Topics

اللہ کے دوست

 

۲[            خدا کی وحدت کو جان لینا ، پہچان لینا، دیکھ لینا، سمجھ لینا دیکھنے میں تو بہت آسان لگتا ہے لیکن سمجھنے اور حاصل کرنے کی دنیا میں سوئی کے ناکے میں سے اونٹ کو گزار لینا آسان ہے مگر الوہیت اور للہیت کی اوگھٹ گھاٹیوں میں سے گزرنا نہ صرف گزرنا بلکہ اپنے ذہن اور ایمان کو بھی سالم رکھنا، اقرار کو بھی بے قرار نہ ہونے دینا، ابلیسیت سے انکار کو کہیں قرار نہ لینے دینا ایک کٹھن منزل ہے۔ ایک مسافر جب سنسان، ویران جنگل سے گزرتا ہے تو اس پر خوف طاری ہو جاتا ہے۔ لیکن جب وہ گھنے بن میں سے رات کی بھیانک تاریکی میں سفر کرتا ہے تو اس پر دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ لیکن عقیدت اور ارادت کے بحر ظلمات میں جب قدم رکھتا ہے تو خوف، دہشت، خزن، یاس، درماندگی، اجنبیت اور قسم قسم کی حواس باختگیاں عجیب عجیب ڈراؤنی شکلوں میں انے لگتی ہیں۔اس عالم تیرہ وتار میں ایک مرشد عظیم ترین محسن بن کر بچہ کی طرح انگلی پکڑ کر ایسے خراماں خراماں لے جاتا ہے۔ جیسے طفل گر یختہ پا اپنی ماں کا دودھ پینے میں مگن ہے اور چوسنے کے ہر سانس کے ساتھ اس کو روحانی دستر خوان سے ایوان نعمت ملتے جا رہے ہیں جن کے شمار کرنے سے وہ بے نیاز ہو چکا ہے۔ بس قدرت کی رحمت سے معانقہ کرنے میں مگن ہے۔

                اللہ تعالیٰ واحد ذات ہے، احد ہے،سمد ہے، لم یلد ہے اور ولم یولد ہے۔ اس کی اسی وحدت اور وحدانیت کا ہر مذہب نے راگ الاپا ہے۔ زمین پر کسی ایسے مذہب کا وجود نہیں ہے جس نے حق تعالیٰ کی وحدانیت سے منہ موڑا ہو یا اس کے وجود سے انکار کیا ہو۔

                صوفیائے کرام اور اولیائے عظام نے اس احدیت، سمدیت، حقانیت اور وحدانیت کو سمجھانے اور سمجھنے کے لیے مختلف راستے اور طریقے وضع کیے ہیں۔ عام فہم انداز میں توحید اور مسئلہ توحید، شریعت،طریقت،حقیقت اور معرفت پر مشتمل ہے۔

                رہبر جن و انسان ، ہادی ِ کون و مکان ، ماحی ظل و بطلان، سرکار دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں:

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ

                "جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا"

                اس عرفان نفس میں خواہشات اور شہوت کی معرفت نہیں ہے، مدن کی معرفت نہیں ہے۔ اپنے عزیز و اقارب کی پہچان نہیں ہے، اپنے ماں باپ کی پہچان نہیں ہے، اپنے شہر، گھر اور وطن کی پہچان نہیں، ساری دنیا کے علم کی پہچان نہیں ہے، بلکہ یہ  پہچان کرنا اور سمجھنا ہے کہ قدرت نے تجھے کیوں پیدا کیا ہے؟ تیرے اندر اس نے کون سا جو واحد چھپا کر تجھے عدم سے وجود میں بھیجا ہے؟ مشیت نے اپنے ارادوں میں تیرے اندر کون کون سی ہوش مندیاں، دانائیاں اور پیشوائیاں سجا بنا کر رکھی ہیں؟ کیا تجھے محض تیری اپنی ہی اکلوتی ذات کے لئے پیدا کیا ہے؟ اگر ایک بندہ اپنی اس کنہ، اس لم، اس غرض اور پیدائش کی اس غایت تک پہنچ جائے کہ وہ خود اپنی ذات میں کیا کچھ ہے تو سمجھ لو کہ اس بندہ نے خود کو پا لیا، سمجھ لیا، مال لیا، پہچان لیا ، اس وجدان کے میسر آتے ہی شانِ رب ذولجلال پورے جاہ وجلال کے ساتھ کارفرما نظر آنے لگی ۔ جب یقین ، عین یقین اور حق الیقین تک آ پہنچا تو تمام مقصد  مکمل ہو کر فہو المراد بن گیا۔ جب جزو نے کل کا مقصد حکم پا لیا تو وہ جزو کہاں رہا، اس مقام پر جا پہنچا جس کا اخفا میں رکھنا بیان کر دینے سے زیادہ ارفع ہے۔

