Topics

رباعیات میں قرآنی تفکر

 

قرآن مجید اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا گیا۔یہ خالق کائنات کی جانب سے تمام انسانوں کے لئے عظیم تحفہ ہے جو سعادت جاودانی کی طرف ان کی ہدایت کرتا ہے۔ یہ کتاب قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے ایک ایسی گائیڈ بک ہے، جو کسی بھی انسان کے لئے ہر قسم کے حالات و واقعات میں شاندار اور کامیاب رہنمائی کرتی ہے۔یہ کتاب نہ صرف آسمانی و زمینی علوم کا احاطہ کرتی ہے ۔بل کہ یہ نوع انسانی کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے۔ وسعت جامعیت اور ہمہ گیری کا یہ عالم ہے کہ ہر دور میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانی عقل و فکر کے لئے اس میں رہنمائی موجود ہے ۔یہ دنیا کی وہ تنہا معجزاتی کتاب ہے، جسے بار بار پڑھنے سے اس کلام کی گہرائی کا ادراک ہو کر نئی نئی معلومات انسانی ذہن کو ملتی رہتی ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآنی آیات کے بارے میں غور و فکر سے کام لینے کا حکم اس طرح دیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں

"ہم نے برکتوں سے معمور کتاب تم پر اس لئے نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں۔(ص 96)

 قرآن اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ لوگ جو قرآن میں فکر و تدبر سے کام نہیں لیتے ان کو اس طرح مورد مواخذہ قرار دیا ہے:۔

" آیا وہ قرآن کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں ؟"(محمد42)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن کی آیتوں پر غور و فکر کی تاکید کی ہے ،خصوصا جب معاشرہ کی فکر ظلمت و آشفتگی کا شکار ہو تو ایسے حالات میں قرآن سے رجوع کی تاکید حدیث  رسول میں کی گئی ہے کہ:

"جب فتنے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی مانند تم کو گھیر لیں تو قرآن کی جانب رجوع کرو ۔"

رسول اللہ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جمع و تدوین قرآن کا اہم فریضہ ادا کیا۔

 سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے !

تم میں سے بہتر وہ شخص ، جو قرآن کریم کو سیکھے  اور سکھائے۔ (صحیح بخاری: 7205)

تعلیمات رسول کے مطابق قرآن مجید کو اعلی ترین اور برتر الہامی کلام مان کر اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا تمام عالم پر فرض ہے ورنہ آدمی اس کے اندر پوشیدہ حقائق و معارف کو نہیں سمجھ سکتا۔

تبلیغ و اشاعت کے حوالے سے دیکھا جائے تو قرآن مجید میں اصل دعوت اس کے دلائل اور مطالبات کی تفصیل موجود ہے۔ ان چیزوں کو ترتیب  کے ساتھ اگر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا جائے تو لوگ بلاتردد یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کس چیز کو بطور پیغام لوگوں کے سامنے رکھ رہا ہے۔

تبلیغ و اشاعت کی اس ذمہ داری کو پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت نے نبھایا۔ آپ ﷺکے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسلام اور احکام اسلام کی اشاعت و حفاظت کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی صحابہ کے بعد اولیاء اللہ نے اس اہم فریضہ  کو اپنے عمل ، قول اور تحریر سے نبھایا۔ ہر دور میں ایک اہم خدمت تبلیغ قرآن ہے ۔یہی وہ اہم ترین کام ہے جو عہد حاضر میں اللہ تعالی نے اپنے مقرب بندے حضور قلندر بابا اولیاء سے لیا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا ایک روح ان کی شاعری بھی ہے ۔جب  ہم قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی شاعری پر نظر دوڑاتے ہیں تو ان کی شاعری میں قرآنی آیات کا مفہوم جگہ جگہ نمایاں ہے۔بہ نظر عمیق دیتے ہیں تب یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے لاشعور میں چلنے والی تحریک شعوری  پردے پر ابھری تو قرآن کا پیغام ان کی تعلیمات میں نظر آنے لگا ۔آپ نے اپنی شعری تخلیق رباعیات میں  قرآن کے سربستہ رازوں کو بیان کیا۔کائناتی فارمولوں سےپردے اٹھاءے اور کائنات کی تخلیق میں کام کرنے انتظامی امور  کو سمجھنے کی صلاحیت کو ابن آدم میں اجاگر کیا ہے۔

