Topics

قلندر بابا اولیاء اور قرآن


قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔"اللہ کے حکم کی تشکیل کا نام کائنات ہے۔"

 حیات کائنات میں غور و فکر سے یہ حقیقت  اظہر من الشمس ہے کہ اس میں قوانین اور توازن کا ایک ایسا اعلی ترین معیار مضر ہے عقل انسانی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ۔

قرآن حکیم میں بار بار مظاہر فطرت پر غور و فکر کی تلقین کی جاتی ہے تو اس میں بھی یہی مسئلہ کارفرما ہے کہ ذہن انسانی توازن و اعتدال اور قوانین فطرت سے روشناس ہو۔اورانہیں عقل و دانش کی رو سے اپنی زندگیوں کو متواضع اور مثالی بنانے میں استعمال کرے۔ کیونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالی کے حکم کی تشکیل ہے۔ لہذا ان قوانین کو دریافت کرنا اور انہیں بنی نوع انسان کی فلاح میں استعمال کرنا بھی اللہ تعالی کا حکم قرار پاتا ہے۔ قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اس بلیغ جملے

"اس جملے کے حکم کی تعمیل کا نام کائنات ہے۔"

میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے ۔قرآن میں سائنسی فارمولوں کی وضاحت تو نہیں ہے مگر اس میں دنیا کے ہر سائنسی فارمولے کی بنیاد پر موجود ہے۔  یہ حیات و کائنات کی بنیادی مسائل بیان کرتا ہے اور ان کے صحیح حل کی نشاندہی کرتا ہے۔ قرآنی نقطہ نظر سے انسانی جسم پر خاک کا ہر ذرہ کسی نے کسی فارمولے پر متحرک ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلی وحی اتری یہی تھی کہ "اقرا باسم  ربک الذی خلق"  علم غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔اورغوروفکر بندے کو خالق سے ملانے میں معاون بنتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہر ایٹم میں مثبت و منفی بجلی کی مقدار برابر ہوتی ہے اور اسی لئے ایک دوسرے کے اثر کو نیوٹرل کردیتے ہیں ۔باوجود یہ کہ یہ ایٹم ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور باوجود یہ کہ وہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں مگر ان میں اتحاد نہیں ہو سکتا۔ قدرت نے ان کے درمیان ایک اندیکھی دیوار کھڑی کر رکھی ہے جو اگر ختم ہو جائے تو سب کچھ بھک سے اڑ جائے گا۔

علم الابدان کا ماہر علم الابدان کا ماہر دیکھتا ہے کہ اگر انسان بدن میں پھیلی ہوئی باریک رگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر سیدھا کیا جائے تو یہ لمبائی بحراوقیانوس کے مسائل سے دوسرے سال تک پہنچ جائے گی جو انداز اً چار ہزار میل بنتی ہے۔ وہ مزید حیران ہوتا ہے جب دیکھتا ہے کہ جسم انسانی میں جذبات کی لہریں چارسوفٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ گوئٹے نے جب تفکر کیا تو کہا۔

" میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کائنات کی تخلیق کا مقصد یہ تھا کہ روح کی بالیدگی کے لیے مادی بنیاد فراہم کی جائے۔"

قرآن حکیم میں ہر نفس سے آخرت کے دن یہ پوچھا جائے گا کہ اللہ تعالی نے انہیں جو نعمتیں عطا کی تھیں انہیں کس طرح استعمال کیا گیا قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

" عام حالات میں ہماری نظر اس طرف کبھی نہیں جاتی کہ موجودات کے تمام اقسام اور افراد میں ایک مخفی رشتہ ہے۔ اس رشتے کی تلاش سے اہل روحانیت کے اور کسی قسم کے اہل فن اور اہل نہیں کر سکتے بلکہ اسی رشتے پر کائنات کی زندگی کا انحصار ہے۔"(لوح و قلم)

 قرآن حکیم میں ہے۔

"اپنے رب اپنے عظیم رب کی تعریف کر جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور اسے حسن وتناسب عطا کیا اور صلاحیت ونشوونما سے نوازنے کے بعد اسے کمال کی راہوں پر ڈال دیا ۔ "(الاعلیٰ)

وہ مخفی رشتہ اور یہ کمال کی راہیں کون سی ہیں؟

سورج مکھی کا پھول سورج کے رخ کے ساتھ ساتھ حرکت کرتا ہے۔ وہ کون سا تعلق ہے جو اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب چاند کی تاریخیں گھٹتی بڑھتی ہیں تو پانی میں  مدوجزر اور انسانی جذبات پر اس کا اثر کیا معنی رکھتا ہے؟وہ کون سا تعلق تھا جو  چندا ماموں کی کہانی سے شروع ہوا اور چاند گاڑی تک جا پہنچا یہی وہ مخلص رشتہ ہے اور کمال کی راہ ہے کہ ان پر تفکر کیا جائے اور ان کا اللہ تعالی کی حکمتوںکوآشکار کیا جائے ورنہ اپنی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جائے۔

