Topics
حضور
بابا صاحبؒ نے اپنی رباعیات میں بیشتر موضوعات پر روشنی ڈالی ہے کہیں بنی نوعِ
انسانی کی فطرت اور حقیقی طرزِ فکر کو اجاگر کیا ہے، کہیں مٹی کے ذرے کی حقیقت اور
فنا و بقا پر روشنی ڈالی ہے ۔ کہیں پرودگار کی شان وعظمت کا ذکر ہے۔ کہیں فطرتِ
آدم کی شرابِ وحدت میں مست و بے خودی کا ذکر ہے۔ کہیں عالمِ ملکوت و جبروت کا
تذکرہ ہے ۔ کہیں کہکشانی نظام او رسیاروں کا ذکر ہے، کہیں فطرتِ آدم کی مستی
وقلندری اور گمراہی پر روشنی ڈالی ہے۔ کہیں اس فانی دنیا کی فانی زندگی کو عبرت کا
مرقع ٹھہرایا ہے۔ کہیں فرمان الٰہی اور فرمان رسولؐ پیش کرکے تصوف کے پہلوؤں کو
اُجاگر کیا ہے ۔ کہیں عارف کے بارے میں فرمایا ہے کہ عارف وہ ہے جو شرابِ معرفت کی
لذتوں سے بہرہ ور ہو اور اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی برضا ہو۔
یہی وجہ ہےکہ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی تخلیقات میں
ہمیں تصوف کے روایتی مضامین ملتے ہیں بالخصوص ان کی رباعیات میں تصوف کے روایتی
مضامین کی بھر پور آمیزش ہے۔ ان کی صوفیانہ شاعری مابعد الطبعی رجحانات اور تصورات
کا باقاعدہ اظہار ہے۔ ان کی تعلیمات وہی ہیں جو ان سے صدیوں پہلے سید علی ہجویری
رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بزرگان متعارف کرواچکے تھے۔ اس اعتبار سے سید محمد عظیم
رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کو اسلامی تسوف کی زریں روایات کا تسلسل تصور کرنا
چاہیئے۔ ان کے ہاں مذہبی قانون اور داخلی صوفیانہ صداقت میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا
رجحان غالب نظر آتا ہے۔
ا ن کی شاعری ، فکر اور مطالعے کے ڈانڈے قرآن و حدیث ،
فارسی شعراء عطار رومی ، جامی کے علاوہ منصور حلاج اور خواجہ حافظ سے لے کر پنجابی
صوفی شعراء تک پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں تصوف اور روایت کو جذب کر
کے ذاتی اور اجتماعی سوز وگداز کے فیضان سے فکر انگیز اور دل کش پیرائے میں ڈھالا
ہے اور ابن عربی اور مولانا روم کی صوفیانہ روایت ، پنجابی صوفیانہ شاعری کی روایت کے اثر سے دو آتشہ ہو گئی ہے۔ان
کی تخلیق کردہ رباعیات انہی افکار و تخیلات کا پر تو نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری کی
تین خصوصیات ہیں، سوزوگداز، پندونصائح کے شائبے کے بغیر لطیف پیرایہ اظہار اور
تمثیلی انداز۔
ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود کی وہ ایسی تعبیر کے حامی
ہیں، جوذرے ذرے میں جمال حقیقی سے روشناس کرواتی ہے۔ انسان کو تعصبات اور فخر و
غرور سے بچاتی ہے۔ اسی رویے نے ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی پیدا کی ہےاور
فکر کو وسیع اور ہمہ گیر بتایا ہے۔انہوں نے خارجی احوال وکوائف کی ترجمانی کے
علاوہ من کی دنیا کی سیاحت بھی کی ہے۔ خارجی اور داخلی زندگی ان کی شاعری میں الگ
الگ نہیں بل کہ باہم مربوط نظر آتی ہیں۔ ان کے مطابق جیتے جی مر جانا اور مر کر
بھی جیتے رہنا ہی فقر ہے۔ عمل پر بہت زور دیتے ہیں کیوں کہ عمل کے بغیر کوئی بھی کام
پورا نہیں ہوتا۔
مصلحت اندیشی اور مطابقت پذیری کبھی بھی ان کی ذات کا حصہ
نہ بن سکی ۔ ظاہرپسندی پر تنقید ہمہ وقت ان کی شاعری کا پسندیدہ جزو رہی۔ قوت
مشاہدہ ، قرآن و حدیث کی تعلیمات اور فقہ کے مطالعے کی بدولت ان کی شاعری کے سادہ
الفاظ میں بھی گہرے معانی پائے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کے مطالعے کے بعد یہ بھی پتہ
چلتا ہے کہ وہ فارسی کی کلاسیکی شعری روایات سے بھی بہ خوبی آگاہ تھے۔ یوں محسوس
ہوتا ہے کہ روحانی تجربوں سے گزر کر وہ بنی نوع انسان کو حقیقت مطلق تک رسائی کا
راستہ بتا رہے ہیں۔
صوفیہ کے نزدیک دنیاوی
زندگی ایک مختصر عرصہ قیام ہے جس کے دوران انسان کو دو طرفہ جدجہد کرنی ہے۔ ایک
طرف تو اسے دنیاوی معاش کے لیے ہاتھ پیر ہلانے ہیں اور دوسری طرف عمل ہی کے ذریعے
اللہ تعالیٰ سے اپنے ربط کی تجدید کرنی ہے۔ عملاً اس بات کا یقین حاصل کرنا ہے کہ
سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ اس صورت حال میں اگر وہ چوک گیا تو اس کی چارنفس عمر
رائیگاں چلی جائے گی۔اسی بات کو سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ یوں بیان کرتے ہیں:
اچھی ہے بری ہے
دہر فریاد نہ کر جو کچھ کہ گزر گیا اسے یاد نہ کر
دو چار نفس عمر
ملی ہے تجھ کو دو چار نفس عمر کو برباد نہ کر
تشریح: دنیا کی ہر چیز ایک ڈگر پر چل رہی ہے۔ نہ
یہاں کوئی چیز اچھی ہے نہ بری ہے۔ ایک بات جو کسی کے لئے خوشی کا باعث ہے، وہی
