Topics
جواب:
غور کیا جائے تو یہ ظاہری زندگی کا عام مشاہدہ ہے کہ ہم زمان یا ٹائم کی گرفت کو
اپنے اوپر سے توڑ بھی سکتے ہیں اور اپنے اوپر مسلّط بھی کر لیتے ہیں۔ مثلاً ہمیں
کوئی کام کرنا ہے۔ اس کام کو اگر قاعدے اور طریقے سے کیا جائے تو وہ ایک گھنٹے میں
پورا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم نہ چاہیں تو یہ ایک گھنٹے کا کام ہفتوں اور مہینوں
میں بھی پورا نہیں ہوتا۔
ایک
کام کرنا ہے اب سوچنا شروع کر دیجئے کہ یہ کام کرنا ہے۔ اس سوچ میں کہ یہ کام کرنا
ہے، ہفتوں بھی لگ سکتے ہیں، مہینوں بھی لگ سکتے ہیں۔سالوں بھی صرف ہو سکتے ہیں اور
اگر ہم فوری طور پر کام شروع کر دیں تو یہ کام منٹوں، گھنٹوں یا دنوں میں پورا ہو
جاتا ہے بات وہی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے زمان کا مختصر کرنا یا طویل کرنا انسان
کا اپنا اختیاری عمل ہے۔
کہا
جاتا ہے کہ زندگی کا وقت معیّن ہے۔ لیکن مشاہدات اور تجربات اس بات کا انکشاف کر
رہے ہیں کہ زندگی کے ماہ و سال بھی آدمی اپنے اختیار اور ارادے سے گھٹا اور بڑھا
سکتا ہے۔ ایک آدمی ان عوامل میں زندگی گزارتا ہے جن میں زندگی میں کام آنے والی
طاقتوں اور صلاحیتوں کا اِصراف بیجا ہوتا ہے۔ وہ ایسی غذائیں استعمال کرتا ہے جن
سے آدمی کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اس کے دماغ پر غم و فکر کے ایسے خیالات چھائے رہتے
ہیں جن کے دباؤ سے اس کے اعصاب مضمحل اور ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، نتیجے میں ایسے آدمی
کی عمر کم ہوتی ہے۔
اس کے
برعکس ایک آدمی لوازمات زندگی کو بہت مختصر کر دیتا ہے۔ غم و آلام اور فکر کو اپنے
قریب پھٹکتے نہیں دیتا، ایسی غذائیں استعمال نہیں کرتا جو خون کو کمزور کرتی ہیں
یعنی تمباکو، منشیات وغیرہ ایسے صاف ستھرے ماحول میں رہتا ہے۔ جہاں فضا زہر آلود
نہیں ہوتی نتیجے میں ایسے آدمی کی عمر بڑھ جاتی ہے۔
یہ
وضاحت ہے اس بات کی کہ زمانیت کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک رخ وہ ہے جس میں آدمی کے اندر
کام کرنے والی انرجی (Energy) یعنی وہ صلاحیت،
وہ طاقت یا وہ لہریں جو اس کی زندگی کو قائم رکھتی ہیں اتنی زیادہ خرچ ہوتی ہیں کہ
آدمی اعصابی طور پر کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں اور وہ بالآخر
مر جاتا ہے۔ زمانیت کا دوسرا رخ وہ ہے کہ جس رخ میں کام کرنے والی لہریں ضرورت کے
مطابق خرچ ہوتی ہیں۔ اِصراف بیجا نہیں ہوتا چونکہ لہریں اعتدال میں خرچ ہوتی ہیں
اس لئے ان کا ذخیرہ محفوظ رہتا ہے۔ ذخیرہ محفوظ رہنے سے آدمی کے اندر صلاحیتیں
زیادہ طاقتور ہو جاتی ہیں اور وہ اس طاقت سے زمانیت کو مختصر اور بہت مختصر کر
سکتا ہے۔
روحانیت
میں مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ انسان کے
اندر لہروں کا ذخیرہ زیادہ سے زیادہ حد تک محفوظ رہ سکے اور اس ذخیرے کی طاقت سے
اس کا اپنا اختیار اور ارادہ اس طرف سفر کرنے لگے جہاں سکون اور راحت کی زندگی
موجود ہے۔
ہم نے
جس طاقت کو لہروں کا نام دیا ہے، سائنسدان ان لہروں کا نام (Calories) رکھتے ہیں
سوال:
حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا ارشاد مبارک ہے: جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے
اپنے ربّ کو پہچانا۔ سوال یہ ہے کہ یہ نفس کیا ہے جس کو سمجھ کر ہم اللہ تعالیٰ کا
عرفان حاصل کر سکتے ہیں؟
جواب:
اللہ تعالیٰ جب تخلیق کا تذکرہ فرماتے ہیں اور اپنی خالقیت کا اعلان کرتے ہیں تو
کہتے ہیں
’’وہی ہے
جس نے تمہیں تخلیق کیا ہے نفسِ واحد سے‘‘۔
تصوّف
میں اس کا اصطلاحی نام ’’نسبت وحدت‘‘ اور اس کو ایک نقطہ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
جس میں تمام کائنات بند ہے۔
بادی
النظر میں جب ہم غور کرتے ہیں کہ نفسِ واحد کیا چیز ہے؟ تو عام طرزوں میں یہ کہہ
دیا جاتا ہے نوعِ انسانی آدم سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی نفس واحدہ سے مراد آدم ہے۔ یہ
طرزِ فکر اور یہ تاویل صحیح نہیں ہے اس لئے کہ جب آدم کا تذکرہ آتا ہے تو اللہ
تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق آدم کا پتلا سڑی اور بجنی مٹی سے تخلیق ہوا۔ حقیقت میں
نفسِ واحدہ جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے تمہیں نفسِ واحد سے
تخلیق کیا ہے، وہ نقطہ ہے جو ساری کائنات کی بنیاد ہے اور اس نقطہ میں کائنات کا
