Topics
جواب:
قرآن کریم میں سورہ حشر میں ارشاد ہے:
’’اگر
ہم قرآن کو پہاڑوں پر نازل کر دیتے تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے۔‘‘
پہاڑ
ریزہ ریزہ ہونے میں جو حکمت پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کے اندر ایک طاقت ہے۔ ایک
قوت ہے اور یہ طاقت و قوت اتنی زیادہ ہے کہ اس کو پہاڑ جیسی سخت چیز بھی برداشت
نہیں کر سکتی۔
اگر
انسان چوبیس گھنٹے وظیفے پڑھتا رہے تو اس کے دماغ میں اللہ کی آیتوں کا نور ذخیرہ
ہوتا رہتا ہے اور جب یہ ذخیرہ سکت سے زیادہ ہو جاتا ہے تو شعور کام کرنا چھوڑ دیتا
ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بنے ہوئے کام بگڑ جاتے ہیں۔ مزاج چڑچڑا پن کا شکار ہو
جاتا ہے اسے ذرا ذرا سی بات پر غصہ آتا ہے۔
اسی
فرمان کی دوسری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ انسان محنت کرنا چھوڑ
دے اور وظیفوں پر اکتفا کر کے جمود کا شکار بن جائے۔
اللہ
ہر آن اورہر لمحہ کائنات اور افرادِ کائنات کو متحرّک دیکھنا چاہتا ہے۔ جدّ و جہد
اور کوشش سے غفلت اللہ کے نظام میں ممنوع اور ناپسندیدہ ہے۔ قرآن پاک تخلیقی
فارمولوں کا مکمل ضابطہ ہے۔ جو ہماری زندگی کے تمام امور اور حرکات کا احاطہ کرتا
ہے۔ قرآن کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ سمجھنا چاہئے تا کہ ہمارے اوپر اس کتاب کے اندر
موجود تسخیری قوتیں آشکار ہو جائیں۔ جس سے کام لے کر ہم کامیابی و کامرانی کو اپنا
مقدر بنا سکتے ہیں۔