دوسرے کے لئے پریشانی اور اضمحلال کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ دنیا معانی اور مفہوم کی
دنیا ہے۔ جو جیسے معانی پہنادیتا ہے اس کے اوپر ویسے اثرات مرتّب ہوجاتے ہیں ۔ پھر
کیوں دنیا کے جھمیلوں میں پڑ کر وقت کو برباد کیا جائے۔ یہ جو دو چار سانس کی
زندگی ہے اسے ضائع نہ کر۔ ہر بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ۔ پروردگارِ عالم
فرماتے ہیں......... اور وہ لوگ جو راسخ فی العلم ہیں کہتے ہیں کہ ہر چیز ہمارے رب
کی طرف سے ہے۔
دنیا کا دھوکہ
اور اپنی پہچان یعنی تصور خودی:
صوفیہ اس دنیا
کو ایک دھوکہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ جانتا بہت ضروری ہے کہ انسان اس دنیا میں
کیوں آیا ہے اس بات کو جان کر ہی انسان خالق کی مرضی و منشاء کو سمجھ سکتا ہے۔
اسی بات کو
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان کیا ہے۔
اک آن کی دنیا ہے
فریبی دنیا اک
آن میں ہے قید یہ ساری دنیا
اک آن ہی عاریت
ملی ہے تجھ کو یہ بھی جو گزر گئی، تو گزری دنیا
تصور زمان و
مکاں:
صوفیہ کے نزدیک یہ زندگی پابند
زندگی ہے وہ زمان و مکان سے آزادزندگی کاتصور پیش کرتے ہیں۔
اسی بات کو سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان کیا ہے۔
اک جرعہ مئے ناب
ہے کیا پائے گا اتنی سی کمی سے کیا فرق آئے گا
ساقی مجھے اب مفت
پلا کیا معلوم یہ سانس جو آگیا ہے پھر آئے گا
تشریح: پابند زندگی کی حقیقت شراب کے ایک گھونٹ کی
ہے۔ مل گیا تو اور نہ بھی ملا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے تو معرفت کی وہ شراب
چاہیئے جس کا ایک گھونٹ ٹائم اسپیس کی قید و بند سے آزاد کردیتا ہے۔
عارفانہ موضوعات:
تصوف کی اصطلاح میں عارف وہ ہے جو اپنی اور دنیا کی حقیقت
کو جانے اور غوروفکر کے نتیجہ میں عرفان ذات حاصل کرے۔ اسی لیے سید محمد عظیم رحمۃ
اللہ علیہ کی شاعری میں مرکزیت بنی نوع انسان کے ساتھ ایک جداگانہ محبت ، ایک لا
متناہی تعلق کے طور پر نظر آتی ہے۔ ان کے شعروں میں اردو اور فارسی روایات بھی نظر
آتی ہیں۔جنہیں دنیاوی عشق کی وساطت سے عشق حقیقی پر منطبق کیا جاسکتا ہے۔ان کی یہ
شعری خصوصیت تخلیقی محاسن کے ساتھ وسعت کا موجب بنتی ہے۔ فطرت کی رنگینیاںاور حسی
تجربوں کے بیان کی دولت سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری عارفانہ فکر کی
حاصل ہے۔
تصور خودی:
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا
ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں ہم اسے "خودی" کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ
یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباث کا محور ہے۔ اس محور تک ان کی رساءی ذات و
کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کےجوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا
ہے۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتاہے۔ اردو شاعری میں ان سے
پہلے غالب نے بھی اُٹھائے تھے۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں ابر
کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
لیکن سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کے سوالات و جوابات کی
نوعیت اس سلسلے میں غالب سے بہت مختلف ہے، یہ غالب نے "عالم تمام حلقہ دام
خیال ہے" " اور ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔" کے عقیدے سے قطع نظر
کرکے ، وجدانی طور پر ایک لمحے کے لیے محسوس کیا ہے اسے بیان کردیا ہے۔ سید محمد
عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے ان سوالوں کے جواب میں دلائل و برہان کے مفرو پیغامبر ہیں۔
اس فلسفے میں خدا بینی و خود بینی لازم و ملزوم ہیں۔ خود بینی میں سے خارج نہیں بل
کہ معاون ہے۔ خودی کا احساس ذات خداوندی کا ادراک اور ذاتِ خداوندی کا ادراک خودی
کے احساس کا ثبات و اقرار ہے خدا کو دیکھنے کے لیے خود کو قاش تر دیکھنا از بس
ضروری ہے۔ اگر خواہی خدارا فاش دیدن خودی را فاش تر دیدن بیاموز۔
آدم کا کوئی نقش
نہیں ہے بیکار اس خاک کی تخلیق میں جلوے ہیں ہزار
دستہ جو ہے کوزہ
کو اٹھانے کے لیے یہ ساعد سیمیں سے بناتا ہے کمہار
تشریح: آدم کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے رنگا رنگ
روشنیاں بھردی ہیں۔ اس خاک کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی صناعی کے ہزاروں جلوے
پنہاں ہیں۔ بظاہر یہ تخلیق مٹی (روحانیت کی زبان میں مٹی کا مطلب صرف مٹی نہیں
