Topics

رباعیات میں فکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم

 

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کامل ترین شخصیت کی تہنیت و تقدیس  ہے۔ جس کے جاہ جلال ،تقویٰ، اخلاص ،توکل، صبر و تحمل اور تدبر تشکر کا کوئی ثانی نہیں وہ روح کونین ہے جس کا اسوہ حسنہ  مرکزودرود و سلام ہے۔ قرآن مجید نے رحمت اللعالمین ، طہٰ،یٰسین، مدثر و مبشر، منذرو نذیر، سراج منیر  جیسے الفاظ خاتم النبین ﷺ کو خطاب  کر کے ابن آدم کو دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو کا سلیقہ بتایا ۔سیرت طیبہ کی اہمیت کے بارے میں مرشد کریم الشیخ عظیمی  فرماتے ہیں کہ:

ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ ساز سیرت کا بار بار مطالعہ کریں۔ اس عمل سے ہمارے اندر یقین  اور مسلسل آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔

اس تناظر میں عہد حاضر میں سید محمد عظیم حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو آپ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ میں رنگین ہیں۔ فطری اور حسبی اعتبار سےآپ نیک، متقی ،پرہیز گار اور پاکیزہ طبیعت کے حامل اور دل عشق رسول ﷺ سے معطر و منور عشق رسول کے میدان میں آپ کی نظر، فکری پاکیزگی اور بلندی  نگاہی خصوصی اور انفرادی اہمیت کی حامل ہے۔

 7 جولائی 1927 کو سید نثار علی بخاری کے نام خط میں لکھتے ہیں

" نام محمّد (صلعم) زندہ باد، کاش آنجناب رسالت کی شدت محبت سے میرا دم نکل جاۓ جب ان کے نام پر مسلمانوں کو پکارا گیا خواہ کسی نے پکارا الله جل وعلیٰ  نے منادی کرنے والوں اور پکارے جانے والوں کو کامیاب کردیا -ہمیشہ اس نام کی قوت کے آگے زمین و آسمان جھک گئے ہیں –"

حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا یہ والا اظہار عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بےقرار دنوں کے لئے ان کے مخلصانہ  سوزدروں کی عکاسی کرتا ہے یہ پاکیزہ تصور تخیل آپ کے سچے عاشق رسول ہونے کا داعی ہے۔

خط کے دو جملوں میں حضور پاک کی ذات عالیہ اپنی سیرت صفات کی تمام تابانیوں اور ازل سے ابد تک کی جلوہ سامانیوں کے ساتھ کرطاس ابیض  سے اتر کر قاری کے قلب و ذہن کو روشن کرتی ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے وضاحت فرمائی ہے کہ سرور کائنات اس مرتبہ پر فائز ہیں کہ ان کے زیر قدم کائنات ہے۔ کاندھے پر امت کا بوجھ سر پر محسن کا تاج اور دست مبارک میں نجات کی زنبیل ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ  نے شاعری کاآغاز رباعی گو کی حیثیت  سے کیااور اس میں اپنی صلاحیتوں کے عکس کو نمایاں کیا ان روایات میں فکر رسول کی نمایاں اور گہری جھلک موجود ہے۔

مدحت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صرف زبان و بیان پر قدرت حاصل کرلینا ہی ضروری نہیں بل کہ شاعرانہ صلاحیت اور فنی محاسن کے ساتھ ساتھ  قلب وذہن کی پاکیزگی عشق رسول صلی اللہ وسلم کی وارفتگی اور خلوص بھی ضروری ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں  قلب و ذہن کی پاکیزگی کا رنگ زبان و بیان سے گہرا ہے ۔ حضور قلندر بابا علیہ رحمت اللہ علیہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے مشن کے فروغ میں رباعیات میں فرمان الہی اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرکے تصوف (قرب الٰہی ) کے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔

آپ کی رباعی ارشاد رسول کا اعلی نمونہ ہے:

 

عنوان مشیت کہیں ٹل سکتا ہے؟          تو لوح کی تحریر بدل سکتا ہے؟

استاد قلم نے لکھ دیا جو لکھا                     کیا اسے خلاف بھی کوئی چل سکتا ہے

مرشد کریم اس رباعی کی تشریح میں فرماتے ہیں :

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد عالی مقام ہے قلم لکھ کر خشک ہوگیا۔عنوان مشیت یہ ہے  کہ جو اللہ تعالی  نے بنا دیا بن گیا ۔ جو اللہ  تعالی نے چاہا وہ ہو گیا، اللہ  جس کو چاہے عزت دے، جس کو چاہے ذلت دے، اللہ جس کو چاہے  ملک دے،                                    جس سے چاہے ملک چھین لے اللہ تعالی نے جو کچھ لکھ دیا ہے اسے کوئی بدل نہیں سکتا۔"

ایک اور رباعی رسول اللہ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے۔ قلندربابا اولیارحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

 

کل عمر گزرگئی زمیں پر ناشاد              افلاک نے ہرشانس کیا ہے برباد

شاید کہ وہاں خوشی میسر ہو عظیم         ہے زیر زمیں بھی اک دنیا آباد

 

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی اس رباعی کی تشریح میں فرماتے ہیں :

"ہماری اس رنگ و بو کی دنیا کی طرح ایک اور دنیا بھی جو مرنے کے بعد ہمارے اوپر روشن ہوتی ہے، ہم کتنے بد نصیب ہیں کہ ہم نے کبھی اس نادیدہ دنیا کی طرف سفر نہیں کیا، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد  "مرجاؤ مرنے سے پہلے" پر عمل کرکے ہم اس دنیا سے روشناسی حاصل کرلیں، تو اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ ناشادو نامراد زندگی کو مسرت و شادمانی میسر آجائے۔"

ان رباعیات میں جذبہ عشق رسول کی تیز آنچ قاری کے دل میں احساس کی گرمی پیدا کرتی ہے۔ اپنے ممدوح  کے پیغام کو قلندر بابا رحمتہ اللہ علیہ نے اس انداز سے اجاگر کیا ہے وہ ہمارے لئے صد افتخار ہے اور وہ اس لئے کہ اس کا دائرہ صرف جذبات  حب  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصار تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ عمدہ شاعری کا نمونہ بھی ہے ۔

ان رباعیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا قلب نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز تھا یہاں تک کہ عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک قلندر باب رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی طور پر آپ کے نام سے جاری سلسلہ عظیمیہ کے اغراض و مقاصد میں بھی یوں موجود ہے کہ :

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر صدق دل سے عمل کرکے آپ کو فروغ دینا۔"

 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