Topics

تعبیر عظیم رحمۃ اللہ علیہ


  خواب ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے کشف و الہام کی ابتداء ہوتی ہے - حقائق اور غیب کا انکشاف خواب کی صلاحیت کے ذریعے واقع ہوتا ہے - حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ الله علیہ نے خواب کی تعبیر کے ذریعے جن رموز سے پردہ اٹھایا ہے سہیل احمد صاحب کی اس تحریر کے ذریعے قارئین کی نذر ہے -زمانہ قدیم سے انسان کے لئے خواب دیکھنا ایک معمہ بنا ہوا ہے - وہ سو جاتا ہے اور مادی دنیا سے اس کے حواس بے خبر ہوجاتے ہیں لیکن وہ پھر بھی خود کو اسی طرح چلتا پھرتا ، باتیں کرتا اور وہ سارے کام کرتے دیکھتا ہے جو وہ بیداری میں جسم کے ساتھ کرتا ہے -طرح طرح کے مناظر اسے خواب میں دکھائی دیتے ہیں - عام طور پر انسان یہ کہہ کر خواب کو رد کردیتا ہے کہ یہ تو محض میرے خیالات اور وہ باتیں ہیں جن سے میں بیداری میں گزرتا ہوں اور جو حافظے میں محفوظ ہوجاتی ہیں - یہی باتیں سوتے میں بھی یاد آتی رہتی ہیں ...

لیکن انسان بہت سے خواب ایسے دیکھتا ہے جن کا تاثر بہت گہرا ہوتا ہے اور اس کے اندر قدرتی طور پر یہ تجسس بیدار ہوجاتا ہے کہ آخر ان تمام باتوں کا کیا مطلب ہے ؟ یا پھر وہ کوئی نہ کوئی ایسا خواب دیکھتا ہے جو کچھ عرصے بعد بیداری میں من و عن پورا ہوجاتا ہے - اس موقع پر وہ چونکتا ہے اور اس کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ خواب کی دنیا محض خیالات نہیں ہیں بلکہ اس کے اندر اسرار پنہاں ہیں - 

حدیث نبوی صلّ الله علیہ وسلّم ہے کہ ..." انبیاء کا ورثہ علم ہے "

 انبیاء کرام کو علم لدنی حاصل ہوتا ہے - الله تعالیٰ انہیں خصوصی علوم عطا فرماتے ہیں - ان علوم میں سے ایک علم خواب کی تعبیر سے متعلق ہے -

 حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ:" خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے - "

امام سلسلہ عظیمیہ حضرت محمّد عظیم برخیا قلندر بابا اولیاء رحمتہ الله علیہ نے اس حدیث کی تشریح میں فرمایا کہ انبیاء کرام نے علوم لدنیہ کی تدوین فرمائی تو اس کے ابواب قائم کئے ...

خواب اور خواب کی تعبیر کا علم ان علوم کا چھیالیسواں باب ہے - علم لدنی کے اس باب میں یہ بات تعلیم کی جاتی ہے کہ خواب کیا ہے اور انسان خواب میں کن واردات و کیفیات سے گزرتا ہے - نیز خواب کی صلاحیتوں اور قوتوں کا استعمال اسی باب کا حصہ ہے -علم روحانیت کی مطابق خواب ایک ایسی ایجنسی ہے جس کے ذریعے کشف و الہام کی ابتدا ہوتی ہے - حقائق کا کشف اور غیب کا انکشاف خواب کی صلاحیت کے ذریعے واقع ہوتا ہے - قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے میں اس بات کی طرف واضح اشارہ موجود ہے -

نبی کریم صلی الله علیہ وآ له وسلّم کی زندگی میں بھی بہت سے واقعات خواب کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں - آپؐ کا معمول تھا کہ نماز فجر کے بعد صحابہ کرام سے ان کے خواب پوچھتے اور ان کی تعبیر عنایت فرماتے تھے –