بلکہ یہ ایک ایسا مظہر ہے جس میں تخلیقی فارمولے برسرِ عمل ہیں اور رد و بدل ہوکر
مختلف تخلیقات کا روپ اختیار کرتے ہیں) سے مرکب نظر آتی ہیں لیکن اس کے پسِ پردہ
جو روشنیاں اور فارمولے کام کررہے ہیں وہ ا حسنِ تقویم کا مظہر ہیں۔ لیکن افسوس اس
بات کا ہے کہ آدم اپنے آپ سے بے خبر ہے۔ وہ خود کو نہیں جانتا۔ اگر وہ خود کو جان
لے، دیکھ لے تو اللہ تعالیٰ کی صفت ربانیت کو پہچاننا بالکل آسان ہے۔
یہ رُباعی حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان من عرف نفسہٖ
فقد عرف ربہ کی
تشریح ہے۔
اسی بات کو اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں ۔ ترجمہ : اور خود
تمہاری جانوں میں (نشانیاں) ہیں تو کیا تم نہیں دیکھتے۔
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کو یو ں بھی بیان
کی اہے۔
اک جرعہ مئے ناب
ہے ہر دم میرا اک جرعہ مئے ناب ہے عالم میرا
مستی و
قلندری و گمراہی کیا اک جرعہ مئے ناب ہے محرم میرا
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ عارفانہ رنگ میں خالق کو
جاننے کا ایک انداز یو ں بھی پیش کرتے ہیں، جس کے پس منظر میں اس روز ازل کو خالق
اور مخلوق کی پہلی ملاقات کی کہانی بھی ہے:
اک لفظ
تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا اک
شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا
گردوں نے ہزار عکس
ڈالے ہیں عظیم ؔ میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا
تشریح: اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اندازہ کون کرسکتا
ہے۔ ایک لفظ میں ساری کائنات کو سمودیا ہے۔ اس لفظ میں اربوں، کھربوں بلکہ ان گنت
عالم بند ہیں۔ یہ لفظ جب عکس ریز ہوجاتا ہے تو کہیں عالمِ ملکوت و جبرت آباد
ہوجاتے ہیں اور کہیں کہکشانی نظام اور سیارے مظہر بن جاتے ہیں۔
کتنا برجستہ راز ہے یہ کہ لفظ ہر آن اورہر لمحہ
نئی صورت میں جلوہ فگن ہورہا ہے۔ اس ایک ہی لفظ کی ضیا پاشیوں کو کبھی ہم بقا کہتے
ہیں اور کبھی فنا کا نام دے دیتے ہیں۔ اے عظیم! اس کی عظمت کی کوئی انتہا نہیں کہ
اس نے ‘‘کن’‘ کہہ کر ایک ذرہ بے مقدار پر اتنے عکس ڈال دیئے ہیں کہ میں پیمانہ بن
گیا ہوں ایسا پیمانہ جس کے ذریعے دوسرے ذرات (مخلوق) وہ نشہ اور شیفتگی حاصل کر
سکتے ہیں جس سے پیمانہ خود سرشار اور وحدت کی شراب میں مست و بے خود ہے۔
اقدار
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صوفیانہ شاعری میں نہ
صرف معاشرتی اقدار کی بات کی ہے بل کہ جہاں ضروری سمجھا قدروں کے رد میں بھی بات
کی ۔ ایک جگہ ذات پات کے رد میں بیان کرتے ہیں۔
کہتی ہے یہ مٹی بھی بہت سی باتیں باتوں میں گزر گئی ہیں اکثر
راتیں
مٹی کے یہ ذرات بھی انسان تھے تھیں کبھی ان کی شیخ و
برہمن کی ذاتیں
نوع انسانی در اصل اجتماعی شعور سے مرکب ہے،
جب ہمارے اندر اجتماعی شعور نکل گیا تو ہمانفرادی شعور میں قید ہوگئے اور ہم شیخ و
برہمن بن گئے ہم نے جب سے حقائق پر غور کرنا چھوڑ دیا ہےتو وہ انفرادی ہوگیا۔یہ ساری ذات برادریاں انفرادی شعور کے تحت خود ، خود غرضی کے دائرے میں گردش
کررہی ہے، اصل بات یہ ہے کہ جب سڑی ہوئی مٹی کے پتلے میں ایک برہمن بھی پاخانہ
پیشاب کرنے پر بھی مجبور ہے، اور شیخ صاحب بھی بول و براز کی پابندیوں سے آزاد
نہیں ہیں، فقیر بھی خوش نما پردے میں چھپی ہوئی سڑی ہوئی چیزیں کھاتا ہےاور بادشاہ
بھی اپنے پیٹ میں سرانڈ لیے پھرتا ہے۔ مٹی کا بنایا ہوا انسان جب مٹی سے باتیںکرنے
کے لائق ہوجاتا ہے تو اسپر یہ عقدہ کشائی ہوتی ہے کہ یہ ذات اور برادریاں انسان کی
اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو اللہ سے واقف ہے، اور جب کوئی
بندہ اللہ سے واقف ہوجاتا ہے تو اشیائے کائنات کے رموز اس کے اوپر آشکار ا ہوجاتے
ہیں۔
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ پیغام قرآں کا پیغام
ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
ترجمہ: بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا
وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔
سماجی ثقافتی آثار
دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان کا سماج
ثقافت اوردنیاوی خواہ ہشات کے گرد گھو م رہا ہے۔ یہی انسان اقتدار اور ذر کے لیے
سب کچھ کر گزرنے کو تیا ر ہے لیکن ایک صوفی کے ہاں اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رباعیات میں سماج کے
اس رویے پر اس انداز میں گہر ضرب لگائی۔
انسان کاغرور اقتدار و زر ہے گر یہ بھی نہیں تو مذہب و
ممبر ہے
دیکھا جو اسے بعد فنا ہونے کے معلوم ہوا یہ خاک مٹھی بھر
ہے
تشریح!
