Topics
قرآن
پاک کے متعلق الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ لوح محفوظ پر موجود ہے - لوح محفوظ
کائناتی تخلیق کے پروگرام کی بنیادی شکل ہے - قرآن مجید کے متعلق ایک اور ارشاد
ربانی ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی اور کوئی بڑی سے بڑی چیز ایسی نہیں ہے جو اس میں
بیان نہ کردی گئی ہو - ان دونوں آیات کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ بات
سامنے آتی ہے کہ قرآن پاک کی بنیاد (Base
) لوح محفوظ ہے - دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کائناتی تشکیل
کے قوانین کا مجموعہ ہے اور اگر مادی دنیا میں جہاں مفہوم کی منتقلی کے لئے الفاظ
کا سہارا لینا پڑتا ہے ، قدرت کے طرز عمل کو بیان کرنے کے لئے مختصر اور آسان ترین
الفاظ استعمال کئے جائیں تو وہ قرآن پاک کی زبان ہے -
قرآن
پاک میں ہر قسم کے مضمون کی طرف اشارات ملتے ہیں - کہیں آسمانوں کا ذکر ہے ، کہیں
زمین کے بارے میں بیان کیا گیا ہے ، کہیں تخلیقی مراحل پر روشنی ڈالی گئی ہے ،
کہیں وسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے ، کہیں اجرام فلکی کی حیثیت بتائی گئی ہے
- ان آفاقی تذکروں کے ساتھ ساتھ آدمی کی معاشی ، معاشرتی اور تاریخی زندگی کو
بھی بیان کیا گیا ہے - لیکن ان اشارات کے پیچھے افہام و تفہیم کیا ہے اور یہ کن
رازوں اور فارمولوں کو بیان کرتے ہیں اس بات کو سمجھنا اس وقت ممکن ہے جب آدمی کے
اندر صاحب قرآن کی طرز فکر کام کر رہی ہو اور آدمی قرآن کو کلام الٰہی سمجھ کر اس
پر تفکر کرے-
قرآن
پاک میں جگہ جگہ اس بات کا تذکرہ ہے کہ ہماری آیات کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جن میں
تفکر کی صلاحیت موجزن ہے ، جو صاحبان عقل ہیں ، جو شعور رکھتے ہیں ، جو راسخ فی
العلم ہیں وغیرہ وغیرہ - اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو الله تعالیٰ نے تفکر ،
فہم اور علم میں راسخ ہونے کی صلاحیت بخشی ہے ، وہ قرآن پاک کے بیان کردہ تخلیقی
فارمولوں سے وقف ہیں -تفکر ، شعور ، عقل یہ ساری اصطلاحات ایک مخصوص طرز ذہن اور
طرز فکر کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں –
جب
بندے کا ذہن ہر طرف سے ہٹ کر صرف اور صرف الله کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور وہ الله
کے لئے جیتا اور مرتا ہے تو ایسے بندے کی راہنمائی کا فریضہ خود ذات باری تعالیٰ
اپنے ذمہ لے لیتی ہے اور پھر ان پر معرفت خداوندی کے دروازے کھل جاتے ہیں -
الله
تعالیٰ کا ارشاد ہے :
" جو لوگ ہمارے لئے جہد کرتے ہیں ،ہم ان
پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں - "
ایسے
بندوں کی صفت بیان کی گئی ہے :
" ہم ان کو آفاق و انفس میں اپنی نشانیوں
کا مشاہدہ کرائیں گے تاکہ انہیں معلوم ہوجائے ( یعنی ان پر یہ بات منکشف ہوجائے گی
)
کہ قرآن حق ہے - "
یعنی
مشاہدہ ہی وہ ذریعہ ہے جس سے قرآن پاک کے بیان کردہ مضامین کی مکمل اور حقیقی
معنویت سامنے آتی ہے -
حضورعلیہ
الصلوة والسلام کا ارشاد گرامی ہے :
" مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ الله کے نور سے دیکھتا ہے
- "
ایسے
قدسی نفس حضرات ہر زمانے میں موجود رہے ہیں جن کو الله تعالیٰ کی طرف سے یہ نور
بصیرت عطا ہوا - ماضی قریب میں حضرت سید محمّد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا
اولیاؒء بھی ایک ایسی ہی ہستی ہیں - جو لوگ حضرت بابا صاحبؒ کی صحبت میں رہے
ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں کہ بابا صاحبؒ عرفان خداوندی کی جن بلندیوں پر فائز
تھے اور آپ کو تخلیق کے فارمولوں میں کس قدر دخل عطا کیا گیا تھا - بابا صاحبؒ
نے جو تحریریں چھوڑی ہیں ، وہ خود صاحب تحریر کی عظمت کی دلیل ہیں - لوح و
قلم ، رباعیات اور تذکرہ تاج الدین بابا وہ تحریریں ہیں جو قارئین روحانی
ڈائجسٹ کی نظروں سے گزر چکی ہیں اور محتاج تعارف نہیں۔
ان
تحریروں کے علاوہ چند ارشادات ایسے ہیں جو بابا صاحبؒ نے سائلین کے جواب میں
لکھوائے اور ان میں قرآن پاک کی بعض آیات کے ترجمے اور مختصر تشریحات بیان کیں -ہم
ذیل میں چند اقتباسات پیش کرتے ہیں تا کہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ قرآن محض ایک
مسئلہ مسائل کی کتاب نہیں بلکہ یہ کائناتی فارمولوں کی دستاویز ہے اور یہ کہ حضور
بابا صاحبؒ کو قدرت نے اپنا کس قدر رازداں بنایا ہے –
الحجر
87 کا ترجمہ اور تشریح ایک سائل کو یوں لکھوائی –
ترجمہ
: " اور بے شک ہم نے آپ کو سات آیتیں ( نور )عطا فرمائیں جو دہرائی جاتی
ہیں اور عظمت والا قرآن - "
سات
انوار کا بیان حسب ذیل ہے -
الله
تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں جو تمام آسمانی صحیفوں کی تمہید ہے اور قرآن پاک کا بھی
دیباچہ ہے ، ارشاد فرمایا ہے ...