فکری اعتبار سے قرآن کے پیغام کو اجاگر کرنے والی ان کی شاعری قرآن کا عکس محسوس ہوتا ہے۔ آنے والا وقت یقینا اس بات کا شاہد ہوگا کہ حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی روایات چشمہ  ہدایت اور کائناتی رازوں کی امین ہیں ۔یہ رباعیات نوع  انسانی کے لئےورثہ ہیں۔ جس کے ذریعے آدم زاد خلافت و نابود نیابت کو فراموش کردہ دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔ یہ تحریر بھی اس سلسلے کی ایک کاوش ہے کہ قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات میں تفکر ہماری شخصیتوں کو جلا بخشے اور ہم ان کی شاعری میں پوشیدہ کے پیغام کو جان سکیں۔

قرآن مجید ہزاروں آیات پر مشتمل ایک بہت بڑی دستاویز ہے۔ مگر مضامین کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی مختصر دستاویز ہے جس کی بنیادی موضوعات انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ یہ موضوعات نا صرف تعداد میں بہت کم ہے بلکہ آپس میں مربوط طریقے سے جڑے ہوئے ہیں۔قرآن مجید کے موضوعات اور حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں ایک باہمی ربط معلوم ہوتا ہے۔ اس کا جائزہ موضوعاتی اعتبار سے پیش ہے جس سے قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی قرآن فہمی کا بحر بیکراں سامنے آ جاتا ہے۔

 موضوعاتی اعتبار سے سمجھنے کے لئے علماء نے قرآن کو ان ساتھ حصوں میں تقسیم کیا ہے:

 عقائد، احکام ،رسالت،معاد، اخلاق ، بدئالخلق ،قصص

باب العقائد:

موضوعاتی اعتبار سے قرآن کا یہ پہلا حصہ وجود کائنات، صفات الہی، حکومت و ملکیت ،مشیعت الہی اور تقدیر پر مشتمل ہے۔

اس میں آیا ت الٰہی کا موضوع ایسی باتیں ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ سورج ،چاند ستارے ،زمین و آسمان ، دن رات ،جن و انس ،شجروحجر، غرض ہر شے  اللہ نےتخلیق کی ہے۔

البقرہ میں ارشاد ہے:

"اللہ آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور جب کوئی چیز کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔(2/117)

قرآن کے اس موضوع کو قلندر بابا اولیا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رباعی میں اس طرح بیان کیا ہے:

اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا                        اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا

گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیم                  میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا

 

اس رباعی کی تشریح میں عظیمی صاحب فرماتے ہیں :

"اللہ تعالی کی عظمت کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔ ایک  لفظ میں ساری کائنات کو سمو دیا ہے، اس لفظ میں اربوں کھربوں بلکہ ان گنت عالم بند ہیں ۔ یہ لفظ جب عکس ریز ہوتا ہے تو کہیں عالم ملکوت و جبروت آباد ہوجاتے ہیں اور کہیں  کہکشانی نظام اور سیارے مظہر بن جاتے ہیں ۔"

باب الاحکام: موضوعاتی اعتبار سے قرآن کا یہ دوسرا حصہ انسانوں کے لیے احکامات سے متعلق ہے۔ ان احکامات میں ایمان لانے کا حکم ، تقویٰ ، اللہ اور رسول کی اطاعت ، شرک سے ممانعت، کاروبار اور معاشرت کے قوانین، عبادات، نماز ، حج اور روزہ کی تفصیل ہے۔

سورۃ البقرۃ میں روزہ کے بارے میں ہے:

"رمضان وہ مہینہ ہے جس  میں قرآن اتارا گیا جولوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق باطل میں فرق کرنے والا ہے سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پالے تو اس کے روزے رکھے۔(185/2)

