Topics
خرق
عادت یا کرامت کا ظہور کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ جب کسی بندہ کا شعوری نظام
لاشعوری نظام سے خود اختیاری طور پر مغلوب ہوجاتا ہے تو اس سے ایسی باتیں سرزد
ہونے لگتی ہیں جو عام طور سے نہیں ہوتیں۔ اور لوگ انہیں کرامت کے نام سے یاد کرنے
لگتے ہیں جو سب بھان متی ہے۔ روحانی علوم اور روحانیت بالکل الگ ہے۔۔۔ اعمال و
حرکات میں خرق عادت اور کرامت خود اپنے اختیار سے بھی ظاہر کی جاتی ہے اور کبھی
کبھی غیر اختیاری طور پر بھی سرزد ہوجاتی ہے۔ خرق عادت آدمی کے اندر ایک ایسا وصف
ہے جو مشق کے ذریعے متحرک کیا جاسکتا ہے۔
سلسلہ
عظیمیہ کے صاحب دل اور صاحب مقام بزرگ ڈاکٹر عبدالقادر صاحب جب حضور قلندر بابا
اولیاءؒ کی خدمت میں پہلی بار حاضر ہوئے تو ان کے پیش نظر دو باتیں تھیں۔ ایک یہ
کہ جاپان جاکر ٹریننگ حاصل کریں اور وولن اسپننگ ماسٹر (Woollen
Spinning Master) کا ڈپلومہ حاصل کریں۔ چنانچہ حضور بابا
صاحبؒ کی خدمت میں درخواست پیش کی گئی۔ حضور بابا جیؒ نے فرمایا ‘‘آپ کو ٹریننگ کے
لئے باہر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ بس آپ اسپننگ ماسٹر ہیں۔ ‘‘
بابا
صاحبؒ کے فرمانے کے بعد حالات کچھ اس طرح سے
پیش آئے کہ ولیکا مل میں جو جاپانی اسپننگ ماسٹر کام کرتا تھا وہ ملازمت چھوڑ کر
چلا گیا اور ہمارے یہ بزرگ اسپننگ ماسٹر کے عہدے پر کام کرنے لگے اور عرصہ دراز تک
کام کرتے رہے۔ دوسرا
مسئلہ شادی تھا۔ جس لڑکی سے ڈاکٹر صاحب شادی کرنا چاہتے تھے وہ ہندوستان میں تھی۔
تقسیم کے بعد یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اٹھارہ سال کے طویل انتظار کے بعد
ان صاحب کا خط موصول ہوا۔ خط لے کر یہ بزرگ عثمان آباد، لارنس روڈ والے گھر میں
حضور بابا صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
حضور بابا صاحبؒ نے خط
پڑھا اور پڑھنے کے بعد صرف اتنا فرمایا کہ:
آپ فلاں دن لاہور چلے
جائیں۔ وہاں شادی کریں۔ اسلام آباد اور مری میں ہنی مون منا کر واپس آجائیں۔
لاہور کی روئیداد بھی عجیب روئیداد ہے۔ جب یہ بزرگ لاہور میں بتائے
ہوئے مقام پر پہنچے تو پہلی ملاقات لڑکی کے والد سے ہوئی۔
یہ وہی صاحب تھے جن کی وجہ سے شادی نہیں ہوسکی تھی۔ نہایت اخلاق سے
پیش آئے اور گھر میں اندر لے گئے۔ لڑکی سے گفتگو ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ اب ان صاحب
سے شادی نہیں کرے گی کیوں کہ اب وہ ٹی بی اور سل جیسے مرض میں مبتلا ہوچکی ہے لیکن
سچی محبت کبھی کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ہمارے محترم بزرگ نے شادی کرلی۔
شادی کے بعد دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے نہایت خوش حال زندگی گزارتے رہے۔ ابھی
اٹھارواں مہینہ ختم نہیں ہوا تھا کہ بیوی اچانک داغ مفارقت دے گئی۔ یہ بھی قدرت کا
عجیب راز ہے کہ اٹھارہ سال کی مدت کے انتظار کی تشنگی اٹھارہ مہینوں میں ابھی پوری
نہیں ہوئی تھی کہ پھر جدائی کی دیوار بیچ میں آگئی۔ اس المیہ کا اتنا گہرا اثر ہوا
کہ ڈاکٹر صاحب تقریباً دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوگئے اور عشق مجازی میں جو ذہنی
یکسوئی حاصل ہوئی تھی وہ سب حضور بابا صاحبؒ کی طرف منتقل ہوگئی کہ حضور بابا جیؒ
اور ڈاکٹر صاحب میں دوری نہیں رہی۔ جس زمانے میں یہ المناک واقعہ پیش آیا ، ڈاکٹر
صاحب کی آسائش و آرام کی زندگی پر بڑے بڑے لوگ رشک کرتے تھے اور جب حضور قلندر
بابا اولیاءؒ کی زلف کے اسیر ہوئے تو تمام دنیوی آسائش کے سامان خود سے الگ
کردیئے۔ جس وقت اس عالی مقام بزرگ نے اپنا دنیاوی چولا بدلا، اس وقت ان کے پاس
تقریباً ڈیڑھ سو ٹائیاں تھیں اور اسی مناسبت سے سوٹ، مغرب کی دل دادہ ہستی نے اب
جو روپ اختیار کیا وہ یہ ہے۔ ایک کرتا، ایک لنگی، اللہ بس، باقی ہوس۔ حضور قلندر
بابا اولیاءؒ کی نظر کرم کا فیض ان کے اوپر اتنا محیط ہوا اور اس بزرگ ہستی نے اتنا
ریاض کیا کہ اب وہ سلسلہ عظیمیہ میں ایک عظیم مقام پر فائز ہیں۔
ایک
رات دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دو صاحبان کھڑے ہیں اور حضور
قلندر بابا اولیاءؒ سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ اس وقت
حضور بابا صاحبؒ سے ملاقات ممکن نہیں ہے۔ رات زیادہ ہوگئی ہے۔ میرے یہ کہنے پر ایک
صاحب نے اپنا منہ کھول دیا ۔ میں یہ دیکھ کر گھبرا گیا کہ ان کا منہ خون سے لبالب
بھرا ہوا تھا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے زمین پر خون تھوک دیا۔ حالت کیوں کہ
غیر معمولی تھی اس لئے میں نے ان صاحب کو بابا جیؒ کی خدمت میں پیش کردیا۔
بابا صاحبؒ کی خدمت میں پیش ہونے کے بعد وہی
صورت پیش آئی کہ ان صاحب نے اپنا منہ کھول کر دکھایا تو اتنی دیر میں منہ پھر خون
سے بھرا ہوا تھا۔ بابا صاحبؒ کے پوچھنے پر ان کے ساتھی نے بتایا کہ ایک ہفتے سے یہ
بیماری لاحق ہوگئی ہے کہ منہ میں خون آجاتا ہے اوریہ پانی کی طرح خون کی کلیاں
کرتے ہیں۔ ڈاکٹرخون کی بوتل چڑھاتے رہتے ہیں اور منہ سے خون خارج ہوتا رہتا ہے۔
ابھی تھوڑی دیر ہوئی خون کی بوند (Drop) ختم ہوئی تھی کہ
میں اِنہیں وہاں سے اُٹھا لایا۔ حضور بابا صاحبؒ نے آدھ منٹ کے لئے غور کیا اور جو
علاج تجویز فرمایا وہ یہ ہے:
