہچانی جاتی ہے جو خواہ قصیدہ ،مرثیہ، مثنوی ،قطعہ کی ہیئت میں ہو یا مسمط  کی کسی شکل یعنی مثلث ،مربع ،مخمس ،مسدس، مسبع، مثمن ، یا معشر ہو۔ جدید نظم کی پہچان ہیئت نہیں بل کہ فنی وحدت  اور اختصار ہے۔

1857ء کے بعد انگریزی اثرات نے اردو شاعری کو متاثر کیا انگریزی شاعری کی نمایاں خوبی نظم نگاری  ہے۔جہاں ایک خیال کو آخر تک رکھا جاتا ہے کوئی فکری پہلو اور عنوان بھی ہوتا ہے ۔اردو میں میں  اگر چہ ایسی نظمیں موجود تھیں لیکن وہ پابند نظمیں تھیں نیز ان میں فکری پہلو کم تھے۔ 1857ء کے بعد اعتقاد کی ٹوٹنے سے بھی بے سمتی  نے جنم لیا۔ انسانی زندگی کی بے توقیری نے فرد کو لا مرکزیت کا شکار بنادیا ،جس نے منظم ادبی تحریک کے بر عکس مختلف رجحانات کو فروغ دیا۔ جو ریزہ خیالی میں اردو غزل کے ہر شعر میں نظر آتی ہے اب ہر شاید اس کی عملی تفسیر بن گیا۔

بیسویں صدی میں جب نظم نگاری کو ایک الگ صنف کے طور پر فروغ حاصل ہوا کہ ابتدائی کوششوں میں حالی،آزاد اور شبلی وغیرہ سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ ان بزرگوں کی کوششوں سے شاعری کے دامن پر لگا یہ دھبہ دھل گیا کہ یہاں جھوٹے عشق کی  جھوٹی کہانیوں اور اہل ثروت کی چاپلوسیوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔حالی نے "مسدس حالی "لکھ کر اردو نظم کو مقصدیت کی طرف گامزن کیا ۔حالی کا یہ تخلیقی شہ پارہ انسانی روایات کا عکاس ہے۔آزاد  اور حالی نے  کرنل ہالرائیڈ کی سرپرستی میں انجمن پنجاب لاہور کی بنیاد رکھی۔ جس سے نظم گوئی کا آغاز ہوا۔ انجمن پنجاب کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعروں میں مصرع طرح کی بجائے موضوعات دیے جاتے تھے۔ آزاد کی نظمیں" شب قدر" ،"برکھا رت "،"صبح امید" اور حالی کی " برکھا رت"،" حب وطن "،"مناجات بیوہ" اور" چپ کی داد" اسی زمانے کی یاد گار ہیں ۔نظم میں نئے رجحانات اور خیالات کی ترویج کے لیے مذکورہ بزرگوں کا خون جگر بھی شامل ہے۔ اس مقصد کی شاعری نے زبان اور" مضمون "دونوں سطح پر تبدیلیاں پیدا کیں۔اس لئے ہمیں حالی، شبلی اور آزاد کے ساتھ ساتھ اس تحریک سے متاثر کی شاعر نظر آتے ہیں جیسے اسماعیل میرٹھی وغیرہ۔

ہر پیا می  شاعر کو ایک ایسے سانچے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں وہ اپنے افکار و خیالات کو بے ربط و تسلسل کے ساتھ بہ سہولت ڈھال سکے۔ غزل میں  جوشعری تجربہ صرف اشارے کنائے میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ نظم میں اس کے تفصیلی اظہار کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس لیے ہر زبان کا سہارا لینا پڑا ہے۔

 سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ م بھی ہمارے بیا می  شاعروں میں سے ایک  ہیں  اور نظم میں ان کا قیام ہے، اپنے ماضی سے رشتہ استوار رکھنے کی فرمائش ۔ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاعری کا آغاز سنجیدہ منظوم کلام سے کیا اور منظوم مکتوب نگاری کا اسلوب اختیار کرکے نہ صرف اپنے نظریات و خیالات کا اظہار کیا بل کہ نظم میں جدت پیدا کی تاکہ نظم میں وسعت پیدا ہو سکے:

 اپنے بچپن سے تادم وفات رفیق وہ ہم حضرت سید نثار علی بخاری مرحوم کے نام جو حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے 5 دسمبر 1942 کو باغپت، ہندوستان سے مرقوم کو فرمایا۔ یہ خط 1942 کا لکھا ہوا ہے( یعنی آج سے 78 سال قبل)۔

 پہلے ایک پوسٹ کارڈ کی شکل میں  معرض تحریر میں آیا تھا اور فی البدیہہ منظوم ہوا تھا۔قدرت کلام ، حلاوت بیان ، گہرائی  احساسات اور شدت جذبات کی اس سے بہتر نمونے کی نشاندہی نہیں ہوتی ۔

نظم کا نمونہ کلام منظوم خط کا متن پیش خدمت ہے۔

باغپت ۵ دسمبر۱۹۴۲                                                         

السلام اے مہربان زندگانی السلام                   

اے نشاط بزم دل اے یار جانی السلام

اک  فقیر بےنوا کے دل میں تیری یاد ہے                   

تو خفا ہے جس سے وہ تیرے لئے ناشاد ہے

شمع گر خواہد کہ سوزد خرمن پروانہ را                     

جذ بہ طاعت شرط نبود مذہب دیوانہ را

تو گلستان وطن کا سرو ہے شمشاد ہے                     

مرحبا اس انجمن پر جس میں تو آباد ہے

باغ جنت سے فزوں تر ہے مجھے وہ انجمن                      

جس میں ہوتے ہیں مرے احباب سرگرم سخن

میرے دل  کی  خواہش  ان  آستانوں  پر نثار

جو کہ ہیں قدموں سے یاران وطن کے ہمکنار

اے صبا لے جا  پیام شوق اس منزل کے نام                 

فرض ہے جس کے ہر اک کوچہ کا مجھ پر احترام

سر جھکا کر عرض کرنا وہ ادب کا ہے مقام                 

دوست داران  سرور  و   شادمانی       السلام

میں تمہیں محسوس کرتا ہوں دل و جاں کے قریب                

پر تم  بھولے ہوئے ہو مجھ کو  یہ میرا نصیب

وہ سحر وہ شام وہ راتوں کی مجلس  یاد ہے                  

ان  بہاروں  کے  لئے دل  مائل فریاد  ہے

اس زمین کی یاد میں قلب حزیں بیمار ہے                 

جس کا ہر ذرہ تمہارے سایہ سے گلزار ہے

روزگار شد کہ من کشتی در آب انداختم

کار درد و بندگی با عجز و زاری ساختم

              

زارؔ و نزار

 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