وحدت ربانی اور وحدانیت یزدانی کے بارے میں ارشاد باری ہے۔

                ترجمہ : اور تمہارا رب اکیلا ہے۔ کسی کی عبادت نہیں کرتا، سوائے اس کہ وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے

                اور بندگی کسی کو نہیں مگر ایک معبود کو۔ اس کے سوا کسی کو بندگی نہیں، وہ زندہ ہے اور قائم رہنے والا ہے۔

حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

                علم تو حید اُس کے وجود سے جدا ہے اور اس کا وجود علم سے الگ۔ وہ رب ذولجلال علم کی حد تک باہر ہے یعنی

                اتنا وسیع ہے کہ کوئی علم اس کا احاطہ یا اندازہ نہیں کر سکتا۔

حضرت ابو بکر واسطی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ راہِ حق میں خلق نہیں اور راہِ خلق میں حق نہیں یعنی یہ بندے جو اس کے ادراک کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں، اس کی ذات بشریت کے ادراک سے زیادہ ارفع و اعلا جی تک پہنچنا نا ممکن ہے۔

                ان آیات اور بزرگان کرام کے اقوال سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ توحید کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے۔ جتنا لوگ اسے سہل سمجھتے ہیں۔ جس طرح ایک پیالی میں گلاس نہیں سما سکتا، ایک گلاس میں مٹکا نہیں سما سکتا، ایک مٹکے میں ایک تالاب نہیں سما سکتا، ایک تالاب میں ایک سمندر نہیں سما سکتا۔ ایک سمندر میں سارے سمندر نہین سما سکتے اسی طرھ ایک بندہ کی ننھی سی عقل ، سمجھ، سوچ، فکر، فہم ، ادراک، احساس ،ا یقان اور وجدان میں وہ ذات واحد کیسے سما سکتی ہے جس کو ہم اللہ کے نام سے یاد کرتے ہیں، جو ازل سے ہے اورر ابد تک رہے گا۔

                مومن بننے کے لیے ہادی برحق ﷺ کے بعد صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور پھر اولیائے کرام ہدایت اور رہبری کا ذریعہ رہے ہیں۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد  سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ، حضرت بابا فرید گنج بخش شکر رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت نظام الدین اولیا ء محبوب الٰہی رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ، حضرت  علاءالدین صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت بو علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت صاحب زادہ شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ حضرت حافظ عبدالرحمن جامی ملنگ بابا رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت سچل سر مست رحمتہ اللہ علیہ، حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب رحمتہ اللہ علیہ ،حضرت مولانا خلیل احمد صاحب مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے ایسے تمام بزرگان کرام جو عوام کے لیے فیض عام اور مرجع انعام رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ان اولیائے کرام کی جسمانی ، دینی، ملکی اور روحانیت خدمات وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ روشن تر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ان بزرگوں کا روحانی مشن مذہب اور ملت اور عقیدہ کی حد بندیوں سے بلند ہے۔ ہر مذہب اور ملت کے لوگ اپنی اپنی ضرورتیں لے کر حاضری دیتے ہیں اور جب تک انہیں کامیابی کا اشارہ نہ مل جائے، جانے کا نام نہیں لیتے۔ ان بزرگوں کو اس دنیا سے جدا ہوئے کئی صدیاں گزر گئی ہیں لیکن ان مزارات مرجع خلائق ہیں۔

                قدرت اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے دیے سے دیا جلاتی رہتی ہے۔ معرفت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی ہے۔ آخر یہ قطب ، غوث، ولی ، ابدال، صوفی، مجذوب، اور قلندر کیا ہیں؟ قدرت کے وہ ہاتھ جو روحانی روشنی کی مشعل کو لے کر چلتے ہیں، اس روشنی سے اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی روشنی کا انعکاس دیتے ہیں۔۔۔۔