"پرانے سے پرانا ٹاٹ لے کر اس کو جلا دیا جائے۔ جب ٹاٹ اچھی
طرح آگ پکڑے تو اس کے اوپر تَوا اُلٹا دیا جائے۔ تھوڑی دیر بعد ٹاٹ راکھ بن جائے
گا۔ اس جلے ہوئے ٹاٹ کو کھرل میں پیس کر شہد میں ملایا جائے اور صبح، شام، رات، تین
وقت یہ شہد مریض کو چٹایا جائے۔ "
وہ
دونوں صاحبان شکریہ ادا کرکے چلے گئے۔ میں کئی دن تک یہ سوچتا رہا کہ اس مریض کا
کیا بنا اور اس بات پر بار بار افسوس کرتا رہا کہ اگر میں پتہ پوچھ لیتا تو خیریت
معلوم ہوجاتی۔ چوتھے روز وہ
دونوں صاحبان پھر تشریف لائے۔ اب ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ اور حضور بابا
صاحبؒ کے گلے میں ڈالنے کے لئے گلاب کا ہار تھا۔
جس
زمانے میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ رسالہ نقاد، کراچی میں کام کرتے تھے، میرا یہ
معمول تھا کہ شام کو چھٹی کے وقت حاضر خدمت ہوتا اور حضور بابا صاحبؒ قبلہ کو اپنے
ساتھ لے کرنقاد کے دفتر سے کچھ دور رتن تالاب پر واقع اپنے جھونپڑے میں لے جاتا۔
وہاں ایک بہت خوبصورت نشست ہوتی تھی۔ غیر تعلیم یافتہ مگر بہت مخلص، تعلیم یافتہ
اور سلجھے ہوئے دوست تشریف لاتے تھے۔ ایک روز کا واقعہ ہے کہ میں دوپہر کو گھر آیا
تو ایک صاحب جن کا نام زبیر احمد انصاری تھا، مجھے ملے۔ انہوں نے بتایا کہ حضور
قلندر بابا صاحبؒ قبلہ اور دو اور بزرگ کمرے میں تشریف رکھتے ہیں اور اندر سے کنڈی
لگالی ہے۔ دروازے کے پاس میں نے بزرگوں کی سرگوشی سنی لیکن کوئی لفظ میرے کان میں
نہیں اترا۔ سوچا کہ بازار سے دودھ لے آؤ ں اور چائے بنالوں۔ چولھا جلا کر پانی
رکھا اور دودھ لینے چلا گیا۔ دودھ لے کر واپس آیا تو تینوں صاحبان تشریف لے جاچکے
تھے۔ بہت افسوس ہوا ۔ بہرحال، شام کو جب میں حضور بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو
لینے کے لئے نقاد کے دفتر پہنچا تو میں نے پوچھا۔ "حضور! دوپہر کے وقت آپ چلے
آئے۔ میں چائے پیش کرنا چاہتا تھا اور آپ کے ساتھ وہ بزرگ حضرات کون تھے؟"
فرمایا،
" بوعلی شاہ قلندرؒ اور خواجہ معین الدین چشتی ؓ تشریف لائے تھے۔ کچھ قانون
کے اوپر تبادلۂ خیال کرنا تھا۔"
مجھے
آج تک اس بات کا ملال ہے کہ میں نے دودھ لینے کے لئے زبیر کو کیوں نہیں بھیج دیا!
کاش ایسا ہوجاتا اور اس خاکسار کو حضور خواجہ غریب نوازؒ اور بوعلی شاہ قلندرؒ کی
جسمانی زیارت ہوجاتی!
ہمارے ایک دوست تھے مظفر صاحب یہ حضور بابا صاحبؒ کی حیات میں ہی
بروک بانڈکمپنی میں سیلز ڈائریکٹرتھے۔ حضور بابا صاحبؒ ہر اتوار کی شام کو ان کے
گھر تشریف لے جاتے اور بہت سارے لوگ جمع ہوکر اپنے مسائل پیش کرتے تھے۔ اللہ
تعالیٰ مظفر صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور بہت سی نعمتیں عطا کریں۔ حضور
بابا صاحبؒ کی انہوں نے بہت خدمت کی ہے۔ ایک روز پروگرام بنا کہ حضرت لعل شہباز
قلندرؒ اور شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ کے مزارات پر حاضری دی جائے۔ شاہ عبدالطیف
بھٹائی ؒ کے مزار مبارک میں جب سب لوگ اندر تشریف لے گئے اور فاتحہ پڑھی تو حضور
بابا صاحب ؒ تیزی کے ساتھ مزار سے متصل مسجدمیں چلے گئے۔ مسجد کے ایک گوشے میں بہ
نفس نفیس و بہ تمام کمال جسمانی طور پر اللہ کے دوست حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ
موجود تھے۔ حضور بابا صاحب قبلہؒ نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ ان سے مصافحہ کیا
اور عرض کیا۔
" شاہ صاحب ! میرے ساتھ اور بھی لوگ ہیں، وہ ڈر جائیں گے۔"
ان الفاظ کے ساتھ ہی شاہ صاحب ؒ بجلی کے کوندے کی طرح نظروں سے
اوجھل ہوگئے۔
ایک دفعہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ روشنی کی لہروں کے اتار
چڑھاؤ،لہروں کے ردو بدل اور لہروں کی مقداروں میں کمی بیشی سے قانون تخلیق کی وضاحت
فرما رہے تھے۔ آپ یہ بتا رہے تھے کہ مقداروں کے ردو بدل سے تخلیق میں تبدیلی واقع
ہوجاتی ہے اور کائنات میں موجود ہر شئے ان ہی لہروں کے تانے بانے سے بنی ہوئی ہے۔
جب نورانی لہریں نزول کرکے روشنی بنتی ہیں تو مختلف مظاہر وجود میں آجاتے ہیں۔
مادہ دراصل روشنیوں کا خلط ملط ہے۔ مثال میں جب نمک کا تذکرہ آیا اور نمک کے
اندر کام کرنے والی روشنیوں کا عمل دخل زیر بحث آیا تو میں نے عرض کیا۔
" حضور! اس کا مطلب
یہ ہوا کہ آدمی کے اندر نمک کی لہریں ہر وقت مشترک رہتی ہیں۔ نمک کی لہریں آتی
رہتی ہیں۔ ذخیرہ ہوتی رہتی ہیں اور خرچ ہوتی رہتی ہیں؟"
حضور بابا صاحب نے فرمایا:
" نمک جسم کے مسامات سے خارج ہوتا رہتا ہے اور جب مقداروں کے
مطابق خرچ نہیں ہوتا تو بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہوجاتا ہے اور مقداروں سے زیادہ خرچ
ہوتا ہے تو (LOW) لو بلڈپریشر لاحق ہوسکتا ہے۔"
مجھے کیا سوجھی کہ میں ایک کٹورے میں پانی بھر لایا اور عرض کیا ‘‘
یا شیخ! جب مسامات سے نمک خارج ہوتا رہتا ہے تو پانی میں انگلیاں ڈالنے سے پانی
نمکین ہوجاتا ہوگا۔’‘حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے کٹورے میں پانچوں انگلیاں ڈال دیں اور
کچھ دیر کے بعد ہاتھ نکال کر فرمایا۔ ‘‘چکھو!یا بدیع العجائب ! کٹورے کا پانی سمندر کے پانی کی طرح نمکین اور
کڑوا تھا۔
غالباً
لندن یا امریکہ سے ایک خاتون تشریف لائیں اور بتایا کہ ڈاکٹروں نے ان کے پیٹ میں