المیہ یہ ہے کہ حقیقت کی اس تلاش میں اس کے مورث اعلی تو پیچھے رہ گئے اور وہ لوگ آگے نکل گئے جو اتفاق کرتے ہیں مگر ان کے سامنے حق و ناحق اور اللہ کی وحدانیت نہیں ہے۔ ان کے سامنے جواب دہی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بنی نوع انسان کہیں قومیت کے نام پر گروہوں میں بٹی ہوئی ہے تو کہیں ممالک کی سلامتی انہیں دوسرے ملکوں کے خلاف اپنی ایجادات و تفکر کو حاصل کر ماحصل کو غلط استعمال پر اکساتی ہے اور یوں ایک ایسا انتشار و افتراق پھیلا ہوا ہے کہ نوعِ انسانی گروہ در گروہ بٹ کر ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں یعنی انہیں غلام بنانے میں مصروف ہیں حالاں کہ قرآن میں اللہ تعالی نے تمام بنی نوع انسان سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم نے ایک آدمی کو بھی ناحق قتل کردیا تو کیا تم نے ساری انسانیت کو قتل کر دیا۔مگر ایمان اور یقین کی غیر موجودگی نے انہیں اس روشنی سے محروم کردیا ہے اور یوں دنیا مصائب و آلام کی آماجگاہ بن گئی ہے ۔

قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

" حقیقت اپنی حالت بدلتی رہتی ہے ان تبدیلیوں  میں مختلف انکشافات کا قیام ہے جس نقطہ پر جو انکشاف صورت پذیر ہے وہی  امرربی کی حرکت بن جاتا ہے۔ " ( لوح و قلم)

جبر و اختیار کے مسلمان صدیوں سے ہمارے ذہن کو جکڑ کر اسے منجمد کر رکھا ہے ہر کسی نے اپنے اپنے ذہن سے اسے سمجھا اور اسی کو حرف آخر قرار دیا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ کائناتی فکر اور اس کے قوانین تو حرکت پذیر رہے لیکن ہمارا رشتہ ان سے منقطع ہوگیا اور ہم پستیوں میں پڑے رہ گئے۔قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کائناتی مفکر ہیں۔ انہوں نے اتنے بڑے اور نازک مسئلے کو جس آسانی سے حل فرما دیا یعنی کا اعجاز ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نوع انسانی فکر جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے حقائق بھی بدلتے جاتے ہیں۔گیلیلو کو جب سزا سنائی گئی تو اس نے کہا چاہے تم کچھ بھی کر لو مگر زمین تو اپنے مرکز پر گھومتی ہی رہے گی۔

آئن سٹائن کے نظریہ اضافت نے تمام حقائق کو جو مسلمان سمجھے جاتے تھے تبدیل کر دیا۔تھامس ایڈیسن سے پہلے حقائق کچھ اور تھے ۔اس کے تفکر نے انہیں تبدیل کر دیا قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے فکری انسانی کی تدریجی سفر کو بیان کیا ہے کہ حقیقت اپنی حالت بدلتی رہتی ہے اور انہی تبدیلیوں میں مختلف انکشاف کا قیام ہے کیوں کہ حقیقت مطلق جو ایک ہی ہے اور کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی  وہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔ جو ان تمام تبدیلیوں کا سرچشمہ ہے۔اور پھر آگے فرمایا کہ جس سمت پر جو انکشاف صورت پذیر ہے وہی امر ربی کی حرکت بن جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کے جاری و ساری قوانین سارے کے سارے امر ربی ہیں ۔ انہیں کسی انسان نے نہیں بنایا اور یہی وہ فرق ہے جو ایک روحانی مفکر اور غیر روحانی تفکر کرنے بے شک انسانی  زندگی کو سہل اور دلآویز بنانے میں حصہ لیا۔ لیکن اس کے مفاد کو محدود کر کے ذاتی ملکیت بنا دیا ۔حالاں کہ جس منبع سے اس نے یہ انعام حاصل کیا وہ سب کے لیے عام تھا اس میں کوئی تخصیص نہیں تھی۔

قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد کی روشنی میں سماجی زندگی پر نظر دوڑائیے تو دل و ذہن ایک ایسی روشنی سے منور ہے جس میں حقائق  اپنے پورے خدوخال کے ساتھ نمایاں ہیں اور ذہن پکاراٹھتا ہے کہ  ہاں یہی حق ہے۔ ضرورت ہے کہ جبر و اختیار کے مسئلے کومنطق کے اصولوں پر نہیں بلکہ زندگی کے حقائق کی روشنی میں جو ہرآن ترقی پذیر ہے، حرکت میں ہے۔ اور ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف محو سفر ہے۔

 ہر انسانی بچہ جس ماحول جگر جس معاشرے میں پیدا ہوتا ہے، اپنے شعور کی آنکھیں کھلنے پر انہیں حق سمجھتا ہے جو خیالات یا عقائد اس وقت مروج متوجہ ہوتے ہیں۔وہ ایسا کرنے پر مجبور ہے ۔یہ انسانی نفسیات ہے پھر موروثی اثرات ہیں جو مسلمہ ہیں اور نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ موروثی اثرات ہر نومولود میں موجود ہوتے ہیں اور بچہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے اپنے ماحول اور گھر سے جو کچھ سیکھا ہے اسے حق سمجھتا ہے افریقہ کے ایک آدم خور قبیلے میں پیدا ہونے والے بچہ اسی طرح آدم خوری کرتا ہے جیسے ہم مرغی اور بکری کا گوشت کھاتے ہیں۔