1 - الحمدللہ رب العالمین -
وہی
الله لائق حمد ہے جس کا نور کائنات کی پرورش کر رہا ہے - یہ
پہلا نور ہے -
2 - الرحمٰن الرحیم –
جس
کا نور رحم و کرم بن کر محیط ہے - یہ دوسرا نور ہے –
3 - ملک یوم الدین –
اس
کا نور چھایا ہوا ہے ابتداء سے انتہا تک - یہ تیسرا نور ہے –
4
-
ایاک نعبد و ایاک نستعین –
اس
کا نور ہر بندے کا محافظ اور مددگار ہے - یہ چوتھا نور ہے –
5
-
اھدنا الصراط المستقیم –
اس
کا نور ہی سیدھا راستہ ہے - یہ پانچواں نور ہے –
6
- صراط
الذین انعمت علیھم –
اس
کا نور ہی نور ہے - یہ چھٹا نور ہے –
7
- غیر
المغضوب علیھم ولا الضالین –
اس
کا نور ہی جلال بن کر کائنات کو تنبیہہ کرتا ہے - یہ ساتواں نور ہے –
قرآن
پاک کی زبان میں ساتوں انوار مل کر " سبع مثانی " کہلاتے ہیں اور ان ہی
کی ملاوٹ کا نام روح ہے جو قدم قدم پر انسان کو مطلع کرتی ہے ، ہر بات بتاتی اور
ہر چیز فراہم کرتی ہے - اس ہی روح کا
نام " ورائے محسوسیت " ہے –
سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات کے راز یوں بیان کیے ہیں:
الم (1) ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى
لِّلْمُتَّقِينَ (2)
ترجمہ : الم - اس کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں
، ہدایت دیتی ہے ۔متقیوں کو - یہ وہ لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں غیب پر - (
سورۂ البقرہ )
یہاں
غیب سے مراد وہ تمام حقائق ہیں جو انسان کے مشاہدات سے باہر ہیں - وہ سب کے سب
الله کی معرفت سے تعلق رکھتے ہیں - ایمان سے مراد ذوق ہے - ذوق وہ عادت ہے جو تلاش
میں سرگرداں رہتی ہے - اس لئے نہیں کہ اسے کوئی معاوضہ ملے گا بلکہ صرف اس لئے کہ
طبیعت کا تقاضہ پورا کرے -
متقی
سے وہ انسان مراد ہے جو سمجھنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے - ساتھ ہی
بدگمانی کو راہ نہیں دیتا ، وہ الله کے معاملے میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ کائنات
کا کوئی روپ اسے دھوکہ نہیں دے سکتا - وہ الله کو بالکل الگ سے پہچانتا ہے اور
الله کے کاموں کو بالکل الگ سے جانتا ہے - صحیح طور پر پہچاننے کی وجہ یہ ہے کہ اس
کے اندر ذوق موجود ہے - درحقیقت وہی ذوق لائف اسٹریم ( چشمۂ حیات ) ہے -غیب کی
دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب پر یقین رکھنا ضروری ہے - مذکورہ بالا آیت میں لوح
محفوظ کا یہی قانون بیان ہوا ہے - نوع انسانی اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اس قانون
پر عمل پیرا ہے - یہ دن رات کے مشاہدات اور تجربات ہیں - جب تک ہم کسی چیز کی
طرف یقین کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتے ہم اسے دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں -
اگر
ہم کسی درخت کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو اس درخت کی ساخت ، پتیاں ، پھول ، رنگ سب
کچھ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے لیکن پہلے ہمیں قانون کی شرط پوری کرنا پڑتی ہے
- یعنی پہلے ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے -
اس یقین کے اسباب کچھ ہی ہوں تاہم اپنے ادراک میں کسی درخت کو جو ہماری آنکھوں کے
سامنے موجود ہے ایک حقیقت ثابتہ تسلیم کرنے کے بعد اس درخت کے پھول ، پتوں ، ساخت
اور رنگ و روپ کو دیکھ سکتے ہیں –
ترجمہ :اور کہا ہم نے اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں جہاں چاہو قیام کرو
اور خوش و خرم جہاں سے جو چیز پسند ہو کھاؤ ، البتہ اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ
تم ظلم کے خصائل میں گرفتار ہوجاؤ گے۔
آیت
نمبر 36 :لیکن ان کو شیطان نے گمراہ کردیا اور جس آرام میں وہ تھے اس سے
محروم کردیا - ہم نے کہا ، تم سب اسفل ہوجاؤ کیونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو -
تمہیں ایک معین مدت تک زمین کو مستقر بنا کر کام چلانا ہوگا۔
ان
دونوں آیتوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جنت کے قیام میں وسائل آدم کے پابند
تھے اور زمین پر آنے کے بعد وہ خود وسائل کے تابع ہوگئے -
حیث شئتما - جس جگہ چاہو ( حیث بمعنی
اسپیس Space
) - ان دو لفظوں سے صاف ظاہر ہے کہ اسپیس کوآدم کا محکوم کردیا گیا تھا - حیث
یا اسپیس کائنات کی ہر چیز کو محیط ہے - چنانچہ اس وقت آدم کی یہ حیثیت تھی کہ
مکان اس کے ارادے کے تابع تھا -آدم کی یہ DEFINATION
نمایاں طور پر خود الله تعالیٰ نے اپنے بیان میں واضح کردی ہے لیکن جب یہی آدم
اسفل میں پہنچتا ہے تو اس کی پوزیشن بالکل متضاد ہوجاتی ہے ، اس طرح کہ ہر اک