رسولی بتائی ہے جس کی وجہ سے وہ اولاد سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اللہ کی
رضا پر راضی رہنے والی بندی ہوں لیکن مشکل یہ پیش آگئی ہے کہ اولاد نہ ہونے کی وجہ
سے شوہر دوسری شادی کرنے پر بضد ہیں یہ کہہ کر وہ خاتون کچھ ایسی بے قراری سے
روئیں کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں اور روتے روتے انہوں نے اپنا سر حضور قلندر بابا
اولیاءؒ کے سینے پر رکھ دیا۔ حضور بابا صاحبؒ اس وقت لیٹے ہوئے تھے۔ آنسوؤں سے
قمیض بھیگی تو لگا کہ دل بھی بھیگ گیا ۔ حضور بابا صاحبؒ تیزی کے ساتھ اُٹھ کر
بیٹھ گئے۔
خاتون
سے فرمایا۔ ‘‘ سیدھی لیٹ جاؤ’‘۔ کچھ پڑھا، پڑھ کر انگشتِ شہادت پر پھونک ماری اور
انگلی سے رسولی کی جگہ ایک کراس (X) بنادیا۔ ڈاکٹروں
نے ٹیسٹ کیا تو پتہ چلا کہ رسولی ختم ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس خاتون کو اولاد
سے بھی نوازا۔
قدرت اپنے پیغام کو پہچا نے کے لئے دیے سے دیا
جلا تی رہتی ہے ۔ معرفت کی مشعل ایک ہا تھ سے دو سرے ہا تھ میں منتقل ہو تی رہتی
ہے۔ صوفی ، ولی ، غوث ،، قطب ، مجذوب ، اوتار ، قلندر ، ابدال قدرت کے وہ ہا تھ ہیں
جن میں رو شنی کی مشعل روشن ہے ۔یہ پا کیزہ لوگ اس رو شنی سے اپنی ذات کو بھی روشن
رکھتے ہیں اور دو سروں کو بھی رو شنی کا انعکاس دیتے ہیں۔
ان پاکیزہ اور قدسی نفسی
حضرات سے جب خرق عادت صادر ہوتی ہے تو کرامت کہلاتی ہے۔
قلندر بابا اولیاء کی
کرامات میں سے چند کرامات پیش کی جاتی ہیں۔
مجھے
کبوتر پالنے کا شوق تھا۔ ایک مرتبہ ایک فاختہ آکر کبوتروں کے ساتھ دانہ چگنے لگی۔
ایک کبوتر کے ساتھ اس کا جوڑا ملا دیا گیا۔ اس کے انڈوں سے جو دو بچے نکلے وہ اپنی
خوبصورتی میں یکتا اور منفرد تھے۔ پروں کا رنگ گہرا سیاہ اور باقی جسم سفید تھا۔
ان کے اندر اس قدر کشش تھی کہ جو دیکھتا تعریف کئے بغیر نہ رہتا۔ شامت اعمال، ایک
روز صبح سویرے بلی نے ایک کبوترکوپکڑا اور چھت پر لے گئی۔ میں نے جب بلی کے منہ
میں یہ کبوتر دیکھا تو میں اس کے پیچھے دوڑا۔ اوپر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ بلی نے
کبوتر کے بال و پر الگ کردیئے ہیں اور بیٹھی اسے کھا رہی ہے۔ غصہ تو بہت آیا مگر
پھر سوچا کہ کبوتر تو اب مر ہی چکا ہے، بلی کو ہی پیٹ بھرنے دیا جائے اور جب یہ
کبوتر کھاچکے گی تو اسے سزا دوں گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نیچے چلا گیا۔ لیکن مجھے
اتنا شدید صدمہ تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ حضوربابا صاحب قبلہؒ پہلی
منزل کے کمرے میں تخت پر تشریف فرما تھے۔ میں نے حضرت سے احتجاجاً عرض کیا کہ بلی
نے میرا کبوترمار دیا ہے۔ حضور بابا صاحبؒ نے فرمایا ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے
جواباً عرض کیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے بلی میرا کبوتر لے جائے، یہ بات میری سمجھ میں
نہیں آتی۔ یہ کہنے کے بعد میں دل برداشتہ باورچی خانے میں جاکر ناشتہ تیار کرنے
لگا۔ میرے حضور بابا جیؒ نے مجھے آواز دی لیکن غصے نے مجھے گستاخی پر مجبور کردیا
اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوبارہ آواز دی۔ وہ بھی میں نے ان سنی کردی۔
یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب بھائی محسن صاحب بھی
میرے ساتھ رہتے تھے ۔ حضور بابا صاحبؒ نے بھائی محسن کو آواز دی اور میرے بارے میں
دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ صاحب کو کبوتر کے مرنے کا بہت صدمہ ہے اور وہ
باورچی خانے میں بیٹھے رو رہے ہیں۔ حضور بابا صاحبؒ ان کی اس بات سے متاثر ہوئے اور
فرمایا
"خواجہ صاحب کو بلاؤ اور ان سے کہو کہ انکا
کبوتر آگیا ہے۔"
بھائی
محسن صحن میں آئے تو دیکھا کہ وہ کبوتر دوسرے کبوتروں کے ساتھ موجود تھا۔ بھائی
محسن نے یہ بات مجھے بتائی تو میں نے اس کو مذاق پر محمول کیا اور سمجھا کہ یہ بات
میری دل جوئی کے لئے کہہ رہے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ آپ باہر
جاکر دیکھیں تو سہی تومیں بے یقینی کے عالم میں اُٹھ کر صحن میں آیا۔ دیکھا تو
کبوتر موجود تھا۔ کبوتر کو دیکھتے ہی میں دوبارہ دوڑا ہوا چھت پر گیا اور تخت کے
نیچے دیکھا تو وہاں خون کے دھبے اور کچھ پر پڑے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے شدید
ندامت اور شرمندگی ہوئی ۔ میں نے نیچے آکر حضور بابا صاحبؒ کے پیر پکڑ لئے اور
اپنی گستاخی کی معافی چاہی۔ شام ہونے سے پہلے پہلے سارے کبوتر تقسیم کردیئے۔
حضور
بابا صاحبؒ کی خدمت میں ایک لڑکی کو پیش کیا گیا جو پیدائشی طور پر گونگی اور بہری
تھی۔ جن لوگوں نے حضور قلندر بابا اولیاءؒ کو قریب سے دیکھا ہے وہ یہ بات اچھی طرح
جانتے ہیں کہ ان کے مزاج میں احتیاط بہت تھی اور وہ کرامات سے طبعاً گریز فرماتے
تھے۔
اس دن نہ معلوم کون سا وقت تھا کہ حضور بابا جیؒ
نے لڑکی کو مخاطب کرکے فرمایا۔ "تیرا نام کیا ہے؟"
ظاہر
ہے گونگی بہری لڑکی کیا جواب دیتی۔ خاموش رہی ۔
دوسری دفعہ آپ نے پھر فرمایا، "بتا تیرا
نام کیا ہے؟"
لڑکی
پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔
تیسری
بار انہیں جلال آگیا۔ سخت غصہ کے عالم میں مارنے کے سے انداز میں ہاتھ اٹھایا اور
فرمایا، "بتا، تیرا نام کیا ہے؟"