انبیاء کرام علیہ السلام کے وارث اولیاء الله کو خواب کا علم انبیاء سے منتقل ہوتا ہے حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ الله علیہ کو الله تعالیٰ نے آپؒ کو نظامت کے فریضہ اور تکوین کی خدمت سپرد فرمائی اور آپؒ کے وجود با مسعود کو لوگوں کی روحانی تشنگی دور کرنے کا ذریعہ بنایا -قلندر بابا اولیاؒء کی خدمت میں جو افراد حاضر رہے ہیں وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ آپؒ کی شخصیت خود ایک کرامت تھی - آپؒ کا ذہن قدرت کے فارمولوں میں گم تھا - آپؒ مختصر گفتگو کرتے لیکن جو بات بیان فرماتے اس میں الہام کا رنگ صاف جھلکتا تھا ، اس لئے کہ آپؒ نے کشف و الہام اور معرفت کی ان گنت منازل طے کی تھیں - آپ حامل علم لدنی تھے -الله تعالیٰ نے آپؒ کے قلب کو علوم لدنیہ کا گنجینہ بنا دیا تھا - آپؒ اس کا اظہار پسند نہیں فرماتے تھے لیکن کبھی کبھی ایسے حالات الله تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوجاتے تھے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپؒ ان علوم کا اظہار فرمادیتے تھے –

حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا کہ ...

" خواب دیکھنا عالم رویاء کا ایک عکس ہے یا عالم رویاء کا ایک حصہ ہے - عالم رویاء پوری کائنات کا تحت الشعور ہے - عالم رویاء میں انسان کی انا جسم کے بغیر سفر کرتی ہے - انبیاءؑ اور اولیاءؒ کو الله تعالیٰ کی طرف سے عالم رویاء میں سفر کرنے کی خصوصی صلاحیت اور قوت عطا ہوتی ہے ...اسی علم کے ذریعے یہ حضرات پوری کائنات میں سفر کرتے ہیں اور مرنے سے پہلے اور بعد کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں - روح کے علوم رویاء کی صلاحیت کی ذریعے اولیاء الله کے قلوب پر نازل ہوتے ہیں - "                 

سن ساٹھ کی دہائی کے آخر میں آپ کے خانوادہ خواجہ شمس الدین عظیمی نے خواہش ظاہر فرمائی کہ اخبار میں کالم کے ذریعے لوگوں کو علم روحانیت کا پیغام پہنچایا جائے چنانچہ روحانی مضامین اور لوگوں کے مسائل کے حل پیش کرکے اس کی ابتداء کی گئی -اسی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے خواب اور ان کی تعبیر بھی انہی کالموں میں شائع کرکے روحانی علم کا فیض عام کیا گیا - اس وقت یہ علم حقیقی معنوں میں عوامی سطح پر سامنے آیا اور ایک ایسا ذریعہ پیدا ہوا جس سے ہر شخص فائدہ اٹھا سکے ...چنانچہ روزنامہ جنگ ، جسارت ، حریت اور مشرق کے ذریعے ہزاروں لوگوں کے خواب اور ان کی تعبیر پیش کی گئی - شروع شروع میں خود حضور قلندر بابا اولیاؒء نے ازراہ رہنمائی خواب کی تعبیر لکھوائی ...بعد ازاں یہ علم جناب خواجہ شمس الدین عظیمی کو ودیعت فرما کر یہ کام ان کے سپرد کردیا چنانچہ مذکورہ بالا اخبارات کے علاوہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں ایک عرصے تک لوگوں کے خواب اور ان کی تعبیریں شائع ہوتی رہیں -

قلندر بابا اولیاؒء نے خواب کی تعبیروں کو جس خوبصورت ، بلیغ اور واضح انداز میں لکھوایا یہ ان کا خاصہ تھا - آپؒ نے خواب کی تعبیروں کے ذریعے جس طرح لوگوں کے مسائل اور ان کے حل ، لوگوں کے مستقبل کا انکشاف ، امراض کی نشاندہی اور علاج کے لئے مشورے عنایت فرمائے وہ علم روحانیت کی تاریخ کا ایک نادر و منفرد باب ہے –