قرآن کے اس موضوع کو قلندر بابا اولیا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رباعی میں اس طرح سے بیان کیا ہے:

 

ساقی تیرے میکدے میں اتنی بے داد              روزوں میں ہوا سارا مہینہ برباد

اس باب میں ہے پیر مغاں کا ارشاد                  گر بادہ نہ ہاتھ آئے تو آتی ہے باد

 

"اے خدا! تیرے میکدے میں یہ کیسی بیداد ہے کہ سارے مہینے روزے رکھنے کے بعد بھی ہمیں معرفت کی شراب نہیں ملی، جب کہ خود تیرا فرمان ہے کہ روزے کی جز میں خود ہوں، جب اس مہینے میں بھی تیرادیدار نصیب نہیں ہوا تو سارے سال مصیبتوں کی آندھیاں میرا مقدر بن جائیں گی۔"

باب الرسالت: موضوعاتی اعتبار سے قرآن کا تیسرا حصہ نزول، مقاصد اور اوصاف قرآن پر مشتمل ہے۔ توریت، انجیل ، انبیا کی خصوصیات، رسول کے اوصاف ، ازواج مطہرات اور اصحاب رسول کے متعلق آیات کا بیان ہے۔ اسی حصہ میں انسان کی پیدائش اور پیدائش کے مراحل کو بچپن سے بڑھاپے تک بیان کیا گیا ہے۔

سورۃ المومن میں ارشاد ہے:

" وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سےپھر خون بستہ سے پیدا کیا پھر وہ تمہیں بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر باقی رکھتا ہے تاکہ تم جوانی کو پہنچو یہاں تک کہ تم بوڑھے ہو جاتے ہو۔" (40/76)

قرآن کے اس موضوع کو قلندر بابا اولیا رحمۃ اللہ علیہ نے  اپنی رباعی میں اس طرح بیان کیا ہے:

مٹی کا ہے سینہ ، مٹی کا شانہ ہے              مٹی کی گرفت میں تجھے آنا ہے

کچھ دیر پہنچنے میں لگے گی شاید              مٹی کی طرف چند قدم جانا ہے

اس رباعی کی تشریح میں عظیمی صاحب فرماتے ہیں :

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے ہم نے گندھی ہوئی مٹی اور گارے سے انسان کا پتلابنایا اور پتلے میں اپنی روح پھونک دی۔

یعنی توانائی منتقل کی تو یہ سب چیزیں حرکت میں آگئیں۔ حضورقلندر بابا اولیاؒ فرماتے ہیں کہ مٹی کا ہے سینہ۔۔۔۔ یعنی ہمارا سینہ مٹی کا بنا ہواہے، وہ بھی مٹی ہے یعنی  ہم  بھی مٹی  ہیں اور ہمارا کاشانہ بھی مٹی ہے۔مٹی نے ہمیں اپنی گرفت میں  اس طرح  جکڑا ہوا ہے کہ کسی بھی طرح اس کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکتے۔

باب المعاد: موضوعاتی اعتبار سے قرآن کا یہ چوتھا حصہ پیدائش سے پہلے اور بعد کی زندگی سے متعلق ہے۔ اس حصہ مں روز آخرت ، سزا و جزا، جنت دوزخ کی زندگی ، دیدار الٰہی حاصل کرنے والوں کی بات او ر قیامت کی نشانیوں سے متعلق آیات ہیں۔ سورۃ الحاقہ میں ارشاد ہے:

"اور زمین اور پہاڑ اٹھاءے جائیں گے پس وہ دونوں ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے پس اس دن قیامت ہوگی۔(69/14،15)

قرآن کے اس موضوع کو قلندر بابا اولیا رحمۃ اللہ علیہ نے  اپنی رباعی میں اس طرح بیان کیا ہے:

 

دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا                  کیا کہیے کہ ہے کیا یہ ہماری دنیا

مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیق                     مٹی کا کھلونا ہے ساری   دنیا

 

اس رباعی کی تشریح میں خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں :

 