اور
لڑکی نے بولنا شروع کردیا۔ میرا اندازہ ہے کہ اس وقت اس لڑکی کا سن سولہ، سترہ سال
کا ہوگا۔
حضور
بابا صاحبؒؒ کا معمول تھا کہ ہفتہ کے روز شام کے وقت وہ اپنے گھر جاتے تھے اور
اتوار کی شام واپس تشریف لے آتے تھے۔ ایک مرتبہ اتوار کے روز مغرب سے کچھ پہلے
بارش شروع ہوگئی، شدید اور موسلا دھار بارش۔ میں نے یہ سوچ کر کہ بارش بہت تیز ہے
اور حضور بابا جیؒ تشریف نہیں لائیں گے، گھر کے دروازے بند کردیئے اور سونے کے لئے
لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ حضور بابا جیؒ تخت پر بیٹھے ہوئے
ہیں۔ میں نے سمجھا کہ انتظار کرتے کرتے میں سوگیا تھا، اس لئے شاید خواب دیکھ رہا
ہوں۔ لیکن جب میں چارپائی پر اُٹھ کر بیٹھا تو بابا جیؒ نے مجھے آواز دی۔ میں حیرت
زدہ ہوکر نہایت تیزی کے ساتھ اور گھبراہٹ کے عالم میں چارپائی سے اُٹھا اور بابا
صاحبؒ کے قریب جاکر پوچھا۔ '' اتنی تیز بارش میں آپ کیسے تشریف لائے؟’ ''بابا جیؒ مسکرائے اور فرمایا۔"بس، میں آگیا۔"
میں
نے بابا صاحبؒ کی شیروانی اٹھائی تاکہ اس کو کھونٹی پر لٹکا دوں تو یہ دیکھ کر
مزید حیران ہوا کہ شیروانی کے اوپر پانی کی ایک بوند بھی نہیں تھی۔ میں نے پھر عرض
کیا۔ "آپ اس طوفانی بارش میں لارنس روڈ سے ناظم آباد تشریف لے آئے اور آپ کی
شیروانی بھیگی تک نہیں ؟"
بابا
صاحبؒ نے تبسم فرمایا اور کہا ۔ "خواجہ صاحب! ٹائم اسپیس محض مفروضہ ہے۔ یہ
بات ابھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئےگی۔"
ایک
رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا کہ بابا صاحبؒ نے ارشاد فرمایا :
"مچھلی
مل جائے گی؟"
میں
نے عرض کیا، "حضور! ساڑھے گیارہ بجے ہیں۔ میں کوشش کرتا ہوں کسی ہوٹل میں
ضرور ملے گی۔"
بابا
صاحبؒ نے فرمایا، "نہیں، ہوٹل کی پکی ہوئی مچھلی میں نہیں کھاتا ۔ گھر میں
پکی ہوئی مچھلی کو دل چاہ رہا ہے۔"
میں
شش وپنج میں پڑگیا کہ اس وقت کچی مچھلی کہاں سے ملے گی۔ اس زما نے میں ناظم آباد
کی آبادی بہت کم تھی۔ بہرحال، میں نے اپنے دل میں یہ سوچ لیا کہ مچھلی ضرور تلاش
کرنی چاہیئے۔
یہ سوچ کر میں نے ٹوکری اٹھائی تو بابا صاحبؒ نے
فرمایا، ‘‘اب رہنے دو۔ صبح دیکھا جائے گا۔’‘
ایک
گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ باہر جاکر دیکھا تو ایک
صاحب ہاتھ میں رہو مچھلی لئے کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا
"
میں ٹھٹھہ سے آرہا ہوں اور یہ مچھلی بابا قلندر ؒ کی نذر ہے۔"
یہ
کہتے ہی وہ رخصت ہوگئے۔
میرا نکاح ڈھاکہ، سابق مشرقی پاکستان میں ہوا تھا، نکاح کے وقت مہر
کے مسئلے پر اختلاف ہوگیا۔ سسرال والوں کا کہنا یہ تھا کہ مہر کی رقم زیادہ ہونی
چاہیئے۔ میں اس بات پر بضد تھا کہ مہر کی رقم اتنی ہونی چاہیئے جو میں ادا کرسکوں۔
جب فریقین کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے تیار نہیں ہوئے تو میں نے دیکھا کہ قلندر
بابا ؒ میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ وہ اس وقت کراچی میں تھے۔
فرمایا، "لڑکی والے
جو مہر باندھ رہے ہیں اسے قبول کرلو۔"
میں نے عرض کیا، "مجھ میں اتنی استطاعت نہیں ہے۔"
بابا جیؒ نے ذرا لہجہ بدل کر فرمایا، " ہم جو کہہ رہے ہیں اس
کی تعمیل کرو۔"چنانچہ راضی خوشی نکاح کی تقریب پوری ہوگئی۔
میں
اکثر رات کو قلندر بابا ؒ کی کمر دباتے وقت یہ دیکھتا تھا کہ چھت اور دیواروں میں
سے دودھیا رنگ کی روشنی پھوٹ رہی ہے۔ اندھیرے کمرے میں یہ روشنی اچانک نمودار ہوتی
تو میں بعض اوقات سخت خوف زدہ ہوجاتا تھا۔ ایک رات میں اتنا خوف زدہ ہوا کہ جسم لرزنےلگا۔
بابا
جیؒ نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ‘‘ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ یہ
مردانِ غیب ہیں۔ ‘‘
پھر
یہ بات تقریباً روزانہ کا مشاہدہ بن گئی کہ حضور بابا صاحبؒ لیٹے ہوئے ہیں ، میں
کمر دبا رہا ہوں اور کوئی صاحب حضور بابا صاحبؒ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے ہیں۔ میں نے
اکثر یہ بھی دیکھا کہ یکایک چکا چوند روشنی ہوگئی اور کوئی فرشتہ بابا صاحبؒ کی
خدمت میں حاضر ہوا۔ بابا صاحبؒ نے کچھ ہدایات دیں اور وہ چلا گیا۔
کبھی
کبھی بابا صاحبؒ کے سینے میں سے خوشبو کی لپٹیں اُٹھتی تھیں اور یہ خوشبو مشک کی
ہوتی تھی۔ جب ایسا ہوتا تو میں بابا صاحبؒ کے مقدس سینے پر سر رکھ کر اس خوشبو کو
سونگھتا تھا اور میرے اوپر مستی اور بے خودی کی ایک کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔
ایک
روز حضور بابا صاحبؒ گھٹنوں کو ہاتھوں کے حلقے میں لئے بیٹھے تھے۔ میں نے حضور
بابا جیؒ کے پیروں پر اپنا سر رکھ دیا اور ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ میں سو گیا۔ اس
وقت دن کے دس بجے تھے۔ جب میری آنکھ کھلی تو شام کے چار بج رہے تھے۔ مسلسل چھ
گھنٹے تک حضور بابا صاحبؒ نے اپنی نشست نہیں بدلی اور ایک ہی نشست سے بیٹھے رہے
تاکہ میری نیند خراب نہ ہو۔ بیدار ہونے کے بعد جب میں نے گھڑی دیکھی تو ندامت سے
میری پیشانی عرق آلود ہوگئی۔
جب کہ مشہور یہ ہے
کہ چولستان کے جنگل میں بھٹکے ہوئے راہی کی لاش تک نہیں ملتی۔ قصہ کوتاہ، کبوتر کا
کچا گوشت کھانے سے معدہ اور آنتوں کا نظام درہم برہم ہوگیا اور پیچش کی شکایت لاحق