اسپیس اس پر حاوی ہے - قدم قدم پر اس کو وسائل کی پابندیاں گھیرے ہوئے ہیں - یہاں
تک کہ انسان .... کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن گیا ہے -
حیث
( SPACE
) کی ایک مثال پر غور کیجئے - آپ اخبار پڑھتے ہیں - نظر چھپے ہوئے الفاظ پر رہتی
ہے اور پڑھتے اور سمجھتے چلے جاتے ہیں - بیک وقت اخبار کو مس کرتے ہیں - مس کرنا
ایک اسپیس ہے اور دیکھنا دوسری اسپیس ہے - ایک سائنسدان ان دونوں کو بالترتیب VISUAL
SPACE
اور TACTUAL SPACE کہتا ہے -
اخبار
پڑھنے والے ہمیشہ اخبار پڑھتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کن کن صلاحیتوں
کو ملا کر ایک نتیجہ پیدا کرتے ہیں - حالانکہ TACTUAL SPACE
اور VISUAL
SPACE بالکل الگ الگ ہیں - محض ضرورتاً وہ ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوجاتی
ہیں - یہاں تک کہ اخبار پڑھنے والا بے تکلف پڑھتا چلا جاتا ہے - اس مثال سے یہ نہ
سمجھا جائے کہ اخبار پڑھنے میں یہی دو اسپیس کام کرتی ہیں - ان کے ساتھ ساتھ اور
بھی کتنی ہی اسپیسز ( SPACES ) شامل ہوکر عمل کرتی ہیں - اختصار کو مدنظر
رکھ کر ان کا تذکرہ قلم انداز کردیا گیا ہے -
نفسیاتی
سائنس کے لاشمار تجربات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ چیزیں جس طرح نظر آتی ہیں حقیقتاً
وہ اس طرح نہیں ہیں - اگرچہ بادی النظر میں یہ بات حواس کے علم سے ماوراء ہے تاہم
حواس کی شکست و ریخت خود ہی انسانی ذہن کو ان حدود میں پہنچادیتی ہے جن میں وہ
حقائق کی جھلک کا ادراک کرنے لگتا ہے -
الله
تعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ بڑی تفصیلات کے ساتھ ان حقائق کا تذکرہ کیا
ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ انسان تفکر ( مراقبہ ) کے ذریعے عمومی حواس کی سرحد پار
کرکے ان روشنیوں سے جو ہمہ وقت فکر انسانی میں کارفرما ہیں نئے حواس کی تشکیل
کرسکتا ہے - یہی حواس اسے زمان و مکان کی پابندیوں سے آزاد کرتے ہیں یہاں تک کہ
انسان تجلی ذات کو پا لیتا ہے -
سورہ
الرعد کی پہلی تین آیتوں کا مفہوم ملاحظہ ہو
،ایسا مفہوم جو خود تشریح بھی ہے اور قدرت کے مربوط نظام کی تصویر بھی - بابا
صاحبؒ لکھواتے ہیں :
المر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ ۗ وَالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ
مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ (1) اللَّهُ
الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ
عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ
مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ
رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ (2) وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا
رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ
اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ
يَتَفَكَّرُونَ (3)
المرٰ - یہ
کتاب کی آیات ہیں - اس کتاب میں جو کچھ تجھ پر نازل ہوا ہے وہ سب مصدقہ ہے چاہے
اکثریت اسے تسلیم نہ کرے - اس کا نازل کرنے والا وہ الله ہے جس نے سماوات کی تعمیر
حق ( EQUATION
) پر کی ہے اور یہ بات تمہارے مشاہدے میں ہے -
یہ
بھی نہیں کہ وہ خود اس تعمیر سے ماوراء ہے - صرف اس کا حکم ہے جو تعمیر کر
رہا ہے چاند سورج بھی حکم ہی کے پابند ہیں - البتہ ان کو ہمیشگی نہیں ہے - ان سب
کی مدتیں معین ہیں -ایک مناسبت سے ردوبدل رونما ہوتا رہتا ہے - اس طرح تم اس نتیجہ
پر پہنچ سکتے ہو کہ یہی رد و بدل تمہیں ایک نہ ایک دن اپنے رب کے سامنے لا کھڑا
کرے گا - ( تم سمجھتے ہو رد و بدل کس وضع کا ہے ؟ اس کی طرز یہ ہے کہ ) الله
تعالیٰ کے بنائے ہوئے فارمولوں نے زمین کو پھیلاؤ عطا کردیا ہے -محسوسیت کی طرزیں یا
GRAVITATIONAL
FORMATION کشش ثقل ہیں جن میں بہاؤ FLOW
ہے - پھر ہم نے نتائج کو منفی NEGATIVE
اور مثبت POSITIVE بنایا نیز ابعاد DIMENSIONS
عطا کیں - چنانچہ الله تعالیٰ رات کے مظاہر سے دن کے مظاہر کو
چھپاتا ہے - یہ سارے نشانات اور سراغ ان لوگوں کے لئے ہیں جو تفکر کرتے ہیں –
یہاں
لفظی ترجمہ درج کیا جاتا ہے کہ مندرجہ بالا تشریح کی افادیت واضح ہوجائے -
المرٰ - یہ آیتیں ہیں ایک بڑی کتاب کی اور جو کچھ
آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے یہ حق ہے اور لیکن بہت سے آدمی ایمان
نہیں لاتے - الله وہ ہے کہ جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر اونچا کھڑا کردیا
چنانچہ تم ان کو دیکھ رہے ہو - پھر عرش پر قائم ہوا اور آفتاب اور ماہتاب کو کام