"یہ بھری دنیا ایک قسم کا طلسم ہےاس میں ایسا جادو موجود ہے کہ اس کو سمجھنا تولہ ماشہ تولنے والی عقل کے بس کی بات نہیں۔ غور کیا جائے تو ساری دنیا مٹی کا ایک کھلونا ہے جس کا مقدر بالآخر ٹوٹ کر بکھر جانا ہے۔"

 

باب الاخلاق:

 موضوعاتی اعتبار سے قرآن کا یہ پانچواں حصہ نصیحت صبروشکر ،اخلاص ،جھوٹ ،اتفاق، صلہ رحمی،دوستی ،حسن سلوک ،اخلاقیات ،احسان اشعار دین سے متعلق ہیں ۔ اسی حصہ  میں انسان کو علم و ہدایت عطا کئے جانے کے بارے میں آیات ہیں۔سورہ بقرہ میں ارشاد ہے:

" وہ جس کو چاہتا ہے سمجھ دے دیتا ہے اور جسے سمجھ دی گئی تو سب سے بڑی خوبی ملی اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔

قرآن کے اس موضوع کو قلندربابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رباعی  میں اس طرح بیان کیا ہے:

 

ساقی کا کرم ہے میں کہاں کا مے نوش                    مجھ ایسے ہزار ہا کھڑے ہیں خاموش

مے خوار عظیم برخیا حاضر ہے                              افلاک سے آرہی ہے آوازسروش

اس رباعی کی تشریح میں عظیمی صاحب فرماتے ہیں :

حضور قلندر بابا اولیاء ؒ اس رباعی میں فرماتےہیں کہ اللہ تعالی کا کرم ہے کہ اس نے مجھے خصوصی (علم لدنی) عطا فرما کر ہزاروں لاکھوں سے ممتاز کردیا اور میرے اندر شراب معرفت کے خم انڈیل دئے ہیں۔ اواز سروش یا صوت سرمد نے مجھے مظاہراتی دنیا اور قید و بند کی زندگی سے آزاد کردیا۔آسمانوں میں جو کچھ ہورہا ہے میں کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرتا ہوں، اور ماورائی آوازوں سے میری سماعت لطف اندوز ہوتی ہے، اور یہ ساری نعمتیں مجھے ساقی کے کرم سے ملی ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے اپنے نانا کی منقبت میں اس بات کو اس طرح کہا ہے:

 

یہ آپ ہی کا نواسہ ہے  ،  دریا پی کر جو پیاسا ہے

جلووں کا سمندر دیدیجیے، اے بادہ حق اے جوۓ علی﷜

 

باب بدء الخلق:

 موضوعاتی اعتبار سے قرآن کا یہ چھٹا حصہ آفرینش عالم، نظام شمسی، انسان اور جانور ،فرشتوں اور جن  کی تخلیق ۔دن رات کی پیدائش اور نظام کائنات میں ہر لمحہ غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔اسی حصہ میں نظام شمسی  اور اجرام فلکی سے متعلق آیات ہیں۔

سورۃ الفرقان میں ارشاد ربانی ہے کہ:

"بڑا برکت والا ہے وہ جس میں آسمان میں ستارے بنائے اور اس میں چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔"(25/65)

 قرآن کے اس موضوع کو قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رباعی میں اس طرح بیان کیا ہے:

 

جب تک کہ ہے چاندنی میں ٹھنڈک کی لکیر       جب تک کہ لکیر میں ہے خم کی تصویر

جب تک کہ شب مہ کا ورق ہے روشن               ساقی نے کیا ہے مجھے ساغر میں اسیر

 

اس رباعی کی تشریح میں عظیمی صاحب فرماتے ہیں :

"حضور بابا صاحبؒ چاند کو خم سے تشبیہ دیتے ہیں، جس طرح  خم میں شراب بھری ہوتی ہے اسی طرح چاند میں ٹھنڈی اور مسحور کن روپہلی چاندنی دراصل وہ روشنی ہے، جس سے زمین کا ذرہ ذرہ نمود و حیات  پارہا ہے۔ جب تک نمود و حیات  کا سلسلہ جاری ہے، کائنات کا منور اور روشن ہے۔ اور جب روشنی کا  نظام درہم برہم ہو جائے گا تو یہ خم نہ رہے گا، نہ شراب نہ چاند رہے گا، نہ چاندنی ۔ اگر کوئی چیز باقی رہے گی تو وہ ساقی ذات والا صفات ہے۔"