ہوگئی جو ہر قسم کا علاج کرنے کے باوجود ختم نہیں ہوئی۔ جب تکلیف حد سے بڑھ گئی تو
حضور بابا صاحبؒ نے فرمایا:
"آپ میرے پاس لیٹ جائیں۔ میں آج آپ کا معدہ
تبدیل کرکے پرانے معدہ اور پرانی آنتوں کی جگہ نیا معدہ اور نئی آنتیں بنادیتا
ہوں۔"
"بس! اب ٹھیک
ہے۔ چھ مہینے تک آپ ایسی غذائیں کھائیں جو بچوں کو دی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ اب آپ
کا معدہ اور آنتیں بالکل نئی ہیں۔ "
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی کرامت کا اعجاز ہے کہ چوبیس سال گزرنے
کے بعد بھی بابا صاحبؒ کے اس غلام کو کبھی پیچش کی شکایت لاحق نہیں ہوئی ۔
فلاں آیت پڑھو۔ میں نے تلاوت کی۔ پھر فرمایا
"اس آیت کا سات بار ورد کرو۔"
ساتویں مرتبہ جب
میں نے اس آیت کو پڑھا تو نظروں کے سامنے سے پردہ ہٹا اور یہ بات مشاہدے میں آئی
کہ ہر شئے میں اللہ بستا ہے۔ دیوار کی طرف نظر اٹھی تو یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب
گیا کہ دیوار فی نفسہٖ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس دیوار کو اللہ تعالیٰ سنبھالے
ہوئے ہیں۔ غسل خانے میں جاکر ٹونٹی کھولی تو یہ بات مشاہدے میں آئی کہ نلکے سے
بہنے والے پانی میں بھی خدا ہی جلوہ گر ہے۔ مسلسل اور لگاتار اڑتالیس گھنٹے اس
مشاہدے کے بعد مجھ پر استغراق طاری ہوگیا۔ بابا صاحبؒ نے پھر توجہ کی اور آہستہ
آہستہ یہ کیفیت معمول پر آگئی۔
خلافِ معمول حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔
"ان کو زمین پر بٹھا دو۔
"بابا صاحبؒ
نے ان بزرگ مریض کے سر پر ہاتھ رکھا۔ جسم نے پہلے ایک جھرجھری لی اور پھر تیز قسم
کے تین جھٹکے لگے۔
بابا صاحبؒ نے
فرمایا۔"آپ
کھڑے ہوجائیں۔"
مریض نے تکلف کیا اور کہا "کھڑا
نہیں ہوسکتا۔"
بابا صاحبؒ نے پھر فرمایا، " آپ کھڑے ہوجائیں!"
وہ صاحب میکانکی طورپر کھڑے ہوگئے
اور اپنے پیروں سے چل کر سیڑھیاں اُترے اور گھر چلے گئے۔
کبھی کبھی یہ دیکھتا تھا کہ حضور
بابا جیؒ کے کمرے میں ایک جم غفیر ہے۔ جس میں عورتیں اور مرد شامل ہیں۔ بار بار یہ
منظر دیکھنے کے بعد میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ بابا صاحبؒ نے فرمایا ‘‘یہ سب
تمہارے پیر بھائی اور پیر بہنیں ہیں۔کافی عرصے بعد اس راز پر سے پردہ اُٹھا اور
میں یہ سمجھنے کے قابل ہوگیا کہ یہ سب نوع اجنّہ کی مخلوق تھی۔
" یہ درخت مجھ سے اس قدر باتیں کرتا ہے کہ
میں عاجز آگیا ہوں۔ میں نے اس سے کئی مرتبہ کہا ہے کہ زیادہ باتیں نہ کیا کر۔ میرے
کام میں خلل پڑتا ہے۔ مگر یہ سنتا ہی نہیں ۔
"بات رفت
گزشت ہوگئی۔ ایک روز صبح بیدار ہونے کے بعد دیکھا کہ درخت غائب ہے۔ بڑی حیرانی
ہوئی کہ اتنا بڑا درخت راتوں رات کہاں غائب ہوگیا۔ باہر جاکر دیکھا کہ درخت کو جڑ
سے کاٹ لیا گیا ہے۔ آج تک یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ اتنے بڑے درخت کو کس نے کاٹا
اورکیسے لے گیا۔ نیز درخت کاٹنے میں جب اس پر کلہاڑی پڑی ہوگی تو آواز بھی ہوئی
ہوگی۔ آنکھ بھی نہیں کھلی ۔ میں نے اس سلسلے میں حضور بابا صاحبؒ سے
پوچھا تو وہ مسکرا کر خاموش ہوگئے۔
ایک مرتبہ میں نے
حضور صاحبؒ کی خدمت میں عرض کیا ،
" دل چاہتا ہے کہ میں سیہون شریف ہو
آؤں۔"
فرمایا، " ابھی ٹھہر جاؤ۔"مختصر یہ کہ
لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر جانے کی خواہش ایک تقاضہ بن گئی اور میں بے چین و بے
قرار رہنے لگا۔ جب بھی جانے کی اجازت چاہتا ، بابا صاحبؒ یہی فرماتے" ابھی
ٹھہر جاؤ۔"
ایک ہفتہ یا کچھ دن گزر گئے تو سیہون شریف پہنچنے
کی خواہش دیوانگی کی شکل اختیار کرگئی۔ ایک روز بندر روڈ سے بس میں سوار ہوکر ناظم
آباد انکوائری بس اسٹاپ پر اُترا تو دیکھا کہ فٹ پاتھ پر لعل شہباز قلندر ؒ کھڑے
ہوئے ہیں۔ میں نے سلام کے بعد مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو قلندر صاحبؒ نے مصافحہ
کرنے کے بجائے ہاتھ کے اشارے سے مجھے منع کردیا اور فرمایا، "تم ہمیں بہت یاد
کررہے تھے۔ ہم خود ہی تمہارے پاس آگئے۔" تقریباً آدھ گھنٹے تک وہ میرے پاس
رہے اور پھر تشریف لے گئے۔
فرمایا "اللہ تعالیٰ کی حفاظت
و نصرت پاکستان کے ساتھ ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ حکم ہے
کہ پاکستان کی حفاظت کی جائے۔ چنانچہ تعمیل
ارشاد میں اہل تکوین نے ایک صاحب خدمت مقرر کیا ہے جو گاندھی گارڈن میں بیٹھا ہے۔
اس کے سپرد یہ خدمت ہے کہ کراچی کو بمباری سے نقصان نہ پہنچے۔ "
میں شوق کے عالم میں اس بندے کے پاس
پہنچا۔ اور سلام کیا۔
اس بندے نے سر اُٹھا کر سرخ سرخ آنکھوں سے مجھے
دیکھا اور کہا
‘‘ یہاں سے چلے
جاؤ۔’‘
صحیح یاد نہیں، غالباً دوسرے یا
تیسرے دن وہ بندہ سورج نکلنے سے پہلے گھر پر حاضر ہوا۔
میں نے جب ان کو دیکھا تو نہایت حیرت کے عالم
میں بابا صاحبؒ سے عرض کیا۔
بابا صاحب نے فرمایا، ‘‘ عزت و اکرام کیساتھ انہیں اوپر
لے آؤ۔"
یہ صاحب اوپر تشریف لائے۔ فوجی
سیلیوٹ کی طرح سلام کیا اور اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔
بابا صاحبؒ نے فرمایا ‘‘جلدی سے چائے لے آؤ۔’‘
چائے کے ساتھ میں نے ڈبل روٹی کے توس یا پاپے
بھی پیش کئے۔ اس بندہ خدا نے صرف چائے پی۔
جب میں نے اصرار کیا کہ آپ ناشتہ کرلیں تو بابا
