Topics
سوال: آدمی مراقبے کے ذریعے زمان و مکان کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب زمان و مکان نہیں رہیں گے تو محسوسات کی دنیا بھی نہیں رہے گی اور جب محسوسات کی دنیا ہی نہیں رہے گی تو آدمی کا Time&Space کی پابندیوں سے آزاد ہونا یا نہ ہونا دونوں کیوں کر زیر بحث آ سکتے ہیں؟
جواب: یہ صحیح ہے کہ اگر زمان و مکان ناپید ہو جائیں تو کسی وجود کا تذکرہ ممکن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس حالت یا کیفیت کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے اس کے لئے قریب تر اور مناسب ترین الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔
زمان و مکان کی آزادی کیا ہے؟
اس کو سمجھنے کے لئے ہم ایک مثال کا سہارا لیتے ہیں۔ مثلاً بھوک کا تقاضہ ایک اطلاع ہے اور اس تقاضے کی تکمیل کیسے کی جائے یا کون سا کھانا کھایا جائے… یہ اطلاع میں معنی پہنانے کا عمل ہے۔
انسان کا ذہن یا دماغ بیک وقت دو طرزوں میں کام کرتا ہے۔
1. ایک طرز یہ ہے کہ انسان خود کو پابند محسوس کرتا ہے، اور
2. دوسری طرز یہ ہے کہ انسان خود کو پابند محسوس نہیں کرتا۔
پہلی طرز میں دماغ ایسے معنی پہناتا ہے جس میں زمانی اور مکانی فاصلے زیر بحث آتے ہیں، اور …
دوسری طرز میں دماغ زمانی و مکانی فاصلوں کو گھٹا کر اتنا کم کر دیتا ہے کہ ہم اس کو وقت یا مکانیت میں بیان نہیں کر سکتے۔
مثلاً جب دماغ بھوک کی اطلاع کو معنی پہنائے گا تو ہمیں متواتر اور مسلسل کئی حد بندیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے ہم زمین کو ہموار کریں گے پھر ہل چلائیں گے، گیہوں بوئیں گے، پانی دیں گے، اس کی حفاظت کریں گے اور گیہوں جب تیار ہو جائے گا تو کاٹ کر بالیوں کو الگ کر کے گیہوں کو علیحدہ کریں گے اور چکی میں پیس کر آٹا گوندھیں گے۔ آٹا گوندھنے کے بعد بھی تَوے اور چولہے کے عمل سے گزر کر ہی روٹی کھا سکیں گے۔
ہم خواب دیکھتے ہیں اور بعض مرتبہ خواب کے دَوران بھی کھاتے ہیں۔ خواب میں روٹی کھانے کا عمل بیداری میں روٹی کھانے کے عمل سے مختلف ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خواب میں ہمیں بھوک لگی اور روٹی سامنے آ گئی۔ یہی صورتحال جنّت کی زندگی میں بھی ہے۔ جیسے ہی دماغ میں یہ اطلاع آئی کہ کچھ کھانا چاہئے فوراً ہی وہ چیز سامنے موجود ہو جاتی ہے۔ بیداری کے اعمال کی طرح روٹی کھانے کے لئے گیہوں بونا، کاٹنا، پیسنا وغیرہ کچھ نہیں ہوتا۔ مراقبے کے ذریعے آدمی جب اس صلاحیت کا استعمال سیکھ جاتا ہے جس صلاحیت میں حد بندیاں نہیں ہیں تو زمان و مکان کی پابندیوں سے گزرے بغیر ہر وہ کام ہو جاتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے۔
پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہﷺ اور حضور پاکﷺ کے دوست، اوّلیاء اللہ کے کتنے ہی واقعات اس قانون کے شاہد ہیں۔