 

باب القص :

" موضوعاتی اعتبار سے قرآن کا یہ ساتواں حصہ آدم علیہم السلام کے جنت سے نکلنے حضرت نوح علیہم السلام سے حضرت ابراہیم علیہ مالسلام تک اور حضرت ابراہیم علیہم السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات و حالات کو بیان کرتا ہے۔اسی حصہ میں حضرت موسیٰ علیہم السلام اور فرعون کے واقعہ سے متعلق آیات سورہ یونس میں ارشاد ہے کہ:

" تو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔"(10/92)

قرآن کے اس موضوع کو قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رباعی میں اس طرح بیان کیا ہے:

 

اہرام فراعین کا مدفن ہیں آج                     سیاحوں سے تحسین کا لیتے ہیں خراج

رفتار ِ زمین کی ٹھوکریں کھاکھا کر                    مل جائے گا کل تک ان کا مٹی میں مزاج

 

اس رباعی کی تشریح میں عظیمی صاحب فرماتے ہیں :

"سکندر و دارا ، شداد و نمرود ، فراعین اور بڑے بڑے بادشاہ جن کی ہیبت وبربریت کا یہ عالم تھا کہ لوگ ان کے نام سے لرز جاتے تھے، وہ جو بڑی بڑی ریاستوں اور دمملکتوں کے تاج دار تھے، عوام سے خراج وصول کرتے تھے ، خود کو آقا  اور اللہ کی مخلوق کو غلام سمجھتے تھے، معلوم نہیں کہ وہ خود اور ان کے تاج کہاں ہیں۔۔۔۔۔؟ ان کو اور ان کی افواج کو جو آندھی  طوفان بن کر دنیا کے لیے مصیبت بن گئی تھی مٹی نے نگل لیا ۔یہ بڑے بڑے محلات اور کھنڈرات جو آج اپنی بے بضاعتی پر آنسو بہا رہے ہیں بالآخر ان کا نام ونشان بھی صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔"

رباعیات کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کی آیات اللہ کے علم و قدرت کی نشانیاں ہیں ۔اگر ایک صاحب علم انسان روشن دل و دماغ کے ساتھ رباعیات پر غور و فکر کرے تو ہر قدم پر محسوس کرے گا کہ یہ کائنات بازیچہ  اطفال نہیں ہے ،بل کہ ایک عزیز قدیر اور علیم  و حکیم ہستی کا  کارخانہ خلق و ایجاد ہے،جہاں ہر طرف حیران کن علم کی جلوہ گری  اور بے مثال نظام  و قا نون کی حکمرانی ہے۔ایک ہی طاقت و ارادہ ہے جو ہر جگہ غالب نافذ ہے ۔کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز ایک نظام عمل کی پابند ہے اور ان کے لیے ممکن نہیں کہ خدا کے مقرر کردہ قوانین کے دائرے سے ایک ثانیہ کے لئے بھی قدم باہر نکال سکیں ۔ یہی وہ پیغام ہے جسے حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی رباعیات کا بنیادی موضوع بنایا ہے۔حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے قران کی آیات اور اپنی روایات میں فکری ربط کے ذریعے سے کائنات کی اس حکیمانہ خوبی اور اس کے حیرت انگیز نظم و قانون کی طرف سے تمام ہوش مند انسانوں کو متوجہ کیا ہے اور ارباب علم و عقل کو غوروفکر کی دعوت دی ہے برتر ہستی کا انہیں عرفان حاصل ہو جو اس کائنات بے کراں کی خالق آمر ہے۔ قرآن مجید کے موضوعات کو آپ نے شاعرانہ الفاظ و اسالیب میں جس طرح پیش کیا ہے میں یہ اعجاز بیان کا منتہائے کمال ہے۔

 


Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