صاحبؒ نے فرمایا :
" ایک ہفتے
تک صرف چائے پینے کی اجازت ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق انہیں
چائے کے علاوہ کوئی اور چیز کھانے کو نہیں دی جائے گی تاکہ پیٹ بھرا ہونے کی بنا
پر انہیں نیند یا غنودگی نہ آجائے۔ "
اس ضمن میں ایک بات یہ ہوئی کہ کافی رات گزرنے کے بعد حضور
بابا صاحب کے بلک بلک کر رونے سے میری آنکھ کھل گئی ۔ میں گھبرا کر اٹھا اور
بابا صاحب کے کمرے میں آکر پوچھا:
"کیا باتا ہے؟"
فریایا: " سیز فائر ہو گیا ہے ۔ اور یہ اچھا نہیں
ہوا۔"
’‘ اس کے ساتھ ہی
میری نظروں کے سامنے سے پردہ غائب ہوگیا۔
صبح فجر کی اذان
کے وقت جب میں ان کی طرف متوجہ ہوا اور اپنے لطیفہ قلبی اور نفسی کی روشنیاں ان کے
لطیفہ اخفی ٰ میں منتقل کیں تو فوراً حضور بابا جیؒ کا ہاتھ سامنے آگیا۔ تیز آواز
میں مجھے تنبیہہ کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ
ان کے بیوی بچوں کی نگہداشت تم کرو گے؟ مولوی
صاحب کا دماغ الٹ گیا تو ان کے بیوی بچوں کا کیا بنے گا؟
یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہے کہ آدمی جا و بے جا
اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ کسی شخص کی تربیت کرکے اس قابل بنا
دیا جائے کہ وہ اس طاقت کا متحمل ہوسکے۔
ایک روز میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں
انگوٹھی پہننا چاہتا ہوں۔
فرمایا ‘‘ بالکل
ٹھیک ہے۔ آپ انگوٹھی میں نیلم پہنیں۔’‘
بازار میں جب نیلم کی قیمت معلوم کی
تو وہ میری استطاعت سے باہر نکلی۔ روہانسا منہ بناکر عرض کیا۔ ‘‘حضور! نیلم تو بہت
مہنگا پتھر ہے۔"حضور
بابا جیؒ خاموش ہوگئے۔ دوسرے دن صبح آٹھ اور نو کے درمیان میں فیرئیر روڈ پر جارہا
تھا کہ نالے کے قریب کھڑے ہوئے ایک فقیر نے مجھے آواز دی۔ میں سمجھا کہ کوئی سوالی
ہے۔ اسے ایک آنہ دے دیا جائے۔ جب میں قریب پہنچا تو اس سے پہلے کہ میں اسے خیرات
دوں اس نے میرے ہاتھ پر ایک انگوٹھی رکھ دی۔ انگوٹھی میں نیلم جڑا ہوا تھا۔ میں نے
پوچھا۔ ‘‘ یہ نگینہ کتنے کا ہے؟"
اس بندہ خدا نے کہا"قیمت پوچھ
کر کیا کروگے؟ تم اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتے۔"
میرا یہ کہنا تھا کہ فقیر کو جلال
آگیا۔ نہایت درشت لہجے میں بولا۔
‘‘ تو شک کرتا ہے۔
لے انگوٹھی اور چلا جا۔ اپنے بڑوں کو لے جا کر دکھا۔ کل میں اسی وقت یہاں پھر ملوں
گا۔ ‘‘
کام وغیرہ تو میں
سب بھول گیا۔ انگوٹھی لے کر حضور بابا جیؒ کے پاس آیا اور ان کی خدمت بابرکت میں
ساری روئیداد سنائی۔ بابا جی قبلہؒ نے میری اس گستاخی کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا
اور فرمایا۔ "یہ سچا نیلم ہے۔"
اب تو میرے اوپر بڑی وحشت طاری ہوئی
اور میں اس سوچ میں غرق ہوگیا کہ وہ فقیر کون ہے جس نے اتنی قیمتی انگوٹھی مجھے
تحفے میں دے دی۔ بابا جیؒ نے مجھ سے فرمایا۔
" کل صبح بہت
سویرے اسی جگہ جاکر ان بزرگ کا انتظار کرنا اور کوشش کرنا کہ وہ تمہارے ساتھ ناشتہ
کرلیں اور ساتھ ہی عقیدت و احترام سے خمیدہ ہوکر ان کو سوا پانچ روپے نذر کردینا۔
ایک روز قلندر بابا اولیاءؒ کی خدمت
میں عرض کیا ‘‘ حضور ! کیا آپ کو نماز میں مزہ میں آتا ہے؟’‘
فرمایا:"ہاں!"میں نے عرض کیا، " مجھے توکبھی یہ پتہ نہ چلا کہ میں
کیا کر رہا ہوں۔ بہت کوشش کرتا ہوں کہ خیالات ایک نقطہ پر مرکوز ہوجائیں مگر ذرا
سی دیر کے لئے کامیابی ہوتی ہے اور پھر ذہن بھٹک جاتا ہے۔"
فرمایا، ‘‘ میں ایک ترکیب بتاتا
ہوں۔ اس سے ذہنی مرکزیت حاصل ہوجائے گی۔’‘
صبح کے وقت سے پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ
میرے دادا حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ ،
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اور حضور قلندر بابا اولیاءؒ ، مکان کے صحن میں
گھبرائے ہوئے کھڑے ہیں اور حضور قلندر بابا اولیاءؒ بے چین اِدھر سے اُدھر ٹہل رہے
ہیں اور فرمارہے ہیں۔" یہ کیا ہوگیا؟
" پھر زور سے
فرمایا جیسے کسی سے کہہ رہے ہوں:
" اس کو ہر
حال میں زندہ رہنا ہے۔"
صبح کوجب میں اٹھا
تو میرے جسم کا ایک ایک عضو دکھ رہا تھا۔ شام تک قدرے قرار آیا اور میں حضور قلندر
بابا اولیاءؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
ایک رات تہجد کی نماز کے بعد میں نے
درود خضری پڑھتے ہوئے خود کو سیدنا حضور سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
دربار اقدس میں حاضر پایا اور مشاہدہ کیا کہ حضور اکرم ﷺ تخت پر تشریف فرما ہیں۔ اس بندہ نے حضور ﷺ کے تخت کے سامنے دوزانو بیٹھ کر درخواست
کی:
یا رسول اللہ ﷺ، اے اللہ کے حبیب ﷺ، اے باعث تخلیق کائنات ﷺ، محبوبؐ پروردگار، رحمت اللعالمین ﷺ، جن و انس اور فرشتوں کے آقا ، حامل کون و
مکان، مقام محمود کے مکین، اللہ تعالیٰ کے ہم نشین، علم ذات کے امین ﷺ، خیر البشرﷺ، میرے آقا ﷺ مجھے علم لُدنی عطا فرمادیجئے۔ میرے ماں
باپ آپ ﷺ پر
نثار، آپ ﷺ کو حضرت اویس قرنیؓ کا واسطہ، آپ ﷺ کو حضرت ابو ذر غفاریؓ کا واسطہ، آپ ﷺ کو آپ کے رفیق حضرت ابو بکر صدیق ؓ
کاواسطہ، آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ کا واسطہ، آپ ﷺ کو حضرت فاطمہؓ، حضرت علیؓ اور حسنینؓ کا
واسطہ ، اپنے اس بندے پر نظر کرم فرمادیجئے! اور علمِ لُدنی عطا فرما دیجئے!