مختلف معاشروں میں پھیلے ہوئے انتظار رات کو اختیارات اور توفیق خداوندی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے اس کی مثال جیسے ایک بیج اپنے اندر پورا درخت چھپائے ہوئے ہوتا ہے ۔ایک ایٹم کی توانائی اس میں محصور ہوتی ہے اور جب اسے حرکت میں لایا جائے تو ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان کے اندر اللہ تعالی نے اپنے علم کے خزانے بھر دیے ہیں ۔جب اس میں روح پھونکی گئی تو نورِ خداوندی اور علم خداوندی کی معرفت اس میں منتقل ہوگئی ۔سچائی و حق کی یہ معرفت علم و ارادہ سے حرکت پذیر ہو سکتی ہے اور یہی وہ طاقت ہے جو تمام موروثی اثرات اور مروجہ اخلاقی تضادات کو مسترد کرکے حقائق کا ادراک کرتی ہے اور فکر خداوندی سے انسانی شعور وفکر کو ہم آہنگ کردیتی ہے۔

انسانی ذہن و فکر کو حق کی طرف راغب کرنے کے لیے اللہ تعالی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور پھر آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی آخری کتاب نازل فرمائی اور قیامت تک کے لئے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا۔

انسان اس وقت محض مجبور ہے جب تک وہ فکر خداوندی سے اپنے آپ کو ہم ان نہیں کر لیتا وہ اپنے حواس و کا اسیر ہے، عقل و جذبات کا غلام ہے،  افتراق و انتشار کا نشان ہے، ظلم و بربریت کی انتہا ہے،تاریخ  عالم کا نا پسندیدہ کردار ہے ۔صفحہ کائنات پر ایک بدنما داغ ہے۔

مگر جیسے ہی وہ فکر خداوندی کی روشنی میں اپنے عمل کی راہیں تلاش کرتا ہے۔ اختیار و ارادہ اس کا رہنما بن جاتا ہے اور وہ اس صحرائے بیکراں میں امن کا تخلستان اور گلزار ہستی میں گل و بلبل کا نغمہ خواں بن جاتا ہے خوشیوں کی کھیتیاں لہلہا رہی ہیں اور صالح عمل کے ثمرات اس کی  زندگی میں باآور ہر کراسے نفس مطمئنہ سے سرشار کر دیتے ہیں۔اور یہی وہ زندگی ہے جس کا اللہ تعالی نے قرآن میں وعدہ فرمایا ہے کہ اگر تم نے مقصد حیات کو پا لیا تو تمہاری دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی۔اور پھر تم پرکوئی دنیاوی طاقت غالب نہیں آسکے گی۔اور  اگر اس راستے کو چھوڑ دو گے تو پھر دنیا کی ہر قوم پر غالب آجائے گی اور تم جہنم سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاؤ گے۔

قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

" زندگی رحمت و قدرت کا مجموعہ ہے۔اللہ تعالیٰ  کی  جس  قدر صفات ہیں ان میں نے سے ہر صفت کے ساتح رحمت اور قدرت کا جذب ہونا یقینی ہے۔"(لوح و قلم)

زندگی کا وجود جہاں کہیں ہے وہاں رحمت ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ اختیار و قدرت بھی ہے۔ اللہ نے قرآن میں صاف طور پر بیان فرما دیا ہے کہ ہم نے انسان کو اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے۔تعمیر اور تخریب  کی دونوں صفتیں  اس میں مستور کردیں۔اب یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ کائناتی قوانین کے مطابق تفکرکرتا ہے  توتعمیر کے گل کھلتے ہیں اور اس سے ہٹ کر عمل کرتا ہے تو تکلیف و الم اس کے رفیق بن جاتے ہیں۔مگر جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ علم کتاب فطرت کو پڑھتا ہے! علم کا تعمیری پہلو کو اجاگر کیا جائے اور علم کی وسعتوں کو فکر خداوندی سے ہم آہنگ کیا جائے تو زندگی جو رحمت و قدرت کا مجموعہ ہے تمام بنی نوع انسان کے لیے امن وسلامتی کی تفسیر بن جاتی ہے۔افق عالم پر ایک روشن مستقبل کی تعمیر بن جاتی ہے۔اور نفس مارگزیدہ کے لیے تریاق کی تاثیر بن جاتی ہے۔ عشق کی تسخیر بن جاتی ہے۔ بصورت دیگر قرآن کہتا ہے کہ تم جو کچھ بھی عمل کرتے ہو وہ اپنے ہی لیے کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ بھی تمہیں اللہ تعالی کی ذات تو ان سب چیزوں سے بے نیاز ہے۔

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