کتنی عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ساری زندگی اپنی خواہشات کی تکمیل کے
لیے سامان دنیا اپنے گرد اکٹھا کیا، ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کے نام بھی
فراموش کردیئے۔ جہاں تک دولت کے انبار جمع کرنے سے عزت و توقیر کے حصول کا
تعلق ہے، یہ ایک خود فریبی ہے۔ ایسی خود فریبی جس سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں
کر سکتا ۔ فراعین مصر کے محلات ، قارون کے خزانے ہمں بتا رہے ہیں کہ دولت نے کبھی
کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ آج ترقی یافتہ اقوام اس لیے عذاب میں مبتلا ہیں
کہ ترقی کے پیچھے ان کے محدود مفادات ہیں۔ ہر ترقی مال و زر جمع کرنے کا ذریعہ ہے۔
یہ وہ قوم ہے جس نے ذاتی منفعت کے لیے خوبصورت دنیا کو بد ہیئت بنا
دیا ہے۔ جگ مگ کرتے ستاروں کی سہانی راتوں کو دھندلادیا۔ پرخمار اور سحر
انگیز نسیم صبح میں ایٹمی ایندھن کا زہر گھول دیا ہے۔ یہ وہ عروج یافتہ قوم ہے جسن
نے پھولو ں کی مسکراہٹ چھین لی۔ اب پرندوں کی روح پرور چہچہاہٹ ایک نغمہ ٔ
دل سوز بن کر رہ گئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو عدم تحفظ کے عمیق
غار میں دھکیل دیا ہے۔ عدم تحفظ کی حالت میں سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے
چاندنی کا حسن اور دھوپ کی خوب صورتی ماند پڑ گئی ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ ایٹمی
تجربات ، ڈیزل و پڑرول کے بخارات اور جیٹ طیاروں کے آتشی فضلات نے فضا کو کچھ اس
طرح زہر آلود کر دیا ہے کہ انسان کے اندر جانے والا ہر سانس زہرناک بن گیا ہے۔
اور اس زہرناکی نے انسان کو زیر و زبر کر دیا ہے۔ اعصاب ٹوٹ گئے ہیں، ذہن
بکھر گیا ہے۔ دل ہے کہ ہر لمحہ ڈوب جانے کو بضد ہے۔ ترقی کے پر فریب پردوں میں
سسکتی ہوئی، تڑپتی اور روتی ہوئی قوم نے عافیت اس میں سمجھی کہ عدم تحفظ کے خوف
ناک عفریت سے فرار اختیار کیا جائے ، لیکن اس سے فرار میں بھی انہیں لالچی اور خود
غرض جینیس ذہن نے شکار کی طرح دبوچ لیا اور اس عہد کے ترقی یافتہ انسان نے عدم
تحفظ کے احساس سے فرار حاصل کرنے کے لیے ہیرون، ایل ایس ڈی، راکٹ، چرس ،
مینڈرکس جیسی چیزیں ایجاد کرلیں اور عام آدمی ایک الجھن سے نکلنے کے لیے دوسری
ہزاروں الجھنوں میں مبتلا ہو گیا۔ جب کہ مسلمان اس لیے ذلیل و خوار ہے کہ ان کا
بھی کوئی عمل کاروباری تقاضوں سے باہر نہیں ہے۔ ان کے نزدیک پستی سے مراد
صرف یہ ہے کہ آدمی نماز روزے سے غافل رہے اور عروج یہ ہے کہ آدم زاد ثواب کی
گٹھریاں باندھتا رہے۔باوجود یہ کہ اربوں ، کھربوں، سینکڑوں نیکیوں کے انبار ان
کے پاس موجود ہیں ، لیکن وہ روشنی میسر نہیں ہے جو روشنی مسرت و شادمانی بن
کر لہر کی طرح خون میں دوڑتی ہے، جس بندہ کے پاس نیکیوں کا جتنا دبڑا ذخیرہ موجود
ہوتا ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ وہی سکون سے اتنا ہی دور ہے، ایک خشکی ہے جو
آکاس بیل کی طرح اس کے وجود کو چمٹ گئی ہے۔ قنوطیت ہے کہ جس نے ہشت پا کی طرح
انہیں دبوچ رکھا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ بندہ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ، اپنی
پوری صلاحیتوں کے ساتھ اور اپنی دانائی کے ساتھ فتنوں سے قریب ہونا اپنے لیے
سعادت سمجھتا ہے۔ یاد رکھیے کہ ! ہر وہ چیز جو عارضی ہے حقیقت
نہیں ہوتی اور جو چیز حقیقی نہیں ہے وہ حق سے قربت حاصل نہیں کرسکتی ۔
تاریخ کے موضوعات۔
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں تاریخ کے
موضوعات بھی ہیں ۔ ایک رباعی میں فرعون کا ذکر یوں ہے:
اہرام فراعین کا مدفن ہیں آج سیاحوں سے تحسین کا لیتے ہیں خراج
رفتار ِ زمین کی ٹھوکریں کھاکھا کر مل جائے گا کل تک ان کا مٹی
میں مزاج
تشریح!
نوع انسانی کی بڑی اکثریت شداد ، نمرود اور فراعین کی تاریخ سے واقف ہے۔ سوچنا
یہ ہے کہ شداد کی جنت اور نمرود کی ایجادات کہاں ہیں؟ فراعین مصر کے
اہرام تو ابھی تک نوحہ کناں ہیں کہ ہمارے خداؤں کی میوزیم میں جگہ جگہ ٹکٹ لگا کر
تذلیل کی جارہی ہے۔ بادشاہ نہیں ہوئے بندر کا تماشہ بن گئے۔سکندر و دارا ، شداد و
نمرود ، فراعین اور بڑے بڑے بادشاہ جن کی ہیبت وبربریت کا یہ عالم تھا کہ لوگ ان
کے نام سے لرز جاتے تھے، وہ جو بڑی بڑی ریاستوں اور دمملکتوں کے تاج دار تھے، عوام
سے خراج وصول کرتے تھے ، خود کو آقا اور اللہ کی مخلوق کو غلام سمجھتے تھے،
معلوم نہیں کہ وہ خود اور ان کے تاج کہاں ہیں۔۔۔۔۔؟ ان کو اور ان کی افواج کو جو
آندھی طوفان بن کر دنیا کے لیے مصیبت بن گئی تھی مٹی نے نگل لیا ۔یہ بڑے
بڑے محلات اور کھنڈرات جو آج اپنی بے بضاعتی پر آنسو بہا رہے ہیں بالآخر ان کا
نام ونشان بھی صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔
تاریخ کے اسی موضوع کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
ترجمہ: تو آج ہم تیرے بدن کو نکالیں گے تاکہ تو بعد کے
لوگوں کے لیے عبرت ہو۔
تہذیبی موضوعات۔
انسانی تہذیب نے پتھر کے زمانہ سے آج تک جو انداز اپنایا
ہے۔ اسے یوں لکھاہے۔
پتھر کا زمانہ بھی ہے پتھر میں اسیر پتھر میں ہے اس دور کی زندہ تصویر
پتھر کے زمانے میں جو انساں تھا عظیمؔ وہ بھی تھا ہماری ہی
طرح کا دل گیر
انسانی تاریخ کے تمام ادوار بشمول ماضی اور
مستقبل لوح محفوظ پر نقش ہیں۔ کائنات کا ہر ذرہ اسی نقش کی تفصیلی تصویر ہے۔
ہر ذرے کے وجود کی گہرائی میں اس نقش کا سراغ ملتا ہے۔ اسی طرح پتھر کے
زمانے کی ساری فلم موجود ہے۔ یہ فلم پتھر کے اندر جھانکنے سے نظر آتی ہے۔ اسی
ریکارڈ یا فلم کا مشاہدہ کرکے روحانی آدمی ماضی اور مستقبل کے تمام واقعات سے
مطلع ہوجاتا ہے۔ایک جگہ یوں لکھتے ہیں کہ:
جوشاہ کئی ملک سے لیتے تھے خراج معلوم نہیں کہاں ہیں اُن کے سَروتاج
البتہ یہ افواہ ہے عالم میں عظیم اب تک ہیں غبارِ زَرداُن کی افواج
سکندر و دارا ، شداد و نمرود ، فراعین اور
بڑے بڑے بادشاہ جن کی ہیبت وبربریت کا یہ عالم تھا کہ لوگ ان کے نام سے لرز جاتے
تھے، وہ جو بڑی بڑی ریاستوں اور دمملکتوں کے تاج دار تھے، عوام سے خراج وصول کرتے
تھے ، خود کو آقا اور اللہ کی مخلوق کو غلام سمجھتے تھے، معلوم نہیں کہ وہ
خود اور ان کے تاج کہاں ہیں۔۔۔۔۔؟ ان کو اور ان کی افواج کو جو آندھی طوفان
بن کر دنیا کے لیے مصیبت بن گئی تھی مٹی نے نگل لیا ۔یہ بڑے بڑے محلات اور کھنڈرات
جو آج اپنی بے بضاعتی پر آنسو بہا رہے ہیں بالآخر ان کا نام ونشان بھی صفحۂ
ہستی سے مٹ جائے گا۔
تلمیحات و اشارات:
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ
کی شاعری میں تاریخی تلمیحات اور اشارات بھی ہیں۔
ایک رباعی میں لکھتے ہیں ۔
ماتھے پہ عیاں تھی روشنی کے محراب رخسار و لب جن کے تھے گوہر نایاب
مٹی نے انہیں بدل دیا مٹی میں کتنے ہوئے دفن آفتاب و
ماہتاب
تشریح! جن لوگوں کی پیشانی روشن تھی اور ماتھے پر
سجدوں کا نشان تھا اور ان کے چہرے چمک دمک سے معمور تھے۔ جب انہیں مٹی میں دفن کیا
گیا تومٹی نے انہیں بھی مٹی ہی بنادیا۔ کیسے کیسے چاند اور سورج اس زمین میں دفن
ہو چکے ہیں۔ ہم ان کا شمار بھی نہیں کرسکتے ۔ چند دنوں کی اس عارضی دنیا میں آدمی
زمین پر کبرونخوت کی تصویر بنا پھرتا ہے۔ بالآخر اسے بھی موت مٹی کے ذروں میں
تبدیل کردے گی اور مٹی کے یہ ذرے پیروں میں روندے جائیں گے۔
اسی طرح اس رباعی میں لکھتے ہیں۔
اہرام فراعین کا مدفن ہیں آج سیاحوں سے تحسین کا لیتے ہیں خراج
رفتار ِ زمین کی ٹھوکریں کھاکھا کر مل جائے گا کل تک ان کا مٹی
میں مزاج
تشریح! سکندر و دارا ، شداد و نمرود ، فراعین اور
بڑے بڑے بادشاہ جن کی ہیبت وبربریت کا یہ عالم تھا کہ لوگ ان کے نام سے لرز جاتے
تھے، وہ جو بڑی بڑی ریاستوں اور دمملکتوں کے تاج دار تھے، عوام سے خراج وصول کرتے
تھے ، خود کو آقا اور اللہ کی مخلوق کو غلام سمجھتے تھے، معلوم نہیں کہ وہ
خود اور ان کے تاج کہاں ہیں۔۔۔۔۔؟ ان کو اور ان کی افواج کو جو آندھی طوفان
بن کر دنیا کے لیے مصیبت بن گئی تھی مٹی نے نگل لیا ۔یہ بڑے بڑے محلات اور کھنڈرات
جو آج اپنی بے بضاعتی پر آنسو بہا رہے ہیں بالآخر ان کا نام ونشان بھی صفحۂ
ہستی سے مٹ جائے گا۔
واقعہ کربلہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اب دیکھنا کیا ہے کربلا کے اندر سب دیکھ لیا جو تھا بقا کے اندر
افلاک سے ہوتی ہیں بلائیں نازل شاید کوئی دنیا ہو فضا کے اندر
تشریح:
اس رباعی میں حضور بابا ؒ نے خیر و شر یا جزا و سزا کی بنیاد پردنیا کو دو
حصوں میں تقسیم کیا ہے، اول کربلا کی دیا یعنی بظاہر فنا ہوکر نقش دوام حاصل کرنے
والی بقا کی دنیا اور دوسری بظاہر باقی نظر آنے والی مگر ہر بلا اور اذیت میں
گرفتا فنا کی دنیا، کربلا اس عظیم الشان امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بقا کا راستہ
ہمت و استقلال کے ساتھ حق و صداقت کی خاطر عدیم المثال قربانی و ایثار کی منزل سے
گزر کر ہی ملتا ہے اور جو قوم یا فرد اس منزل سے نہ گزرے اور کم ہمتی اور انجام کے
خوف کی بنا پر عیش دو روزہ کو نشاط دوام سمجھنے کی فریبی میں مبتلا ہوکر راہ فرار
اختیار اسے بقا کا مقام حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ جو قوم کربلا کی
آزمائش سے جتن دور ہے وہ فنا اور تباہی سے اتینی قریب ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء
ؒ فرماتے ہیں کہ بقا کا راز کربلا کے پس منظر اور مابعد آثار و حوادث پر غور فکر
کرنے ہی سے آشکارہوسکتا ہے، جس نے اس راز کو پالیا اس نے گیویا بقا راستہ تلا ش
کرلیا۔
اب رباعی کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں۔ ارشاد
