Topics
]۴[ اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو پیدا کیا پھر نسل آدم کو پھیلانے کے
لیے زمین پر بھیج دیا۔ رب زوالجلال کی مرضی کے مطابق تخلیق کا یہ سلسلہ برابر جاری
و ساری ہے۔ جوں جوں آبادیاں بڑھتی گئیں آدمی کی ضرورتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ لوگوں
کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی ٰ نے انبیاء کرام کو معبوث فرمایاپھر جب قبیلے اور
قافلے والے زیادہ پھیلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے صحائف ،توریت ، زبور، انجیل اور آخر میں قرآن مجید کا
نزول فرمایا۔ یوں ہدایت خداوندی کا سلسلہ مکمل ہو گیا۔ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس
ہزار پیغمبر آ چکے ہیں۔ جن میں سے کچھ کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ سب سے آخر
میں حضور ﷺ تشریف لائے اور سلسلہ نبوت ختم ہو گیا۔ آپ کے بعد کسی نبی کو نہیں آنا
کیوں کہ نبوت آپ پر تمام کر دی گئی۔
قرآن
پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ کی سنت میں نہ تبدیلی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی تعطل واقع
ہوتا ہے۔ اس قانون کے تحت اللہ کی سنت کا جاری رہنا ضروری ہے۔ مخلوق خدا کی ہدایت
کے لیے پہلے انبیاء مبعوث ہوتے رہے چوں کہ آنحضرت ﷺ خاتم اللانبیاء ہیں۔ اس لیے اب
کوئی نبی نہیں آئے گا لیکن اسی فریضہ کو اس فیضان نبوت کو جاری رکھنے کے لیے سیدنا
حضور ﷺ کے وارث اولیاء اللہ کا ایک سلسلہ قائم ہوا جو کہ رہتی دنیا تک رہے گا۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے :
"الا ان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون"
اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ ہی وہ غم آشنا
زندگی سے مانوس ہوتے ہیں۔
ایک جگہ ارشاد
فرمایا جاتا ہے :
"مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا
ہے"
انہیں اولیا ء اللہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو قلندر کہلاتے
ہیں۔
قلندر کون لوگ ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قلندر اللہ کے وہ
بندے ہیں جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں۔ کائنات کا ذرہ ذرہ ان کے تابع فرمان
ہوتا ہے لیکن اللہ کے یہ نیک بندے غرض ، طمع،حرص اور لالچ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔
مخلوق جب ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش
کرتی ہیں ۔ تو وہ اس کو سنتے ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہیں۔ کیوں کہ قدرت نے
انہیں اسی کام کے لیے مقرر کیا ہے۔
قلندر کا مقام محبوبیت سے بھی اعلا ہے کیوں کہ محبوبیت کے
مقام پر پھر بھی دوئی باقی رہتی ہے کہ ایک عاشق اور دوسرا معشوق جب کہ مقام قلندری
میں دوئی کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔
من
تو شُدم تو من شُدی ، من تن شُدم تو جاں شُدی
تاکس نہ
گوید بعد ازیں ، من
دیگرم تو دیگری
]امیر خسرو[
والا معاملہ بن جاتا ہے۔یہی وہ پاکیزہ بندے ہیں جن کے بارے
میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے :
میں
اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ پھر وہ
میرے ذریعے سنتے
ہیں
میرے ذریعے چیزون کو پکڑتے ہیں۔
ان ازلی سعید بندوں کی تعلیمات یہ ہیں کہ ہر بندہ کا اللہ
کے ساتھ محبوبیت کا رشتہ قائم ہے ایسی محبوبیت کا رشتہ جس میں بندہ اپنے اللہ کے
ساتھ راز و نیاز کرتا ہے۔
حسن
اُخریٰ سید محمد عظیم برخیا حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ بندگان خدا کی
اسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ اکیس سلاسل کے
مربی و مشفی ہیں اور گیارہ سلاسل کے خانوادہ ہیں۔ خانوادے کی تعریف یہ ہے کہ جسے
امام سلسلہ کا ذہن منتقل ہو جاتا ہے۔ حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ اللہ
تعالیٰ کے تکوینی نظام میں شامل ہیں۔ اور اس وقت ابدال حق حضور قلندر بابا اولیا
رحمتہ اللہ علیہ صدر الصدور کے عہدہ پر فائز ہیں۔ صدر و الصدور کا عہدہ وہ عہدہ
جلیلہ ہے جہاں پہنچ کر سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
تھا میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے اور اس کے جواب میں تمام حاضر اور
غیر حاضر اولیاء اللہ نے اپنے اپنے مقامات پر اپنی گردنیں جھکا دی تھین۔ یہ مقام
وہ مقام ہے جو کہ تمام تکوینی نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔
قلندر بابا رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی زندگی مخلوق خدا کی
خدمت کے لیے وقف رکھی۔ نوع انسان کی خدمت کے لیے انہوں نے جو شمع روشن کی وہ سلسلہ
عظیمیہ کی صورت میں مخلوق ِ خدا کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہے۔
سلسلہ
عطیمیہ کی بنیاد رکھنے کے لیے حضور بابا رحمتہ اللہ علیہ نے بارگاہِ سرورِ کائنات
فخرِ موجودات سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ واسلام کی خدمت میں درخواست پیش کی۔ حضور
نبی کریم ﷺ نے درخواست قبول فرمانے کے بعد سلسلہ عظیمیہ کے قائم کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔
یوں جولائی ۱۹۶۰ میں سلسلہ کی بنیاد قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کے دست کرم
سے رکھی گئی اور سلسلہ کا نام بھی آپ کے نام عظیم سے ہی منسوب ہے یعنی ]عظیم[ چوں کہ آپ
گیارہ سلاسل کے خانوادہ ہیں اس لیے سلسلہ عظیمیہ میں طالب کو اسی روحانی رنگ میں
رنگا جاتا ہے۔ جس رنگ میں اس کی افتاد طبع ہے۔ چون کہ قلندر بابا اولیاء مرتبہ
قلندریت کے اعلا مقام پر فائز ہیں اور آپ کی ذات بابرکات کا رنگ بھی قلندریہ ہے۔
اس لیے سلسلہ عظیمیہ کا رنگ بھی قلندریہ ہے۔
ہرسلسلہ کے کچھ اغراض و مقاصد ہوتے ہیں اسی طرح سلسلہ
عظیمیہ کے بھی اغراض و مقاصد ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ کے اغراض و مقاصد کچھ یوں ہیں۔
۱۔ صراط مستقیم پر گامزن ہو کر دین کی خدمت کرنا۔
۲۔رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر صدق سے عمل کر کے آپ کے روحانی
مشن کو فروغ دینا۔
۳۔ مخلوق ِ خدا کی خدمت کرنا۔
۴۔علم دین کے ساتھ ساتھ لوگوں کو روحانی اور سائنسی علوم
حاصل کرنے کی ترغیب دینا۔
۵۔ لوگوں میں ایسی طرز پیدا کرنا جس سے وہ روح اور اپنی
روحانی صلاحیتوں سے باخبر ہو جائیں۔
۶۔ تمام بنی نوع انسان کو اپنی برادری سمجھنا۔ بلا تفریق
مذہب و ملت ہر شخص کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش انا اور حتی المقدور ان کے ساتھ
ہمدردی کرنا۔
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