میرے آقا! آپ ﷺ کو قرآن کریم کا واسطہ، آپ ﷺ کو اسم اعظم کا واسطہ، آپ ﷺ کو تمام پیغمبروں کا واسطہ، آپ ﷺ کے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کا واسطہ، اور
ان کے ایثار کا واسطہ، میرے آقا ﷺ! میں آپ ﷺ کے در کا بھکاری ہوں۔ آپ ﷺ کے علاوہ کون ہے جس کے سامنے دست سوال
دراز کروں۔ میں اس وقت تک آپ ﷺکے در سے نہیں جاؤں گا جب تک آپ ﷺمیرا دامن مراد نہیں بھردیں گے۔ آقا ﷺ! میں غلام ہوں، غلام زادہ ہوں۔ میرے
جد امجد حضرت ابو ایوب انصاریؓ پر آپ کی خصوصی شفقت و رحمت کا واسطہ ، مجھے نواز دیجئے۔
دریائے رحمت جوش میں آگیا۔ فرمایا۔
"کوئی ہے؟"
حضور بابا جیؒ نے
نہایت ادب اور احترام سے فرمایا۔
" یا رسول
اللہؐ! میں آپ کا غلام حاضر ہوں۔
"سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:" تم
اس کو کس رشتہ سے وراثت دینا چاہتے ہو؟"
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے عرض کیا، " یا رسول اللہؐ! اس کی والدہ میری
بہن ہیں۔"
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
تبسم فرمایا اور ارشاد ہوا۔
" خواجہ ابو ایوب انصاریؓ کے بیٹے! ہم تجھے
قبول فرماتے ہیں۔"
اس وقت میں نے
دیکھا کہ میں حضور قبلہ بابا صاحبؒ کے پہلو میں کھڑا ہوں۔
ایک روز تاج اولیا حضرت بابا تاج الدین ناگ پوری کے عظمت
و جلال اور ماورائی علوم پر ان کی دسترس کے بارے میں گفت گو کرتے وقت حضور قلند بابا
اولیا نے فرمایا۔
”شکردرہ میں نانا تاج الدینؒ ایک درخت کے نیچے
بیٹھا کرتے تھے۔ حالتِ استغراق میں نانا تاج الدینؒ کی آنکھیں کچھ کھلیں رہتی تھیں۔
حیات خاں اکثر ان کی نیم باز آنکھیں عجیب ذوق وشوق سے دیکھتا۔ ایک مرتبہ استغراق کی
حالت میں حیات خاں نے مجھے اشارہ سے بلایا ۔ کہنے لگا کہ اس پتہ کودیکھو۔ میری نظریکے
بعد دیگرے کئی پتوں پر گئی۔ جس پتے کی طرف اس نے اشارہ کیاتھا۔ اس میں سے ٹانگیں چہرے
کے خدوخال اورچھوٹی چھوٹی آنکھیں رونما ہورہی تھیں۔ یہ پتہ تقریباًتین انچ لمباہوگا،یکاایک
میری نظریں برابر والے پتے پر جا پڑیں۔ اس میں بھی ویسا ہی تغیر ہو رہاتھا۔ یہ دونوں
پتے ایک دوسرے کے پیچھے چلنے لگے۔ ایک دو منٹ میں ان کی ہیئت بھی بدلی۔ اتنی بدلی کہ
پتوں کی کوئی شباہت ان میں باقی نہیں تھی۔ وہ درخت کے تنے کی طرف چلے جا رہے تھے اور
نانا تاج الدینؒ کی نیم وا آنکھیں ان پر جمی ہوئی تھیں۔
ٍ کئی مہینے بعدمیں نے نانا سے اس کی علمی توجیح
معلوم کی ۔ فرمایا:
"ارے
تو سمجھ بھی سکے گا۔ دیکھ یہ درخت ہے ۔ اس کے اندر زندگی کے سارے ٹکڑے جڑے ہوئے ہیں۔
دیکھنا ، سننا ، سمجھنا، جنبش کرنا، یہ سب ٹکڑے اس درخت کے اندر جھانکنے سے نظر آتے
ہیں۔ اس کے ہر پتے میں سچ مچ کا منہ ہے، سچ مچ کے ہاتھ پیر ہیں، فرق اتناہے کہ جب تک
پتہ دوسری زندگی سے ٹکراتانہیں اسکے اندر عام لوگ یہ نیرنگ دیکھ نہیں سکتے اور جب کوئی
پتہ میری زندگی سے گلے ملتاہے تو جیتا جاگتا کیڑابن جاتاہے۔ یہ سمجھ کہ آنکھ سے گلے
ملتے ہیں۔ یاد رکھ زندگی سے زندگی بنتی ہے۔ اورزندگی زندگی میں سماتی ہے۔ "
نا
تاج الدین فوج میں بھرتی ہونے کے بعد ساگر ڈپو میں تعینات کئے گئے تھے۔ رات کے ۹؍ بجے گنتی سے فارغ ہوکر بابا داؤد مکّی
کے مزار پر تشریف لے جاتے ۔ وہاں صبح تک مراقبہ اورمشاہدہ میں مصروف رہتے اور صبح سویرے
پریڈ کے وقت ڈپو میں پہنچ جاتے۔ یہ مشغلہ پورے دو سال تک جاری رہا۔ دوسال بعد بھی ہفتہ
میں ایک دو باران کے یہاں حاضری ضرور دیا کرتے تھے۔ جب تک ساگر میں رہے اس معمول میں
فرق نہیں آیا۔
چلہ
کشی کے ابتدائی دورمیں زواٹ نام کا ایک مغلوب الغضب کرنل ڈپو کا کمانڈر مقرر ہوا۔ شدہ
شدہ نانا کا رات کے وقت مزار پرجانا اس کو بھی معلوم ہوگیا۔ چنانچہ یونٹ صوبہ دار سے
بازپرس کی نوبت آگئی۔ یہ ساداتِ بارہ میں سے تھا اور مزاج کا بڑاسخت تھا۔ اس نے کمانڈر
سے بالکل صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں اپنے فرد کا خود ذمہ دار ہوں۔ جب تک سرکاری
کاموں میں حرج واقعہ نہ ہو میں کسی کے نجی معاملہ میں دخل نہیں دے سکتا۔ رہا رات کے
وقت ڈپو سے باہر جانے کا مسئلہ تو اس کے لئے ان کو پاس ملا ہواہے۔
اس وقعہ کو سنانے کے بعد شب بیداری سے روحانی علوم حاصل
ہونے کی سند میں ایک حدیث بیان کی۔ ٍ ایک صحابیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی جناب میں اپنی طویل شب بیدار ی کے تذکرے میں عرض کیا۔ "یار سول اﷲؐ!میں آسمان