ہے کہ جو معاشرہ ایثار و قربانی کے جذبے سے عاری ہے اور جسے حیات دوام کے
رنگین خواب نے جکڑ رکھا ہے ، فنا سے ہر لمحہ قریب تر ہوتا جا رہا ہے، ہماری مادی
دنیا میں ہرآن اور ہر ممکن قدرت کو تلپٹ کردیا جائے ، یہی آسمان سے بلاڑین نازل
ہونے اور دنیا کے یک لخت مٹ کر فنا ہوجانے کی علامت بلکہ دعوت ہے، جب تک موجود
ذہنی اور علمی کیفیات باقی رہیں گی یا ان کو بصد اصرار باقی رکھنے کااہتمام
کیا جاتا رہے گا۔
"اس بافراغت اور روشن دنیا" کی فضا
میں بلا اور فنا کی نظر نہ آنے والی تلوار لٹکتی رہے گی۔
"کیا ان لوگو ں نے یہ سمجھ رکھا ہے اکہ
انہیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں آزمائش کی سختیوں سے نہیں گزرنا پڑے
گا۔" (آیات قرآنی کا مفہوم)[1]
مذہب:
مذہب کے ظاہری معاملات بھی ان کی شاعری کاموضوع رہے ہی۔
اسلامی مہینے رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم
نازل فرمایا۔
رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمان ِ دینا پر پورے
قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو اللہ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا
فرمائی۔
رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیں ناذل
ہورہی ہیں۔ مسلمانوں کےلیے یہ ماہ مقدس نیکیوں کی موسلا دھار بارش برساتا ہے اور
ہر مسلامان زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رمضان کا مہینہ باقی
مہینوں کا سردار ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جن کی زندگی میں یہ مہینہ آیا اور وہ
اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں ۔ ایک
رباعی میں رمضان کے حقیقی مقاصد کو بیان کیا ہے۔
ساقی ترے میکدے
میں اتنی بیداد روزوں میں ہوا سارا مہینہ برباد
اس باب میں ہے پیر
مغاں کا ارشاد گربادہ نہ ہاتھ آئے تو آتی ہے باد
تشریح: اے خدا ! تیرے میکدے میں یہ کیسی بیداد ہے کہ
سارے مہینے روزے رکھنے کے بعد بھی ہمیں معرفت کی شراب نہیں ملی جبکہ خود تیرا
فرمان ہے کہ روزے کی جزا میں خود ہوں۔ جب اس مہینے میں بھی تیرا دیدار نصیب نہیں
ہوا تو سارے سال مصیبتوں کی آندھیاں میرا مقدر بن جائیں گی۔
اس
بارے میں ایک رباعی میں لکھتے ہیں:
ساقی ہے شب برات پانے کی رات یہ رات ہے سوتوں کو جگانے کی رات
جو مانگے گا سائل وہ ملے گا بےشک یہ رات تو ہے خاص پلانے کی رات
تقدیر کے بارے میں یوں بیان کیا ہے۔
نوان مشیت کہیں ٹل سکتا ہے تو
لوح کی تحریر بدل سکتا ہے
استاد قلم نے لکھ دیا جو لکھا کیا اسے خلاف بھی
کوئی چل سکتا ہے
تشریح ! رسول اللہ ﷺ کا ارشاد عالی مقام ہے قلم لکھ کر خشک ہوگیا، اللہ تعالی
فرماتے ہیں کہ لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی گئی ہے، اے انسان تو اپی زندگی پر غور
کر اگر تھ سے پوچھا جاتا کہ تجھے کہاں پیدا کیا جائے؟ تو یہی چاہتا کہ تو کسی
بادشاہ کا ولی عہد بنے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ پیدائش کا معاملہ در دست اللہ احکم
الحاکمین کا اپنا فیصلہ ہے، جہاں اللہ چاہتا ہے انسان وہیں پیدا ہوتا ہے، غیرب کے
گھر میں پیدا ہونے والا بچہ اللہ چاہے تو بادشاہ بن جاتا تا ہے، اور بادشاہ کے گھر
میں پیدا ہونے والا بچہ بھکاری بن جاتا ہے، یہ جو ذات برادریاں غرور و تکبر سے
معمور لوگوں نے بنا لی ہیں ۔ اس کا تعلق پیدائش سے نہیں ہے، جب اللہ کی طرف سے کسی
سائل کو وسائل مل جاتے ہیں تو وہ کبر و نخوت کے بڑے بڑے بت زمیں بوس ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے اور ہم نے جو قبیلے
بنائے ہیں وہ اس لیے بنائے ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرو، اور اللہ کے
نزدیک وہی لوگ صاحب عزت ہیں جنہوں نے تقوی اختیار کیا ہے، متقی کی تعریف اللہ
تعالی یہ بیان کرتےہیں کہ متقی لوگ غیب کا مشاہدہ کرتے ہیں، یعنی غیب کو
دیکھتے ہیں ، متقی لوگ وہ ہیں جن کا اللہ سے رابطہ قائم ہوتا ہے، جب وہ رکوع کرتے
ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہم اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں جب وہ سجدہ کرتے ہیں تو
دیکھتے ہیں کہ ہم اللہ احکم الحاکمین کو سجدہ کر رہے ہیں وہ اپنے مال میں سے خرچ
کرتے ہیں ، انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے ہم جو کچھ خرچ کرہے ہیں ،وہ اللہ کا دیا
ہوا اس دنیا میں کوئی شے ہماری ملکیت نہیں ہے، وہ اللہ کی نشانیوں پر غور کرتے ہیں
یقین ان کی راہنمائی کرتا ہے کہ زمین جس پر ہم چلتے ہیں وہ ہماری ملکیت نہیں ہے،
ملکیت اللہ کی ہے ہم خرید و فروخت میں لگے ہوتے ہیں۔جس پانی سے زمین سیراب ہوتی ہے
، اورجو پانی رس دار پھل بن جاتا ہے، اور جو پانی پھول میں مہک بھر دیتا ہے،
اور جوپانی ہماری زندگی میں نشو و نما کا باعث بنتا ہے، اس کی تخلیق میں
ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے، یہ سب ہمارے اوپر اللہ کا انعام ہے، جو اللہ نے ہمیں
مفت فراہم کیا ہے۔
عنوان مشیت یہ ہے کہ جو اللہ
تعالی نے بنا دیا بن گیا ۔ جو اللہ تعالی نے چاہا وہ ہو گیا،
اللہ جس کو چاہے عزت دے، جس کو چاہے ذلت دے، اللہ جس کو چاہے ملک
دے،جس سے چاہے ملک چھین لے، اللہ کے قانون کے نزدیک بڑائی صرف اسے زیب دیتی
ہے جو اللہ کے احکامات کے تحت دئے ہوئے اختیارات کو صحیح طریقے پر استعمال کرتا
ہے، لوح محفوظ میں یہ قانون لکھ دیا گیا ہے کہ عمل خیر کا ایک ذرہ
ضائع نہیں ہوگا، اس کا اجر دیا جائے گا، اور عمل شر کا ایک ذرہ ضائع نہیں ہوگا اس
کی سزا ہے۔ اللہ تعالی نے جو کچھ لکھ دیا ہے اسے کوئی بدل نہیں سکتا، لیکن
اللہ قادر مطلق ہے، وہ اپنے مقرب بندوں کی دعائیں سنتے ہیں ان کی دعاؤں کی قبولیت
کے نتیجے میں اللہ تعالی نے انسان کے لیے بڑی بڑی تبدیلیاں کردیتے ہیں۔
ترکیہ نفس
عربی زبان میں تزکیہ کا لغوی مفہوم یہ ہے کہ کسی شے کو صاف
ستھرا بنا یا جانا۔ اصطلاح میں تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو غلط رجحانات ،
میلانات اور اعمال سے ہٹا کر نیکی اور خدا ترسی کی راہ پر ڈالا جائے۔
اس تعریف کی رو سے تزکیہ نفس کی مہم قدرتی طور پر دو حصوں
مین بٹ جاتی ہے۔
(الف) ۔اپنا محاسبہ کرنا کہ ہم مین کیا کیا برائیاں ہیں اور
پھر انہیں دور کرنے کی کوشش کرنا۔
(ب)۔ اپنا محاسبہ کرنا کہ ہم میں کیا کیا اچھائیاں نہیں ہیں
اور پھر انہیں اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا۔
اب یہ کام مکمل ترک دینا سے تو ہو نہیں سکتا گویا کہ دنای
میں رہتے ہوئے اپنا محاسبہ بھی کرنا اور دنیا کے لیے کوشش بھی کرنا۔
اسی بات کو سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے یوں لکھا ہے۔
اچھی ہے بری ہے دہر فریا د نہ کر جو کچھ کہ گزر گیا ہے اسے یاد نہ کر
دو چار نفس عمر ملی ہے تجھ کو دوچار نفس عمر کو برباد
نہ کر
تشریح! دنیاوی
زندگی ایک مختصر عرصہ قیام ہے، جس کے دوران انسان دو طرفہ جد وجہد کرنی ہے، ایک
طرف تو اسے دنیاوی معاش کے لیے ہاتھ پیر ہلانے ہیں ، دوسری طرف عمل ہی کے
ذریعے اللہ تعالی سے اپنے ربط کی تجدید کرنی ہے، عملا اس بات کا یقین حاصل
کرنا ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، اس کے علاوہ ہر حال میں شکر گزار بندہ بننے
کی عادت ڈالنی ہے، جب کہ دنیا وی عوامل ہر طرح سے اس کا ذہن اس طرف سے
ہٹانے میں لگے ہوئےہیں ، اس صورت حال میں اگر وہ چوک گیا اور ماضی کی حسرتوں کے
نوحے میں مصروف ہوگیا اور تمناؤں کی بھول بھلیوں میں کھو کر رہ گیا تو مارا جائے
گا اور اس کی چار نفس کی زندگی رائگاں چلی جائے گی۔
حضرت
عمرؓ سے ایک مرتبہ دریافت کی گیا کہ تزکیہ کیا ہے؟
آپ ؓ نے کہا کہ کبھی تم کسی ایسی پگڈنڈی سے گزرے ہو جہاں
راستہ ہو چھوٹا سا چوڑا اور دائیں بائیں خاردار جھاڑیاں ہوں۔ آپؓ نے پوچھا کہ
تمہیں اس راستے پہ چلنا ہو تو ان کانٹوں سے بچنے کے لیے کیا کرتےہو؟ اس نے کہا کہ
لباس کو ہم کبھی ادھر سے سمیٹتے ہیں اور کبھی ادھر سے سمیٹتے ہیں ۔ ان کانٹوں سے
بچتے ہوئےاس راستے کو طے کرتے ہیں۔ آپؓ نے کہاکہ جو اس طرح راستے کی خار دار
جھاڑیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتاہوا سفر کرے اُسے متقی کہا جاتا ہے۔
فطرت پسندی
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے ایک صاحب جمال شخصیت ہیں اسی
طرح ان کی شاعری بھی فنی اور فکری دونوں پہلوؤں میں پُر جمال ہے۔ان کا شعری جمال
ابھی تک رباعی کی صورت میں سامنےآیاہے۔ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی رباعیات
مجموعی طور پر مظاہر فطرت کے ساتھ جمالیاتی رابطے کا اظہار ہیں اوراس جمالیاتی
رابطے کے اظہارمیں بھی ان کی جلالی کیفیات سے زیادہ جمالی کیفیات کو مو ضوع بنایا
گیا ہے۔مگر اس میں بھی وہ حقیقت پسندی پر قائم رہتے ہیں۔مظاہر فطرت کے ساتھ اپنی
تمام تر دل بستگی کے باوجود وہ انسانیت کی بقا اور ارتقا کے معاملات سے بے پروا
نہیں ہوئے بل کہ یہی بقا اور ارتقا ان کا مرکزی مسئلہ ہے۔
مظاہر فطرت سے متعلق ان کی ، رباعیات تین طرح کی ہیں۔ ان میں
ایک تو وہ رباعیات ہیں جن میں تقریباً ساری تمثالیں مظاہر فطرت کی ہیں اور یہ لگتا
ہے کہ یہ مظاہر فطرت ہی ان کا اصل موضوع ہیں اور ان میں ان تمثالوں کی حیثیت
علامتی و استعاراتی ہے۔
جن کے ذریعے انفرادی یا اجتماعی انسانی احوال و اقدار کی ترجمانی
ہوئی ہے۔
جیسا کہ رباعی جس میں تمثالیں مکمل طور پر مظاہر فطرت سے لی
گئی ہیں۔
ہر ذرہ ہے اک خاص نمو کا پابند سبزہ و صنوبر ہو کہ ہوسروبلند
انسان کی مٹی کے ہر اک ذرہ سے جب ملتا ہے موقع تو نکلتے ہیں
پرند
تشریح! یہ سبزہ زار، ہری ہری گھاس، صنوبر
کا درخت ہو، کہ سرو بلند، سب کی پیدائش سب کی نمو مٹی سے قائم ہے اے انسان!