ایک ایک ذرّہ ریکارڈ ہے۔ کوئی چیز اس سے باہر نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آدمی
اپنے اندر موجود اس نقطہ سے واقف ہو جائے اور اس کی نگاہ اس نقطہ کے اندر کام کرنے
لگے۔
اسی
نقطہ کے بارے میں حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے:
’’جس نے
اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔‘‘
اللہ
تعالیٰ کے فرمان اور حضور اکرمﷺ کے ارشاد پر تفکر کیا جائے تو اس کے معانی اور
مفہوم اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اور ہم ان دونوں میں
باہمی ربط موجود پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے تمہیں تخلیق کیا نفسِ
واحد سے اور حضور اکرمﷺ اس نفس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان
لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جب عرفان نفس کا کوئی
مسئلہ سامنے آتا ہے تو ہم ان قرآنی آیات کو جس میں عرفان نفس کے متعلق واضح اور
روشن ہدایات موجود ہیں۔ متاشبہات کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ حالانکہ اس کتاب میں کسی
قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ یہ کتاب جس میں
کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے جو متقی ہیں اور
متقی لوگ وہ ہیں۔ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یعنی غیب ان کے مشاہدے میں ہوتا ہے۔
ان حضرات کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ ان کی عام طرزِ فکر یہ ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں
کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں، یہ بات ہمارا یقین ہے۔ یعنی یہ بات ہمارے مشاہدے
میں ہے کہ ہر بات، ہر کام، ہر عمل، ہر حرکت خواہ وہ ابتداء ہو یا انتہا، ظاہر ہو
یا چھپی ہوئی سب اللہ کی طرف سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کے عملدرآمد ہونے میں
براہِ راست اللہ تعالیٰ کی مشیئت کا عمل دخل ہے۔
یہ بات
سامنے آ چکی ہے کہ کائنات میں موجود ہر شئے لہروں کے تانے بانے پر قائم ہے اور یہ
لہریں نور کے اوپر قائم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق زمین اور آسمان اللہ
کا نور ہیں۔ تخلیق کی ایک حیثیت نورانی ہے۔ اور دوسری حیثیت روشنی ہے۔ ان لہروں
اور تخلیق کے نورانی وصف کو تلاش کرنے کے لئے اہل اللہ نے انسانی شعور کی مناسبت
سے قاعدے اور ضابطے بنائے ہیں اور ایک نقطہ کو تقسیم کر کے چھ کر دیا ہے۔ تا کہ
ایک مبتدی سالک آسانی سے سمجھ سکے۔ اس ایک نقطہ کے چھ حصوں کی تقسیم کا نام تصوّف
میں لطائف ستہ یا چھ لطیفے رکھا گیا ہے۔ پانچ لطیفوں کو چھوڑ کر آخری چھٹا لطیفہ
جس کو اخفیٰ کا نام دیا گیا ہے، ہر انسان کے اندر نفسِ واحدہ ہے یہی وہ نقطہ ہے جو
اللہ کا گھر ہے جس میں اللہ بستا ہے اور جس پر براہِ راست اللہ کی تجلیات کا نزول
ہوتا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس میں داخل ہونے کے بعد کائنات صحیح معنوں میں انسان کے
لئے تسخیر ہو جاتی ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سمجھ لیتا ہے کہ ہم نے مسخر کر
دیا سب کا سب تمہارے لئے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں، یعنی آسمانوں اور
زمین میں جو کچھ ہے وہ تمہارا محکوم ہے۔ اور تم اس کے حاکم ہو۔ اس ارشاد کی مزید
تفصیل یہ سامنے آتی ہے کہ ہم نے تمہارے لئے سورج کو مسخر کر دیا، چاند کو مسخر کر
دیا، ستاروں کو مسخر کر دیا۔ مسخر ہونے کا یہ مطلب نکالا جاتا ہے کہ چاند اور سورج
کو اللہ تعالیٰ نے ایک ڈیوٹی تفویض کی ہے اور یہ بات ان کے فرائض میں شامل ہے کہ
وہ مخلوق کی خدمت کریں۔ چاند ہو، سورج ہو، ستارے ہوں، نباتات ہوں یا جمادات ہوں،
پانی ہو یا گیس، چرندے ہوں یا پرندے سب انسان کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ یہ مسخر
ہونے کی تعریف میں نہیں ہوتا۔ مسخر ہونا، کسی چیز پر حاکمیت قائم ہونا، یہ معنی
رکھتا ہے کہ اس چیز پر تصرّف کیا جا سکے۔ موجودہ صورت یہ ہے کہ نوعِ انسان چاند
اور سورج کے تصرّف میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ اگر چاند اور سورج اپنا تصرّف ختم کر
سکتے ہیں تو زمین کا وجود باقی نہ رہتا۔ مثلاً یہ کہ ہم دھوپ کے محتاج ہیں اور ہم
اس بات کے بھی محتاج ہیں کہ چاند اپنی روشنی سے ہماری فصلوں کو پروان چڑھائے۔ ہمیں
چاند اور سورج پر کوئی حاکمیت حاصل نہیں ہے۔