پر لگا دیا - ہر ایک ، ایک وقت معین تک اپنی راہ چلا جا رہا ہے - وہی ہر کام
کی تدبیر کرتا ہے اور دلائل کو صاف صاف بیان کرتا ہے تا کہ تم
اپنے رب کے پاس جانے کا یقین کرلو اور وہ ایسا ہے کہ اس نے زمین کو پھیلایا اور اس
میں پہاڑ اور نہریں پیدا کیں اور اس میں ہر قسم کے پھلوں سے دو دو قسم کے پیدا کئے
- رات سے دن کو چھپا دیتا ہے - ان امور میں تفکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں -
"
زمین
اپنے باسیوں کے لئے وسائل کے خزانوں سے بھری ہوئی ہے - وسائل کی پیداوار اور تقسیم
میں جو عوامل کام کرتے ہیں ، قرآن میں ان کا کئی جگہ تذکرہ ہے -سورہ الحجر آیت 19
- 23 میں الله تعالیٰ نے وسائل کی تخلیق کے جو فارمولے بیان کئے ہیں ، ان کا مفہوم
قلندر بابا اولیاؒء اس طرح بیان کرتے ہیں۔
"ہم
نے زمین کو TENSOR CALCULUS بنایا ہے یعنی غبارے کی طرح اس میں ہوا بھر
دی ہے - ایسی ہوا جو محسوسیت کی حد سے باہر ہے اور اس کے اندر کشش ثقل پیدا کردی
ہے یعنی مختلف اور معین پریشر ڈال دیا ہے - چنانچہ اس ہی پریشر کی مناسبت سے ہم نے
زمین کی حدود میں متعین اور مختلف
روئیدگیاں پیدا کردی ہیں ( روئیدگیوں سے مراد نباتات ،
جمادات اور حیوانات ہیں ) ساتھ ساتھ معین روئیدگیاں ایک دوسرے کے لئے معاش
ہیں -الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ معاش تم نہں
دیتے ہو ، ہم دیتے ہیں اس لئے کہ معاش کےذرائع ہم نے پیدا کئے ہیں - ہمارے ہی پاس
ہر چیز کے خزانے ہیں جن کی تقسیم کا طریقہ ہم ہی جانتے ہیں ، جن کو تم بھی محسوس
کرسکتے ہو - مثلاً ان ہواؤں کو جن میں لائف اسٹریم ہے یعنی ماءجو ہم آسمانوں سے
نازل کرتے ہیں - یہ وہی ماء ہے جو تمہارے لئے حیات بنتا ہے - تمہارے پاس
لائف اسٹریم یعنی ماء کا کوئی خزانہ نہیں - ہم اس لائف اسٹریم کو دے کر زندہ
کردیتے ہیں اور جب واپس لے لیتے ہیں تو آدمی مر جاتا ہے اور ہم ہی ہیں جو ان
معاملات میں تمہاری سرپرستی کرتے ہیں ، تمہارے کاموں کو پورا کرتے ہیں اور تمہاری
چیزوں کو انجام تک پہنچادیتے ہیں –
قرآن
پاک کا ایک اسلوب بیان یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف مظاہر کی قسمیں کھا کر
ایسے ضابطوں کی طرف زور دے کر توجہ دلائی ہے جو مظاہر کی بنیادوں میں کارفرما ہیں
- اس اسلوب بیان کا مختلف سورتوں کی ابتداء میں ہونا اس کی اہمیت کو اجاگر
کرتا ہے - اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ان مظاہر کی
حیثیت فی الواقع کیا ہے ؟ اور یہ تخلیق کی تدوین میں کیا کردار انجام دیتے ہیں ؟
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ
وَالْاَرْضِ ۗ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۗ الْمِصْبَاحُ فِىْ
زُجَاجَةٍ ۗ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ
مُّبٰـرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَّـكَادُ
زَيْتُهَا يُضِىْۤءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۗ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ ۗ
يَهْدِى اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۤءُ ۗ وَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ
لِلنَّاسِۗ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ ۙ
ترجمہ : الله نور ہے آسمانوں اور زمین کا
، اس نور کی مثال طاق کی مانند ہے جس میں چراغ رکھا ہو اور وہ چراغ شیشے کی قندیل
میں ہے - قندیل ایسی ہے جیسے ایک روشن ستارہ ، اس میں مبارک درخت کا تیل جلایا
جاتا ہے یعنی وہ زیتون ہے - نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف - اس کا تیل ایسا کہ
ابھی سلگ اٹھے گا ابھی اس میں آگ نہ لگی ہو - نور پر نور ہے - الله راہ دیتا ہے
نور کی جسے چاہے اور الله مثالیں بیان کرتا ہے لوگوں پر - اور الله ہر شئے کا علم
رکھتا ہے -( سورہ نور - آیت 35 )
تمام
موجودات ایک ہی اصل سے تخلیق ہوتی ہیں خواہ وہ موجودات بلندی کی ہوں یا پستی کی -
ہم ساخت کی ترتیب کو حسب ذیل مثال سے واضح کرسکتے ہیں -
شیشے
کا ایک بہت بڑا گلوب ہے ، اس گلوب کے اندر دوسرا گلوب ہے - اس دوسرے گلوب کے اندر
ایک تیسرا گلوب ہے - اس تیسرے گلوب میں حرکت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور یہ حرکت شکل و
صورت ، جسم و مادیت کے ذریعے ظہور میں آتی ہے -
پہلا
گلوب تصوف کی زبان میں نہر تسوید یا تجلی کہلاتا ہے - یہ تجلی موجودات کے ہر ذرہ
سے لمحہ بہ لمحہ گزرتی رہتی ہے تاکہ اس کی اصل سیراب ہوتی رہے - دوسرا گلوب نہر
تجرید یا نور کہلاتا ہے - یہ بھی تجلی کی طرح لمحہ بہ لمحہ کائنات کے ہر ذرہ سے
گزرتا رہتا ہے -
تیسرا