                صرف تاریخ کے اوراق نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں پر ان بزرگوں کی ایسی ایسی داستانیں اور چشم دید باتیں زندہ اور محفوظ ہیں جن کی دعاؤں سے مردوں کو زندگی، بیماروں کو شفا، بھوکوں کو غذا، دکھیوں کو عطا، غریبوں کو زر، بے حال لوگوں کو مال و زر، بے سہارا اور بے کس لوگوں کو اولاد اور مال و متاع کے انعامات ملتے رہتے ہیں۔

                قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ:

                اللہ کی سنت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔

اس قانون کے تحت ازل سے ابد تک اللہ کی سنت جاری ہے چوں کہ حضور خاتم النبیین ﷺ پر پیغمری ختم ہو چکی ہے اس لیے فیضان نبوت کو جاری و ساری رکھنے کے لیے سیدنا حضور ﷺ کے وارث اولیاء اللہ کا سلسلہ قائم ہوا جن کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہے:

"اللہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا زندگی سے مانوس ہوتے ہیں۔"

ابدال حق حضو ر قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ، سیدنا حضور ﷺ کے آسمان عرفان میں ایک ایسا ستارہ ہیں جن کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے۔

"میں اپنے بعد اللہ کی کتاب اور اپنی اولاد چھوڑ کر جا رہا ہوں۔"

نورانی لوگوں کی باتیں بھی روشن اور منور ہوتی ہیں۔ زندگی میں ان کے ساتھ ایک لمحے کا تقرب ۱۰۰ سالہ طاعت بے ریا سے افضل ہے اور عالم قدس میں چلے جانے کے بعد ان کی یاد ہزار سالہ طاعت بے ریا سے اعلا اور افضل ہے کہ ایسے مقرب بارگاہ بندوں کے تذکرے سے آدمی کا انگ انگ اللہ تعالیٰ کی قربت کے تصور سے رنگین ہو جاتا ہے۔ اللہ کا نظام کچھ اس طرح قائم ہے کہ اس دنیا میں جو اللہ کا پیغام آیا، وہ اپنے الفاظ کے ساتھ قائم ہے۔ ہم جب کائنات کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ یہ ساری کائنات اللہ کی آواز ہے۔ اللہ نے جب "کن" کہا تو ساری کائنات وجود میں آگئی اور یہ اللہ کی آواز ہے جس نے آدم کو اپنی نیابت سے سر فراز کیا۔

قلندر بابا اولیاء________

ایک آواز ہیں________

ایک روشنی ہیں _______

ایسی آواز ، ایسی روشنی جو ہر جگہ روشنی ہے۔

۲۷ جنوری وہ مبارک اور مسعود دن ہے جس دن______

یہ آواز عالم دنیا کے ایک ایک گوشہ سے گزر کر عالم بقا میں اس طرح قائم ہو گئی ہے۔ کہ ہر آن اور ہر لمحہ______ وہاں سے نشر ہو رہی ہے۔

لازوال ہستی اپنی قدرت کا فیضان جاری و ساری رکھنے کے لیے ایسے بندے تخلیق کرتی رہتی ہے جو اللہ کے دوست ہیں۔ اللہ کے دوست______دنیا کی بے ثباتی کا درس دیتے ہیں۔

خالق حقیقی سے تعلق قائم کرنا ______حقوق العباد پورے کرنا_______اور آدم زاد کو اللہ سے متعارف کرانا، ان کا مشن ہوتا ہے۔

آیئے_____ اللہ کے داست کی باتیں کریں۔ انسانیت نواز، پاکیزہ کردار، نور حق، عارف باللہ، ابدال حق سیدنا حضور قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ کی باتیں کریں۔

تاکہ قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی آواز کی لہروں سے ہمارے مادی اجسام میں زندگی دوڑ جائے۔ ہماری بے نور آنکھوں کہ روشنی مل جائے۔

_______ اور ہمارے بہرے کان اس آواز سے مانوس ہو جائیں جو اللہ کی آواز ہے۔

 

 

 


Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