ہر انسان عالم رویاء سے تعلق رکھتا ہے لیکن وہ اس تعلق کو ایک علم کی صورت میں نہیں سمجھ سکتا - علم لدنی کے حامل افراد اس تعلق کے فارمولوں کا مشاہدہ کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور کسی شخص کو عالم رویاء سے کیا اطلاعات ملتی ہیں اس کا ٹھیک ٹھیک ادراک و شہود ایسے بندوں کو حاصل ہوتا ہے۔وہ خواب کی تعبیر کی صورت میں ان اطلاعات کی وضاحت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کسی شخص کو خواب کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں - حضور قلندر بابا اولیاؒء بھی تعبیر خواب پر خصوصی دسترس رکھتے تھے-تعبیر خواب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جب کبھی کوئی قاری تعبیر خواب کی علمی جزئیات کو سمجھنا چاہتا تو حضور قلندر بابا اولیاؒء خواب اور تعبیر خواب کے بارے میں بہت سی باتیں اختصار سے بیان کردیتے تھے -    

خواب یا عالم رویاء کے بارے میں  قلندر بابا اولیاؒء ارشاد فرماتے ہیں ...

۔۔"نوع انسانی آفرینش سے آج تک بیداری اور خواب کے مظاہر کو الگ الگ کرنے کے لئے امتیازی خط نہیں کھینچ سکی - ذرا خواب کی علمی توجیہہ پر غور کیجیئے .... خیال ، تصور ، احساس اور تفکر ذہن کے نقوش ہیں ..یہی وہ نقوش ہیں جو اندرونی دنیا کہلاتے ہیں - ان ہی نقوش کی روشنی میں بیرونی دنیا کو پہچانا جاتا ہے - اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ اندرونی اور بیرونی دنیا کے نقوش مل کر ایک ایسی دنیا بنتے ہیں جس کو ہم واقعاتی دنیا سمجھتے ہیں ...

انسان عالم خواب میں چلتا پھرتا ، کھاتا پیتا ہے - من و عن انہی کیفیات سے گزرتا ہے جن سے عالم بیداری میں گزرتا ہے - وہ جس چیز کو جسم کہتا ہے اس کی حرکت عالم خواب اور عالم بیداری دونوں میں مشترک ہے - عالم بیداری میں بار بار واپس آنے کا سراغ انسانی حافظے سے ملتا ہے لیکن انسانی حافظہ خود دور ابتلاء سے گزرتا رہتا ہے - یہ کبھی کمزور ہوجاتا ہے کبھی معمول پر آجاتا ہے ...

حافظے کا ذرا سا تجزیہ کیجئے تو پس پردہ ایک ایجنسی ایسی ملے گی جو دیدہ و دانستہ حافظہ کی روئیداد میں فقط اس لئے کمی بیشی  کرتی رہتی ہے کہ انسانی کردار کو نمایاں اور غیر معمولی بنا کر پیش کر سکے - یہیں سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ عالم بیداری سے متعلق انسانی حافظے کا بیان مستند نہیں ہوسکتا ...

 یہ صحیح ہے کہ انسانی حافظہ عالم خواب کی روئیداد بہت ہی کم محفوظ کرتا ہے تا ہم حافظے کے اس طرز عمل سے عالم بیداری کی روئداد کو امتیاز حاصل نہیں ہوتا - حافظہ تنہا کبھی کام نہیں کرتا - اس کے ساتھ تراش خراش کرنے والی ایجنسی ضرور لگی رہتی ہے اور حافظے کی دلچسپی اس ہی روئداد سے وابستہ رہتی ہے جس میں تراش خراش کرنے والی ایجنسی کی کارپردازی زیادہ ہو ...شاذ ہی ہوتا ہے کہ حافظہ عالم خواب کا تذکرہ کرے - وجہ ظاہر ہے کہ تراش خراش کرنے والی ایجنسی کی دلچسپی عالم خواب میں نہ ہونے کے برابر ہے - ایسا نہ ہوتا تو انسانی حافظہ عالم خواب کو رد کرنے کا عادی نہ ہوتا - اب سنجیدگی کا فتویٰ بجز اس کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ عالم خواب زیادہ مستند ہے ...