گلوب نہر تشہید یا روشنی کا ہے - اس کا کردار زندگی کو برقرار رکھتا ہے - چوتھا
گلوب نسمہ کا ہے جو گیسوں کا مجموعہ ہے - اس ہی نسمہ کے ہجوم سے مادی شکل و صورت
اور مظاہرات بنتے ہیں -
الله
تعالیٰ کے یہ چاروں تسلط مسلسل اور مستقل ہیں - ان میں سے کوئی تسلط اگر منقطع
ہوجائے تو کائنات فنا ہوجائے گی - وہ تسلط خالقیت کا ہو ، مالکیت ہو یا عطائے
زندگی کا ہو یا عطائے نسمہ کا -
نمبر-1
- کائنات کا لاشعور ، نہر تسوید –
نمبر
- 2 - کائنات کا شعور ، نہر تجرید –
نمبر
-3 - کائنات کا ارادہ ، نہر تشہید –
نمبر-
4 - کائنات کی حرکت ، نہر تظہیر ہے -
إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ
الرَّحِيمِ(۲۰)
ترجمہ
: شروع الله کے نام سے جو بڑا رحمٰن اور رحیم ہے -
بسم اللہ کی تفسیر فرماتے ہیں:
لوح محفوظ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی فرد دوسرے
فرد سے روشناس ہوتا ہے تو اپنی طبیعت میں اس کا اثر قبول کرتا ہے - اس طرح دو
افراد میں ایک فرد اثر ڈالنے والا اور دوسرا فرد اثر قبول کرنے والا ہوتا ہے -
اصطلاحاً ہم ان دونوں میں سے ایک کا نام حساس اور دوسرے کا نام محسوس رکھتے ہیں -
حساس
محسوس کا اثر قبول کرتا ہے اور مغلوب کی حیثیت رکھتا ہے - مثلاً زید جب محمود کو
دیکھتا ہے تو محمود کے متعلق اپنی معلومات کی بنا پر کوئی رائے قائم
کرتا ہے - یہ رائے محمود کی صفت ہے جس کو بطور احساس زید اپنے اندر قبول کرتا
ہے - یعنی انسان دوسرے انسان یا کسی چیز کی صفت سے مغلوب ہوکر اور اس چیز کی
صفت کو قبول کرکے اپنی شکست اور محکومیت کا اعتراف کرتا ہے -
یہاں
آکر انسان ، حیوانات ، نباتات ، جمادات سب کے سب ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں
اور انسان کی افضلیت گم ہوکر رہ جاتی ہے - اب یہ سمجھنا ضروری ہوگیا کہ آخر انسان
کی وہ کون سی حیثیت ہے جو اس کی افضلیت کو قائم رکھتی ہے اور اس حیثیت کو حاصل
کرنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے ؟...
انبیاء
اس حیثیت کو حاصل کرنے کا اہتمام اس طرح کیا کرتے تھے کہ وہ جب کسی چیز کے متعلق
سوچتے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم نہیں کرتے تھے -
ہمیشہ ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک الله
تعالیٰ ہے - کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہ راست نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ
الله تعالیٰ کی معرفت ہے -
رفتہ
رفتہ ان کی یہ طرز فکر مستحکم ہوجاتی تھی اور ان کا ذہن ایسے رجحانات پیدا کرلیتا
تھا کہ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تھے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے
الله تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا - انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر
یہ احساسعادتاً ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی -
اس چیز کا اور ہمارا واسطہ الله تعالیٰ کی وجہ سے ہے -
جب
ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی تو ان کے ذہن کی ہر حرکت میں الله تعالیٰ کا احساس ہوتا
تھا - الله تعالیٰ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب اور مد نظر قرار پاتا تھا
اور قانون کی رو سے الله تعالیٰ کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھیں - رفتہ رفتہ
الله تعالیٰ کی صفات ان کے ذہن میں ایک مستقل مقام حاصل کرلیتی تھیں یا یوں کہنا
چاہیئے کہ ان کا ذہن الله تعالیٰ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا - یہ مقام حاصل
ہونے کے بعد ان کے ذہن کی ہر حرکت الله تعالیٰ کی صفات کی حرکت ہوتی تھی اور الله
تعالیٰ کی صفات کی کوئی حرکت قدرت اور حاکمیت کے وصف سے خالی نہیں ہوتی - چنانچہ
ان کے ذہن کو یہ قدرت حاصل ہوجاتی تھی کہ وہ اپنے ارادوں کے مطابق موجودات کے کسی
ذرہ ، کسی فرد اور کسی ہستی کو حرکت میں لاسکتے تھے -
بسم
الله شریف کی باطنی تفسیر اس ہی بنیادی سبق پر مبنی ہے - اولیائے کرام میں اہل
نظامت ( الله کی ایڈمنسٹریشن کے کارندے ) کو الله تعالیٰ کی طرف سے یہی ذہن عطا
کیا جاتا ہے اور قرب نوافل والے اولیائے کرام اپنی ریاضت اور مجاہدوں کے ذریعے اس
ہی ذہن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں –
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا
أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (82)
" اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا
ارادہ کرتا ہےتو کہتا ہے " کن " ( ہوجا ) پس وہ ہوجاتی ہے ( فیکون )
" ...