پر فرشتوں کو چلتے پھرتے دیکھتاتھا۔ "ٍ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اگر تو شب بیدار ی کو اور قائم رکھتے تو فرشتے تم سے مصافحہ
کرتے ۔
ٍ
اس روایت کی روشنی میں اگر نانا تاج الدینؒ کی مسلسل شبِ بیداری پر غور کیاجائے تو
اس بات کا اندازہ ہوتاہے کہ غیبی مشاہدات ان کا معمول بن گئے تھے۔ انکے کئی دوہے اسی
مضمون سے تعلق رکھتے ہیں۔اُن میں سے ایک یہ ہے۔
ٍ سائے بن کی رات میں بن باسی بن جائیں
داس ملوکا ساتھ میں جاگیں اور لہرائیں
مطلب
جنگل کی رات میں سائے آدمی بن جاتے ہیں۔ تاج الدینؒ ان کے ساتھ میں جاگتے رہتے ہیں۔
اورخوش گپیاں کرتے رہتے ہیں۔
ایک لنگڑا
نوجوان شفاخانے میں آکر ٹھہر گیا۔ یہ شفا خانہ بھی مسجد اور مدرسہ کی طرح پھونس کی
جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔ لنگڑا صبح کھا پی کرشفاخانے سے چلتااور نانا تاج الدینؒ کے
سامنے آبیٹھتا۔ سلام کر کے لنگڑی ٹانگ پھیلاکر اپنا ہاتھ پھیرنے لگتا۔ اور ایسے منہ
بناتا جیسے بڑی تکلیف میں ہے۔ نانا ہوں کہہ کر چپ ہوجاتے ۔ اسی طرح دو مہینے گزر گئے۔
لنگڑا تھا بڑا اڑیل ۔ اپنے معمول پر قائم رہا۔ ایک روز میں بھراہوا آیااور نانا کی
طرف دیکھ کر بڑبڑانے لگا۔
خدا نے مجھے لنگڑا کر دیا ہے جن کی ٹانگیں ہیں
ان کو کچھ احساس نہیں ۔ سنا تھا کہ خدا کے یہاں انصاف ہے ، انصاف کو بھی جھنجھوڑ کر
دیکھ لیا۔ سب ڈھونگ ہے۔ لوگ خدا خدا پکارتے ہیں اور خدا بہرہ ہو گیاہے۔ کچھ نہیں سنتا۔
خداوالوں کو بھی دیکھ لیا۔ یہ بھی سب گونگے بہرے ہیں۔ خدا اور خدا والوں سے تو میری
بیساکھی اچھی ہے۔ سہارا تو دیتی ہے۔
نانا
اس کی بات سن کر جھنجھلا گئے ۔ چیخ کر بولے۔"جا دفان ہو۔بھلا چنگا ہوکر لنگڑا
بنتاہے۔جھوٹا کہیں کا۔
یہ
کہہ کر لنگڑے کو مارنے کے لئے دوڑے۔ لنگڑا بیساکھی چھوڑبھاگا۔ اب اس کی لنگڑی ٹانگ
بالکل ٹھیک تھی۔
اس واقعہ کی روجیہ مشکل نہیں۔ یہ سمجھنا کہ کائنات ارتقائی
مراحل طے کررہی ہے غلط ہے۔ یہاں ہر چیز صدوری طور پر ہوتی ہے۔ وقت صرف انسان کی
اندرونی واردات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی شے اندرونی واردات کی حد سے
باہر نہیں تغیر اور ارتقا کے مرحلے اندرونی واردات ہی کے اجزا ہیں۔ یہ واردات ہی
نوعی سراپا کی نقلیں افراد کی شکل و صورت میں چھاپتی ہیں۔چھپائی کی رفتار میں کمی
بیشی ہو جائے تو لنگڑا، اندھا چھپنے لگتاہے۔ حوادث اسی طرح رونما ہوتے ہیں۔ جب
عارف کا ذہن ایک آن کے لیے صدوری کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے تو یہ ے اعتدالیاں دور
ہوجاتی ہیں٫
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
"تمہارے سب سمندر روشنائی بن جائیں اور سارے درخت قلم،
تب بھی اللہ کی باتوں کا احاطہ ممکن
نہیں۔"
اس آیت کی تشریھ کی درخواست پر جو کچھ حضور بابا صاحب نے
ارشاد کیا اسے مختصر اً ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
کائنات کی وسعت
ایک کتاب المبین
ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ
ایک لوح محفوظ اسی ہزار حضیرے
ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ
کھر ب غیر مستقل نظام
ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے
گر د نو۹،با رہ۱۲،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔
یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام
شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر
آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس
، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری
وساری ہے ۔ایک حضیرےپر ایک کھرب سے زیادہ آباد نظام واقع ہیں ایک آباد نظام کو قائم
رکھنے کے لئے غیر مستقل نظام اسٹور کی حیثیت رکھتے ہیں غیر مستقل نظام سے مراد یہ ہے
کہ پو رے پور ے نظام بنتےاور ٹوٹ جا تے ہیں اور اس ٹوٹ پھوٹ سے آباد ،مستقل نظام فیڈ
ہو تے رہتے ہیں ۔
مستقل نظام سے ہماری مراد یہ ہر گز نہیں ہے کبھی ختم نہیں
ہوگا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسا نظام جو قیامت تک قائم رہنے والا ہے اب ہم اس طرح
کہہ سکتے ہیں کہ ایک حضیرہ گیارہ یا بارہ کھرب نظاموں پر مشتمل ہے۔ان گیارہ بارہ
کھرب نظاموں میں زندگی اسی صورت میں رواں دواں ہے جیسے ہم اس زمیں پر دیکھتے ہیں۔
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