Topics

بچپن

 

سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ  نےابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب میں حاصل کی۔ کہتے ہیں کہ ہونہار پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں۔ چنانچہ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے انتہائی ذہین، باادب، خلیق اور ملنسار تھے اور اچھے برے کی تمیز رکھتے تھے۔ پڑھتے وقت نہایت توجہ سے پڑھتے اور ساتھیوں کے ساتھ محبت اور سلوک سے پیش آتے تھے۔ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم خورجہ میں حاصل کرنے کے بعد ہائی اسکول تک بلند شہر میں پڑھا اور پھر انٹر(Inter) میں داخلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیا۔[1]

بچپن کی دوستی کے بارے میں سید نثار علی بخاری کا یہ بیان اہم ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا رجحان بچپن سے ہی ترک دنیا کی طرف نہیں تھا۔

"قصبہ خورجہ  میں راقم الحروف(سید نثار علی بخاری)کے ننھیال کے تین مکانات تھے -ان میں سے  دو مکانوں میں قلندر بابا اولیاءوالد ماجد سکونت پذیر تھے ااور ایک مکان میں میرے ماموں زاد بھائی سید عباس علی سبزواری معہ متعلقین رہتے تھے۔۔۔بچپن میں جب اپنے ماموں زاد بھائیوں کے یہاں خورجہ جایا کرتا تھا تو ان تینوں مکانوں کے چبوترہ پر میں اور قلندر بابا اولیا بابا  ساتھ کھیلتے اور باتیں کیا کرتے تھے۔"[2]

 - ایک مکان میں اہل خانہ رہتے تھے اور دوسرے کو وہ دفتر کے طور پر استعمال کرتے تھے - مکان کے سامنے مسجد میں بھائی صاحب موصوف قرآن شریف پڑھا کرتے تھے - جب میں خورجہ جاتا تو قیام کے دوران میں بھی ان کے ساتھ مسجد چلا جاتا تھا - ان تینوں مکانات کے آگے ایک چبوترہ تھا - اس پر ہم بیٹھتے بھی تھے اور کبھی کوئی کھیل بھی کھیل لیتے تھے - یہ تقریباً پچھتر برس پہلے کی بات ہے – 

بچپن کی عادات اور اخلاق انسان کی تمام زندگی پر نقش ہوجاتے ہیں۔ ان ہی سے انسان کی شخصیت بنتی ہے۔ اس بارے میں سید نثار علی بخاری بتاتے ہیں کہ:

" قلندر بابا اولیاؒء بچپن سے کوئی غیر مہذب کھیل عام لڑکوں کے ساتھ کھیلنے اور ان سے بے تکلف ہونے سے اجتناب کرتے تھے قلندر بابا فطرتا ذہین ، خوش اخلاق ، مہذب اور ملنسار تھے اور اچھے برے کی تمیز رکھتے تھے ...  اپنے احباب کے ساتھ اخلاق و محبت سے پیش آتے اور حسب استطاعت خاطر مدارات کرنے  میں کوئی  فروگزاشت نہ کرتے تھے - پڑھنے کے وقت انہماک سے پڑھتے تھے اور   کھیل کے وقت لڑکوں کا کھیل دیکھتے رہتے لیکن ان کے ساتھ کھیل میں شریک نہیں ہوتے ... اوائل عمر ہی سے آپ کی طبیعت میں سادگی متانت اور ہمدردی تھی .. کسی کی پریشانی اورتکلیف  کو محسوس کرتے اس کی دلجوئی کرتے اور حتی المقدور ان کے کام آتے ... آپ اپنے ہم عمر ساتھیوں سے آپ جناب سے گفتگو کرتے --  یہ تمام اوصاف آپ کی ذات میں بچپن سے قدرت نے ودیعت کئے تھے جن کی وجہ سے آپ کے ہم سن آپ کا ادب و احترام کرتے تھے –

یوں دیکھا جائے تو بچپن سے ہی قلندر بابا اولیا کی شخصیت ان اعلیٰ ترین خوبیوں کی مجموعہ نظر آتی ہے جس کے نقش آیندہ زندگی پر بھی موجود رہے۔

"خوش اخلاقی، ہمدردی ، ملنساری، مدد،آداب گفت گوپر مہارت، تہذیب، ذہانت، سادگی،احترام انسانیت اور پرخلوص دوستی"[3]

 

 




[1] کتابچہ رحوانی تربیتی ورکشاپ، قلندر شعور فاونڈیشن کراچی، ۲۰۰۱ ص۶

[2] سید نثار علی بخاری ، کلام عارف، (مرتبہ پروفیسر عظیمی ایف اے شیخ) کراچی ، بند نداد ص: ۱۸۸،۱۸۷

[3]سید نثار علی بخاری ، کلام عارف، (مرتبہ پروفیسر عظیمی ایف اے شیخ) کراچی ، بند نداد ص: ۱۸۹،۱۸۸

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