"
کن فیکون " پر ایک مختصر روشنی بابا صاحبؒ یوں ڈالتے ہیں -
1-
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ چیز ہوچکی اور ماضی میں چلی گئی
2
- نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز ہورہی ہے اور نامکمل ہے -
3
- اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز نافذ العمل ہے اور مکمل ہے یعنی مکمل صورت میں نافذ
العمل ہے - وضاحت اس کی یہ ہوئی کہ وہ چیز لازمانیت میں مکمل ہوچکی اور زمانیت میں
نافذ العمل ہے -
4
- صرف ایک سیکنڈ ( وقفہ کا چھوٹے سے چھوٹا یونٹ ) ہے جو حقیقی ہے اور اس ایک سیکنڈ
کی تقسیم سے ازل تا ابد کا وجود صادر ہوا ہے یعنی وہ ایک حقیقی سیکنڈ
تقسیم ہوکر وقت کے لامتناہی یونٹوں میں رونما ہورہا ہے -
5
- اس ایک سیکنڈ کے تکوینی مراحل کا اظہار اس عمل پر ہے کہ اس کی تقسیم لامتناہی
یونٹوں کی شکل و صورت اختیار کرلے - اس شکل و صورت کا نام مظاہر کائنات یا عالم
ناسوت ، جبروت اور لاہوت ہے -
وَمَا
كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ
أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ
حَكِيمٌ (51)
ترجمہ : کسی بشر کی طاقت نہیں کہ الله سے
کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا حجاب کے پیچھے سے یا کوئی رسول بھیج دے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے - بے شک وہ بلند
مرتبہ حکمت والا ہے ۔ ( سورۂ الزخرف - 51 )
..."وحی اسے کہتے ہیں
کہ جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہوجائے پردے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجائے
- اسی آیت میں ہے کہ اسے آواز آتی ہے - فرشتہ کے ذریعہ یا رسول کے ذریعہ - اس کے
معنی یہ ہیں کہ فرشتہ سامنے آتا ہے اور الله کی طرف سے بات کرتا ہے - حجاب
کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طرح بات کرتی ہے جیسے کہ وہ الله
تعالیٰ ہے حالانکہ وہ الله تعالیٰ نہیں بلکہ حجاب ہے -
یہاں
جو کچھ مزید کہنا ہے وہ یہ ہے کہ ہر فرد کو یہ توفیق ملی ہے - دیکھنے کی بات یہ ہے
کہ یہ تینوں چیزیں پردے کے پیچھے ہیں پردے کے اوپر نہیں ہیں - جب تک پردہ اٹھتا
نہیں ہے یہ تینوں طریقے بیدار نہیں ہوتے - یہ تینوں شکلیں اس صورت میں ظاہر ہوتی
ہیں جب انسان پردہ کے پیچھے دیکھنے کا عادی ہوجاتا ہے -
وحی
کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ وحی صرف انبیاء پر آتی ہے –
الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ:
ہم نے مریمؑ کی طرف وحی بھیجی ،
ہم شہد کی مکھی کی طرف وحی بھیجتے ہیں - شہد کی مکھی نبی نہیں ہے -
یہاں
یہ بات قابل بحث ہے کہ حضرت مریمؑ پر وحی نازل ہوتی تھی تو اس کے
ساتھ پھل ، پھول ، انگور وغیرہ آتےتھے جنہیں کھا کر وہ اپنی زندگی گزارتی
تھیں - اس کے معنی یہ ہوئے کہ عام وحی میں کھانے پینے کی چیزیں بھی شامل ہیں –
بابا
صاحبؒ نے سورہ طور کی ابتدائی سات آیات کا ترجمہ اور تشریح اس پیرائے میں بیان کی
ہے :
وَالطُّورِ (1) وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ (2) فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ
(3) وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ (4) وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ (5) وَالْبَحْرِ
الْمَسْجُورِ (6) إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ (7)
"ترجمہ ... "
قسم ہے پہاڑ کی اور بین السطور کتاب کی جو وسیع تر ورق ہے ، اور بیت المعمور کی ،
اور قدرت کی حد بندیوں کی ، اور نزول کرتے سمندر کی کہ آپ کے رب کی وعید کو پورا
ہونا ہے - "
تشریح
: الله تعالیٰ نے بار بار قرآن پاک میں لیل و نہار کا تذکرہ اس طرح
کیا ہے جس میں مظاہر قدرت کی طرف کھلا اشارہ پایا جاتا ہے - دن الله تعالیٰ کے
نزدیک الگ مظاہر کا مجموعہ ہے اور رات الگ مظاہر کا - ایسے مظاہر جو دن میں
رونما ہوتے ہیں ، رات میں رونما نہیں ہوتے اور ایسے مظاہر جو رات میں رونما ہوتے
ہیں ، دن میں رونما نہیں ہوتے - یہ وہی مظاہر ہیں جن سے قلبی واردات بنتی ہے اسی
قلبی واردات کا نام حواس ہے -دن کی روشنی میں انسان کے دیکھنے ، سننے اور سمجھنے
کی طرزیں رات کی طرزوں سے بالکل الگ ہوتی ہیں - کئی ایسی چیزیں جو دن کے وقت بشاشی
اور شگفتگی لاتی ہیں ، رات میں خوف و دہشت پیدا کرتی ہیں - غور کرنے سے یہ بات
سمجھ میں آتی ہے کہ دن رات کس درجہ مختلف ہیں -مصنوعی روشنیوں کے ذریعے رات کو
کتنا ہی منور بنا لیا جائے ، وہ دن کے مظاہر پیدا نہیں کرسکتی اور دن کو کتنا ہی
خاموش اور پرسکون بنا لیا جائے ، وہ رات کے مظاہر پیدا نہیں کرسکتا - یہ سب قدرت
کے ضابطے ہیں اور ایسے فارمولے ہیں جنہیں الله تعالیٰ نے کتاب مسطور فرمایا ہے -
اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے والطور فرمایا ہے یعنی پہاڑ کی قسم کھائی ہے - یہ قسم
عنوان ہے ان ہی مظاہر کی کتاب کا - الله تعالیٰ نے پہاڑ کے بارے میں قرآن کے
اندر ہی وضاحت کردی ہے کہ " تم دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ جمے
ہوئے ہیں -"ان الفاظ سے الله تعالیٰ انسانی مشاہدہ کو رد کردیتے ہیں اور
حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں - گویا ان پہاڑوں کی جو حیثیت انسانی نگاہ میں ہے
صحیح نہیں ہے - دراصل یہ مظاہر قدرت کے رازوں کا گہوارہ ہیں - ہیں تو یہ گردش میں
اور تیز گردش میں اور ساتھ ہی ایسے پریشر کے بانی ہیں جس سے زمین کے مظاہر کی
نوعیتیں رد و بدل ہوتی ہیں -آیت نمبر 1 میں اور 2 میں یہی بات بیان کی گئی
ہے - پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ کتاب وسیع تر ورق کی حیثیت رکھتی ہے یہاں
تک کہ یہ کتاب وسیع ترین آبادیاں اور بلند ترین آسمانی رفعتیں اسی کے اندر سما
جاتی ہیں - صرف یہی نہیں کہ یہ کتاب اور وسیع تر ورق کو محیط ہے بلکہ نازل ہونے
والے تمام مظاہر کے سمندر اسی سے وابستہ ہیں -یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ایک روز ان
سب کا اتمام ہوجائے - جس طرح مظاہر کی ابتداء ہوئی ، ان کی انتہا بھی ہے -
پھر وہ لوگ جو تیرے رب کے نافرمان ہوگئے ان کے لئے عذاب کی بشارت ہے -
اوپر
کی سطروں میں بیان کردہ قرانی آیات کی تشریح اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ قرآن پاک
علوم و معارف کا خزینہ ہے اور اس میں وہ تمام فارمولے بیان کئے گئے ہیں جن کے
ذریعے ہم ان طریقوں سے اس لئے واقف نہیں ہیں کہ ہم نے تفکر کی راہ کو چھوڑ دیا ہے
اور خلوص پر مبنی جدوجہد کی بجائے تقلید اور جمود کا شکار ہوگئے ہیں –
قدرت نےقلندر بابا اولیاؒء کو کائناتی فارمولوں اور اسرار الٰہی کا امین بنایا۔ ہم ذیل میں قلندر بابا
اولیاء کی تحر یر کردہ چند آیات قرآنی کی روحانی تفسیر پیش کر رہے ہیں۔
سورۃ قمر کی آیت ۱۷ کی
تفسیر یوں فرمائی:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا
الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (22)
اور ہم نے قرآن کو سمجھنا آسان کردیا ہے
-ہے کوئی سمجھنے والا ؟ ( سورۂ القمر )
ہم
نے قرآن کو سمجھنا آسان کردیا تو ہے کوئی سمجھنے والا ، اس میں کسی جگہ یہ شرط
نہیں کہ مخاطب عربی جانتا ہو یا اس نے عربی پڑھی ہو - اس کے معنی بہت ہی سادہ ہیں
کہ چاہے وہ کسی بھی ملک کا رہنے والا ہو ، چاہے اس
کی مادری زبان کوئی بھی ہو ، چاہے اس نے عربی کا ایک لفظ بھی نہ سنا ہو
، الله تعالیٰ نے قرآن کے معنی ضمیر کے ذریعہ اس کے لئے صاف کردیئے ہیں -
اس
کے معنی یہ ہوئے کہ الله تعالیٰ اس کے ذہن میں وہ باتیں ڈال دیتا ہے جو انسانیت کے
مطابق ہیں - یہ اس کا باطن ہے - ایسا نہیں سمجھنا چاہیئے کہ قرآن پاک عربی
جاننے والوں کے لئے یا صرف مسلمانوں تک محدود ہے - اس لئے کہ بہت سارے ایسے مسلمان
ملیں گے جو عربی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے مگر ان کا دھیان اس ان دیکھی طاقت کی
طرف جاتا ہے جس کی وہ عبادت کرتے ہیں ، جسے وہ مانتے ہیں ، جسے وہ خدا کہتے ہیں ،
جسے وہ اپنا باطن سمجھتے ہیں یا جسے وہ اپنے ضمیر کی آواز کہتے ہیں با الفاظ دیگر
جسے وہ کبھی Self کہتے ہیں ، جس سے وہ خود کو چھپا نہیں سکتے
اور جسے وہ حاضر و ناظر کہتے ہیں -
قدم
بقدم الله تعالیٰ انہیں ان کے ضمیر کے ذریعے سمجھاتا ہے کہ یہ افعال
انسانی ہیں یا غیر انسانی ہیں - اگر انسان وہ آواز نہیں سنتا اور اس کی پرواہ نہیں
کرتا تو وہ شخص سجین میں اپنا گھر بناتا ہے - پہلے وہ ادنیٰ میں آیا یعنی عالم
ناسوت میں آیا پھر زیادہ ادنیٰ میں چلا گیا یعنی سجین میں چلا گیا - ظاہر ہے کہ
سجین سے سب راستے سجین میں ہی کھلتے ہیں ، علیین میں کھل نہیں سکتے –
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ
(1) قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا (2) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا
(3) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (4) إِنَّا سَنُلْقِي
عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا (5) إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا
وَأَقْوَمُ قِيلًا (6) إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا (7) وَاذْكُرِ
اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا (8) رَبُّ الْمَشْرِقِ
وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا (9)
ترجمہ :
" اے کپڑوں میں لپٹنے والے ، رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی
رات یعنی نصف رات ( کہ اس میں قیام نہ کرو بلکہ آرام کرو ) یا اس نصف سے کسی قدر
کم کردو یا نصف سے کسی قدر بڑھا دو اور قرآن خوب خوب صاف پڑھو ( کہ ایک ایک حرف
الگ الگ ہو ) ، ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں - بے شک رات کے اٹھنے میں دل
اور زبان کی خوب موافقت ہوتی ہے اور بات خوب ٹھیک نکلتی ہے - بے شک تم کو دن میں
بہت کام رہتا ہے اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کرکے اس ہی کی طرف
متوجہ رہو - وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے - اس کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں -
"( سورہ مزمل )
جب ہم آدمی کی پوری زندگی کا تجزیہ
کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی زندگی کا نصف لاشعور کے اور نصف
شعور کے زیر اثر ہے - پیدائش کے بعد انسانی عمر کا ایک حصہ قطعی غیر شعوری حالت