کبھی تو نے سوچا ہے کہ مٹی کے کون سے ذرات ہیں جن سے یہ سردوسمن، کوہ
دمن، چرند پرند نشوونما پا رہے ہیں۔ انسان کو جب مٹی میں دفن کیا جاتا
ہے تو وہ مٹی کے ذرات میں تبدیل ہوجاتا ہے اور احسن تقویم کے ذرات سے کبھی درخت اگ
آتے ہیں۔کبھی یہ ذرات ہری بھری گھاس میں ظاہر ہو جاتے ہیں اور کبھی ان ذرات کے
یکجا ہونے سے پرندے تشکیل پاتے ہیں اور اس جیتی جاگتی دنیا میں اڑان شروع کر
دیتے ہیں۔
یہ
کیسی حرماں نصیبی ہے کہ انسان کی مٹی کے ذرات سے تشکیل پانے والے پرندے تو فضاؤں میں
اڑتے ہیں اور انسان بے بسی سے انہیں دیکھتا ہے اور دو گز بھی زمین سے اوپر نہیں
اڑسکتا۔
دوسری رباعیات وہ ہیں جن میںفطرت کے کسی ایک مظہر یا ایک سے
زیادہ مظاہر ہی کو اصل موضوع بنایا گیا ہےاور انہی کی کسی کیفیت یا اہمیت کو اجاگر
کرنا مقصود ہے۔ جیسا کہ رباعی:
جب تک
کہ ہے چاندنی میں ٹھنڈک کی لکیر جب تک کہ لکیر میں ہے خم کی تصویر
جب تک کہ شبِ مہ
کا ورق ہے روشن ساقی نے کیا ہے مجھے ساغر میں اسیر
فن حسی تمثالوں میں جمالیاتی قدر کی تخلیق ہے شاعری فن کا
وہ شعبہ ہے جس کی تخصیص الفاظ کے ذریعے غنائی حسی تمثالوں میں جمالیاتی قدر کی
تخلیق ہے۔ لہذا کسی شاعر کی شاعری کے مطالعے میں یہ غنائی حسی تمثالیں بنیادی
حیثیت رکھتی ہیں اور ان تمثالوں کا متعدد حوالوں سے جائزہ لیا جاتاہے۔
اسی طرح اسی رباعی کا دوبارہ جائزہ لیتے ہوئے اس رباعی کی
دوبارہ تشریح میں خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب لکھتے ہیں کہ:
"چاند کی چاندنی ، دنیا کی جگ مگ کرتی رونق ہے۔ ازل
میں پُر رونق اور گہماگہمی کا جو پروگرام بن گیا ہے دنیا اس پروگرام کے مطابق چل
رہی ہے اس رونق میں کشش اور خمار بھی ہے۔ کشش اور خمار اپنی پوری چمک دمک اور
تابانی کے ساتھ موجود ہے اور آدم ذاد چمک دمک کے اس عارضی خول میں قید ہے۔ آدمی جس
کو زندگی کہتا ہے یہ دراصل اس کے اپنے مفروضہ حواس کی ایک جیل ہے۔ اس جیل سے نکلنے
اور آزاد ہونے کا ایک ہی راستہ ہے کہ آدم زاد یہ سمجھ لے کہ یہ دنیا ایک بڑا قید
خانہ ہےجیسے ہی یہ راز کھل جاتا ہے کہ دنیا قید خانہ ہے وہ سزا کی صعوبتوں سے
محفوظ ہو جاتا ہے اور وہ چکا چوند سے ماورا حقیقی دنیا کا عرفان حاصل کر لیتا ہے۔
تیسری رباعیات وہ
ہیں جن میں مظاہر فطرت کی تمثالیں اپنی نوعی حیثِت برقراررکھتے ہوئے انسانی احوال
و اقدار کے ساتھ کسی نہ کسی تعلق سے آئی ہیں۔یہ تعلق پس منطر کا بھی ہے، اشتراک کا
بھی۔دوسری قسم کی رباعیات کے مقابلے میں تیسری قسم کی رباعیات کی تعداد زیادہ ہے۔
مثال کے طور پر یہ رباعی پیش ہے۔
مٹی سے گلاب و یاسمین بنتے ہیں انسان بھی اسی مٹی سے بالیقیں بنتے ہیں
مٹی تو ہے یہ مگر اسی مٹی سے کتنے رخ و زلف نازنین
بنتے ہیں
تشریح ! زمین کے اوپر
بظاہر ہر چیز مٹی تخلیق ہورہی ہے، گلاب و یاسمین بھی مٹی سے نکل رہے ہیں، اور
انسان بھی پیدا ہورہے ہیں۔ سینکڑوں حسیناؤں کے دل فریب پیکر بھی اسی مٹی سے ڈھالے
جارہے ہیں، لیکن تخلیق کی اصل طرز وہ ہے جو مٹی کی گہرائی میں کار فرما ہے اور مٹی
کو مختلف سانچوں میں ڈھال رہی ہے، اور مٹی کو نسمہ (روح) سے وابستہ کر رہی ہے، اور
تخلیق کی یہ طرز خدا کی بنائی ہوئی مشیت کے تحت کام کررہی ہے، یہ تخلیقی روشنی ہے
جسے تصوف میں یک رنگ روشنی اور قران میں ماء (پانی) کہتے ہیں۔ یہ دراصل وہ چیز ہے
جو مٹی کے پیکر میں جان ڈال رہی ہے، اور مردہ زمین کو "سیراب" کررہی ہے،
ایک عارف جب ان چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے تو خدا کی قدرت کا برملا اعتراف کرتا ہے
کہ خدا نے ایک ہی مٹی سے کتنی رنگا رنگ چیزیں پیدا کرکے دنیا میں پھیلا دی ہیں۔
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ انسانیت کے
ساتھ فطرت کے بھی شاعر ہیں۔ اردو میں فطرت کی شاعری کا جدید رجحان نیچرلزم کے زیر
اثر شروع ہوا اورپھر رومانیت کے ہم راہ پھیلا۔ اس کا یہ پھیلاؤ قیام پاکستان تک
جاری رہا اور اس کے بعد رفتہ رفتہ سکڑتا چلا گیا ۔ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ ہمارے
ان شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی دل بستگی کے ساتھ ان رجحانات کا تسلسل بحال
رکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ
کی شاعری میں مظاہر فطرت کی مثالیں علامتی و استعااراتی نوعیت کے علاوہ یا تو نوعی
حیثیت سے یا پھر انسانی احوال و اقدار کے ساتھ کسی نہ کسی تعلق سے آتی ہیں اور
انہوں نے اپنے صوفیانہ مزاج کے باوجود بالعموم انہیں کسی صوفیا نہ تصور کا ترجمان
نہیں بنایا۔
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