اس کا تجزیہ حافظے کے اسلوب کار کو سمجھنے سے بآسانی ہوجاتا ہے - حافظہ چند باتوں کو رد کرتا ہے اور چند باتوں کو دہراتا ہے - رد کی ہوئی باتیں بھول کے خانے میں جا پڑتی ہیں اور شعور ان سے بے خبر رہتا ہے - روزمرہ کی مثال ہمارے سامنے ہے - ہم اخبار پڑھتے ہیں ، چند باتیں یاد رکھتے ہیں اور باقی بھول جاتے ہیں ...

 انسان کی آفرینش ہی سے حافظے کا یہ طرز عمل اس کے اطوار میں داخل رہا ہے - اسی لئے عالم خواب کی علمی تشکیل اور توجیہہ فکر انسانی نے اب تک نہیں کی ہے - کشف و الہام عالم خواب ہی سے شروع ہوتے ہیں۔

 خواب روح کی زبان ہے۔۔۔

حضور بابا صاحبؒ کا اعجاز تھا کہ وہ خواب کی تعبیر کے ساتھ ساتھ جہاں ضرورت ہوتی خواب کے علم کی جزئیات اور اس کی تشریحات بھی بیان فرما دیتے تھے - ان تشریحات و توجیہات سے علم تعبیر خواب کی وہ عظمت و وسعت سامنے آئی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ایک ایسا ہی خواب اور اس کی تعبیر ہم درج کرتے ہیں جس میں قلندر باباؒ نے اس بات کیاجمالاً  وضاحت فرمائی ہے کہ شعور انسان کو خواب میں اطلاعات کیوں موصول ہوتی ہیں۔

بہتر اور کام یاب زندگی کی بشارت

 کراچی سے رفعت جہاں صاحبہ نے اپنا خواب یوں لکھا ...

میں نے دیکھا کہ میں چار پانچ سال کی بچی ہوں اور اپنے اسکول کی چھت پر کھڑی ہوں - آسمان صاف شفاف ہے جیسے بارش کے بعد گرد و غبار دھل جانے کے بعد آسمان کا رنگ نکھر جاتا ہے - کسی طرف سے بادل کا ایک دبیز ٹکڑا آسمان پر آگیا اور اس بادل کے ٹکڑے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے ..یہ بادل کسی فلمی منظر کی طرح گزر گیا - اس کے پیچھے بادل کے بڑے بڑے ٹکڑے آئے - ان پر قرآن کریم کی مختلف آیات لکھی ہوئی ہیں - یہ بادل بھی ہوا کے دوش پر بہت دور چلے گئے پھر ایسا ہوا کہ دو بادل کے ٹکڑے نظر کے سامنے آکر ٹھہر گئے - ان دونوں کے درمیان ایک بزرگ صورت انسان کا چہرہ نمودار ہوا - یہ بزرگ مسکرا کر میری طرف دیکھ رہے ہیں - "

درخواست ہے کہ خواب کی تعبیر کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ خواب کیوں نظر آتے ہیں -

جواب میں  قلندر بابا اولیاؒء نے یوں تحریر فرمایا ...

..."     خواب کو اختصار میں سمجھنے کے لئے چند باتیں پیش نظر رکھنا ضروری ہیں -

1- انسانی زندگی کے تمام کاموں کا دارومدار حواس پر ہے - یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا کہ حواس کیا ہیں اور کس طرح مرتب ہوتے ہیں تفصیل طلب ہے - صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ہمارے تجربے میں حواس کا زندگی سے کیا تعلق ہے ...

حواس کو زیادہ تر اسٹف Stuff  بصارت سے ملتا ہے - اس اسٹف کی مقدار  % 95  یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے - باقی اسٹف جو تقریباً  % 4  ہے بقیہ چار حصوں کے ذریعے ملتا ہے - دراصل یہ اسٹف کوڈ  Code یا استعارے کی صورت اختیار کرلیتا ہے ...

ہم استعارے کو اپنی زندگی کی حدود میں اس کی ضروریات اور اس کے متعلقات کے دائرے میں سمجھتے اور بیان کرتے ہیں - انہی استعاروں کے اجتماعی نتیجے سے  ہماری زندگی کی میکانیکی تحریکات اور اعمال و وظائف اعضاء بنتے ہیں ...

ان اعمال و وظائف میں ایک ترتیب ہوتی ہے - ترتیب کو قائم رکھنے کے لئے ذات انسانی میں ایک تفکر پایا جاتا ہے یہ تفکر جسے روح کہہ سکتے ہیں شعور سے ماوراء ہے چاہے اس کو لاشعور کہیئے ، یہی تفکر شعور کو ترتیب دیتا ہے - ان میں زیادہ سے زیادہ استعارے محدود ضرورتوں اور محدود عقل ، محدود اعمال و وظائف کے دائروں سے باہر ہوتے ہیں ...

اب جو کم سے کم استعارے باقی رہے - ترتیب میں آئے اور شعورکا نام  پاگئے  ان کو بیداری کی زندگی کہا جاتا ہے اور کثیر المقدار استعارے خواب کے لا محدود ذخیروں میں منتقل ہو جاتے ہیں -

2کبھی کبھی ذات انسانی ، انا ، روح یا لاشعور کو ان لامحدود ذخیروں میں سے کسی جزو کی ضرورت پڑجاتی ہے - اس کے دو اہم مندرجات ہوتے ہیں - ایک وہ جو بیداری کی زندگی سے متعلق مستقبل میں کام کرتے ہیں - دوسرے وہ جو شعور کے کسی تجربے کو یاد دلاتے ہیں تاکہ شعور اس کا فائدہ اٹھا سکے ...

جب روح ان ذخیروں میں سے کسی جزو کو استعمال کرتی ہے تو اس جزو کا تمام اسٹف نہ شعور حافظہ میں رکھ سکتا ہے نہ سنبھال سکتا ہے بلکہ خال خال حافظہ میں رہ جاتا ہے - اسی کو شعور خواب کا نام دیتا ہے ...

اس تشریح کی روشنی میں خواب کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے ... جو استعارے بچپن میں بصورت عقائد فہم میں نہیں سما سکتے ، اب وہ خواب میں اس لئے دہرائے گئے ہیں کہ شعور ان کو تشریح اور تفصیل کے ساتھ سمجھے - ساتھ ہی اعتماد اور یقین کی پختگی حاصل کرے۔۔ایک بزرگ کا چہرہ اس امر کا تمثل ہے کہ ابھی شعور میں یہ چیزیں ناپختہ ہیں - ذہن ڈگمگاتا ہے - اور یقین کی وہ قوت طبیعت کو حاصل نہیں ہے جو مستقبل کے محرکات اور اعمال و وظائف بنتے ہیں - طبیعت نے انتباہ کیا ہے کہ اس قوت کا حاصل کرنا زندگی کے لائحہ عمل میں استحکام پیدا کرنے کے لئے اور فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے ...

 روح نے یہ بتایا کہ بہتر اور کامیاب زندگی اس طرح حاصل ہوسکتی ہے کہ یقین کی قوت سے کام لیا جاتا ہے - یہ قوت ہی منزل تک پہنچا سکتی ہے - دوسرا خواب بھی اسی خواب کا اعادہ ہے - استعارے معکوس ہیں

اولاد کی خوش خبری ...

کراچی کے شاہد صاحب نے اپنا خواب یوں لکھا ...  میں نے دیکھا کہ میں اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوں کچھ فاصلے پر ایک عورت بیٹھی توے پر گھی پگھلا رہی ہے - میں اس عورت کے پاس گیا اور ڈرتے ڈرتے گلاب کا پھول اسے پیش کیا - عورت نے مسکرا کے اسے قبول کیا اور میں نے گلاب کا پھول توے پر موجود گھی میں ڈال دیا -

حضور قلندر بابا اولیاؒء نے بذریعہ تعبیر اولاد کی بشارت ان الفاظ میں دی -

..."  دونوں عورتوں کے چہرے بیوی ہی کے دو چہرے ہیں - کسی دوسریعورت کا چہرہ نہیں ہے - گلاب کی پیشکش پر اظہار خوشی اولاد نرینہ کی خوش خبری ہے - "...   

امتحان میں کامیابی کی نوید ...

 شہباز خان نے اپنا خواب ان الفاظ میں بیان کیا ...  

 میں اردو اور معاشرتی علوم کا پرچہ حل کر رہا ہوں - اردو کے پرچے میں دو گھنٹے لگ جاتے ہیں پھر جلدی جلدی دوسرا پرچہ حل کرتا ہوں - میرے بعد دو اور لڑکوں نے استاد صاحب کو حل شدہ پرچے دیئے ...

میں کلاس میں بیٹھا ہوں کہ میرا دوست گاجریں لایا ہے - یہ گاجریں وہ استاد صاحب کو دینا چاہتا ہے لیکن میں اسے منع کر دیتا ہوں اور خود ایک صاف ستھری گاجر استاد کو دینا چاہتا ہوں لیکن وہ انکار کردیتے ہیں - "

بابا صاحبؒ نے تعبیر خواب میں یہ خوشخبری عنایت فرمائی ...

۔۔"آئندہ ہونے والے امتحان میں ایک پرچے کے نمبر زیادہ ، ایک پرچے کے نمبر کم اور باقی مضامین میں نمبر اچھے حاصل ہوں گے - مجموعی طور پر ڈویژن مل جائے گی۔"۔۔

 غلط طرز عمل کی نشاندہی:

بہت سے خوابوں کی تعبیر میں  قلندر بابا اولیاؒء نے سائلین کے غلط طرز عمل کی نشاندہی فرمادی جن سے ان کی فکر و عمل کو نقصان پہنچ رہا تھا اور جن سے نجات حاصل کرنا بہتر زندگی اور اچھے مستقبل کے لئے ضروری تھا - ایسے چند خواب اور بابا صاحب کی زبان الہام بیان سے ان کی تعبیر ہم ذیل میں درج کرتے ہیں - 

دہکتے کوئلے اور مرغی کا ذبح کرنا:۔

شمیم صاحبہ نے اپنا خواب بیان کرتے ہوئے لکھا ...

میری امی نہر کے کنارے ایک درخت کے نیچے کھڑی ہیں - ایک آدمی گزرتے ہوئے کہتا ہے .. شاباش تم اس آدمی کی ( میرے والد کی طرف اشارہ کرکے ) بیوی ہو -

دوسرا خواب یہ ہے کہ   ...  کوئلے دھک رہے ہیں ان کوئلوں پر ایک مرغی آکر گرتی ہے اور جل جاتی ہے - امی نوکر کو آواز دیتی ہیں کہ جلدی سے چھری لاؤ تاکہ مرغی ذبح کرلیں - 

بابا صاحبؒ تعبیر کے ضمن میں فرماتے ہیں ...

امی جان کے بے جا پیار نے خصائل و عادات پر بہت برا اثر ڈالا ہے - درخت کا سایہ ، اماں ابا کی صورتیں ، ایک آدمی کا نعرہ تحسین بلند کرنا یہ سب خاکے ہیں اچھے خصائل کو ردی سمجھنے کے -

دوسرا خواب پہلے خواب کا انتباہی رخ ہے - یہ رخ خبردار کر رہا ہے کہ موجودہ روش فوراً ترک کردی جائے ورنہ مستقبل تاریک ہونے کا اندیشہ ہے - دہکتی آگ میں مرغی کا جلنا نتیجہ کی نشاندہی کرتا ہے - " چھری لاؤ " شرط کی تصویر ہے کہ یہ روش ترک نہ کی گئی تو" چھری مرغی ذبح " سارا بندوبست لاحاصل ہوجائے گا -    

خواب میں  قرآن پاک:-

بیگم منظور حسین رسول نے اپنا خواب تحریر کیا ...

دیکھتی ہوں کہ زبردست سیلاب آیا ہوا ہے اور ایک مسجد سیلاب کے پانی میں ڈوب گئی ہے - پانی میں بےشمار قرآن پاک تیر رہے ہیں - پانی میں بہت سے نوجوان کھڑے ہیں - میں کنارے پر کھڑی ہوکر کہتی ہوں کہ ایک صاف اور خشک قرآن پاک جو سب سے اچھا ہو مجھے لا دو - ایک جوان میرے ہاتھ پر قرآن پاک لا کر رکھ دیتا ہے - میں اس سے پھر کہتی ہوں کہ ایک رحل بھی لا دو - پھر کچھ سوچ کر کہتی ہوں کہ ایک اور قرآن مجید لا کر دو - وہ کہتا ہے کہ اب قرآن پاک قیمتاً ملے گا ، یہ سن کر مجھے مایوسی ہوتی ہے - 

بابا صاحبؒ نے تعبیر یہ فرمائی ...

مسجد کا سیلاب میں ڈوبنا ، قرآن پاک کے نسخوں کا پانی میں تیرنا ، ایک نسخے کا حصول ، دوسرے نسخے کے حصول میں ناکامی ، ان اوراد و وظائف کے خاکے ہیں جو پڑھے گئے ہیں - ان کا اپنی بہتری کے لئے پڑھنا تو ٹھیک ہے لیکن دوسروں کی برائی کے لئے پڑھنا ہرگز مناسب نہیں -  

دو منہ والا سانپ

میاں اقبال سندھو نے لکھا ...

ایک عورت نے مجھ سے کہا دیکھو میں گھر سے اٹھ کر نماز کے لئے آگئی ہوں مگر تم ابھی تک نہیں اٹھے یا تم نماز نہیں پڑھو گے ؟ انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے پوچھا ، تم کہاں رہتے ہو ؟ میں نے اپنا کمرہ بتایا تو وہ کمرے میں گئیں پھر وہاں سے باہر آکر وضو کیا اور فجر کی دو رکعت نماز مسجد میں ادا کی پھر میرے سرہانے بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگیں -

دیکھا کہ ایک دوست جوگی کی ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور اسی کے ذریعے دو منہ والا سانپ لٹکا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم اپنی قوت اور صلاحیتوں کی بہت ڈینگ مارتے ہو اگر مرد ہو تو اس سانپ کو مار کر دکھاؤ -

حضور قلندر بابا اولیاؒء نے سائل کے بعض غلط رجحانات کی یوں نشاندہی فرمائی ...  

تعبیر :   1 - عورت اور نماز ، خوشی اور نیکی کے رجحانات ہیں - طبعیت مائل تو ہوتی ہے مگر آرام طلبی مانع آجاتی ہے - یہ روش ترک کردینی چاہیئے -

2 - آپ کوئی کام برابر کر رہے ہیں - یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ یہ کام بہت بڑے اجر کا مستحق ہے اور بہت بڑی نیکی ہے - یاد رکھئیے یہ کام الله تعالیٰ کے لئے نہیں کیا جارہا ہے اس کے پس پردہ آپ کی کوئی غرض دوڑ رہی ہے - نہ یہ نیکی ہے اور نہ اس کا کوئی اجر ہے -   

انڈونیشیا جانے کا حکم

ایم طاہر صاحب نے اپنا خواب ان الفاظ میں بیان کیا ...  

محکمہ کی طرف سے خط موصول ہوا کہ آپ کو بہت زیادہ فعال اور متحرک ہونے کی وجہ سے ایگریکلچر میں دو سالہ کورس کے لئے انڈونیشیا بھیجا جارہا ہے - صبح اٹھ کر حیران ہوا کہ یہ حکم کیسا تھا کیوں کہ ایگریکلچر سے میرا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے -

بابا صاحب نے خواب کے معانی کو یوں واشگاف فرمایا ... 

لاشعور نے بتایا ہے کہ معاشی ترقی محنت اور تندہی کے ساتھ کام کرنے سے ہی مل سکتی ہے - ایگریکلچر اور انڈونیشیا تندہی اور مسلسل تندہی کے نقش ہیں جن کا تصور ذہن میں موجود نہیں ہے - محض سینیارٹی حصول ترقی کے لئے کافی نہیں ہے -


 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