میں گزرتا ہے –
پھر ہم تمام زندگی میں نیند کا وقفہ شمار
کریں تو وہ عمر کی ایک تہائی سے زیادہ ہوتا ہے - اگر غیر شعوری عمر اور نیند کے
وقفے ایک جگہ جمع کئے جائیں تو پوری عمر کا نصف ہوں گے - یہ وہ نصف ہے جس کو انسان
لاشعور کے زیر اثر بسر کرتا ہے - ایسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا جس نے قدرت کے اس
قانون کو توڑ دیا ہو - چنانچہ ہم زندگی کے دو حصوں کو لاشعوری اور شعوری
زندگی کے نام سے جانتے ہیں - یہی زندگی کی دو قسمیں ہیں -
لاشعوری زندگی کا حصہ لازم غیر رب کی
نفی کرتا ہے اور اس نفی کا حاصل اسے غیر ارادی طور پر جسمانی بیداری کی شکل میں
ملتا ہے - اب اگر کوئی شخص لاشعور کے زیر اثر زندگی کے وقفوں میں اضافہ کردے تو
اسے روحانی بیداری میسر آسکتی ہے - اس اصول کو قرآن پاک نے سورۂ مزمل میں بیان
فرمایا ہے -
متذکرہ بالا آیات کی رو سے جس طرح جسمانی
توانائی کے لئے انسان غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے کا پابند ہے ، اس ہی
طرح روحانی بیداری کے لئے شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنا ضروری ہے - سورۂ مزمل
کی مذکورہ بالا آیات میں الله تعالیٰ نے یہی قانون بیان فرمایا ہے - جس طرح غیر
شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے جسمانی زندگی کی تعمیر ہوتی ہے اس ہی طرح
شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے -
جس چیز کو مذکورہ بالا عبارت میں لاشعور
کہا گیا ہے اور حضورعلیہ الصلوة والسلام کی زبان میں " نفس " اور قرآن
پاک کی زبان میں " حبل الورید " اس ہی کو تصوف کی زبان
میں " انا " کہتے ہیں - جب غیر رب کی نفی کی جاتی ہے اور"
انا " کا شعور باقی رہتا ہے تو یہی " انا " اپنے رب کی طرف صعود
کرتی ہے - جب یہ " انا " صعود کرکے صفت الہیہ میں جذب ہوجاتی ہے تو صفت
الہی کے ساتھ منسلک ہوکر حرکت کرتی ہے - " انا " کے صفت الہیہ میں جذب
ہوجانے کی کئی منزلیں ہیں - پہلی منزل ہے ایمان لانا ۔"
سورۃ قدر کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا
أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ
شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ
كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)
ترجمہ : ہم نے یہ اتارا شب قدر میں اور تمہیں
کیا ادراک کہ کیا ہے شب قدر - شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے سے - اترتے ہیں
فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر - امان ہے وہ رات صبح کے
نکلنے تک - ( سورۂ قدر )
شب قدر وہ رات ہے جس کا ادراک عام شعور سے ستر
ہزار گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ ایک رات کو ایک ہزار مہینے سے ستر ہزار گنے
( گنا ) کی مناسبت ہے - اس ادراک سے انسان کائناتی روح کا ، فرشتوں کا اور ان
امور کا جو تخلیق کے راز ہیں مشاہدہ کرتا ہے -
تصوف
میں اس ادراک کو فتح کے نام سے تعبیر کرتے ہیں - فتح میں انسان ازل سے ابد تک
معاملات کو بیداری کی حالت میں چل پھر کر دیکھتا اور سمجھتا ہے - کائنات کے بعید
ترین فاصلوں میں اجرام سماوی کو بنتا اور عمر طبعی کو پہنچ کر فنا ہوتے دیکھتا ہے
-
لاشمار
کہکشانی نظام اس کی آنکھوں کے سامنے تخلیق پاتے ہیں - اور لا حساب دور زمانی گزار
کر فنا ہوتے نظر آتے ہیں - فتح کا ایک سیکنڈ بعض اوقات ازل تا ابد کے وقفے کا محیط
بن جاتا ہے - "...✦
سورۃ اخلاص کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1) اللَّهُ الصَّمَدُ
(2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (4)
ترجمہ :کہہ دو الله ایک ہے - بے نیاز ہے - نہ
اس سے کوئی پیدا ہوا ۔اور نہ اسے کسی نے پیدا کیا اور نہ اس کا کوئی خاندان ہے۔(
سورہ اخلاص )
یہاں
الله تعالیٰ کی پانچ صفات بیان ہوئی ہیں -
پہلی
صفت وحدت یعنی وہ کثرت نہیں -
دوسری
صفت بے نیازی یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں -
تیسری
صفت یہ کہ وہ کسی کا باپ نہیں -
چوتھی
صفت یہ کہ وہ کسی کا بیٹا نہیں -
پانچویں
صفت یہ کہ اس کا کوئی خاندان نہیں -
یہ
تعریف خالق کی ہے اور خالق کی جو بھی تعریف ہوگی مخلوق کی تعریف کے برعکس ہوگی یا
مخلوق کی جو بھی تعریف ہوگی خالق کی تعریف کے برعکس ہوگی - اگر ہم خالق کی
تعریفاتی حدوں کو چھوڑ کر مخلوق کی تعریف بیان کریں تو اس طرح کہیں گے کہ خالق
وحدت ہے تو مخلوق کثرت ہے ، خالق بے نیاز ہے تو مخلوق محتاج ہے ، خالق باپ نہیں رکھتا
تو مخلوق باپ رکھتی ہے -
خالق
کا کوئی بیٹا نہیں لیکن مخلوق کا بیٹا ہوتا ہے ، خالق کا کوئی خاندان نہیں لیکن
مخلوق کا خاندان ہونا ضروری ہے - ثانی ہونا ، ذی احتیاج ہونا ، ذی اولاد ہونا ، ذی
والدین ہونا ، ذی خاندان ہونا مخلوقیت کی قدریں ہیں یہ قدریں مکان یعنی مظہرSpace
پر مشتمل ہیں لیکن خالقیت کی قدریں ان قدروں کے برعکس ہیں -
مخلوقیت
کی قدروں میں ابتداء ، انتہا ، اشتباہ ، عکس رنگ ( روشنی ) کی حد بندی اور ہر قسم
کا تغیر ہوتا ہے اور مختلف نوعوں میں مختلف شکل و صورت مختلف آثار و احوال پائے
جاتے ہیں ۔
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