Topics
جواب:
ایک آدمی آپ کا دوست ہے، آپ اسے اچھی باتیں سمجھاتے ہیں۔ مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔
ترغیب دے کر سمجھاتے ہیں۔ اپنی دوستی کے تعلق کے اظہار سے سمجھاتے ہیں لیکن وہ آپ
کی بات نہیں مانتا تو آپ کا یہ طرز عمل ہو گا کہ آپ اس بندے کو اس کے حال پر چھوڑ
دیں گے۔
اللہ
تعالیٰ نے انسان کو دوزخ کے عذاب سے بچانے کے لئے انسان کو اپنی نعمتیں عطا کرنے
کے لئے، جنّت میں اعلیٰ مقام عطا کرنے کے لئے پیغمبر بھیجے۔ لوگوں نے پیغمبروں کی
بات نہیں سنی، ان کے ساتھ دشمنی کی، مخالفت کی، ان کو مارا پیٹا، قرآن کو بُرا
بھلا کہا۔ جب کہ کسی پیغمبر نے اپنی ذات کے لئے قوم سے کچھ نہیں مانگا۔ ان کا کام
ہی یہ تھا کہ نوعِ انسانی کو عذاب ناک زندگی سے محفوظ کر کے آرام و آسائش کی جگہ
جنّت میں بھیج دیا جائے۔ لوگوں نے اسی بات کو جرم قرار دے دیا کہ یہ ہمیں دوزخ سے
نکال کر جنّت میں کیوں بھیج رہے ہیں!
اس ضد
اور سرکشی پر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ جب تم سننا ہی نہیں چاہتے تو تمہارے
کان حق کی بات نہیں سنیں گے۔ جب تم دیکھنا ہی نہیں چاہتے تو تمہاری آنکھیں اب حق
اور سچ کو نہیں دیکھ سکیں گے۔ اور تمہارے لئے اب تمہاری پسند اور انتخاب کے مطابق
درد ناک عذاب ہے۔
اللہ
تعالیٰ اپنی مخلوق کے لئے رحیم و کریم ہیں۔ اللہ تعالیٰ گناہوں کو عیبوں کو چھپانے
والے ہیں اللہ تعالیٰ سرکشی اور گناہ کو معاف کرنے والے ہیں۔ لیکن جب انسان اتنا
سرکش ہو جائے کہ اللہ کی رحمت کا بھی مذاق اڑانے لگے اور اللہ کے فرستادہ محبوب
بندوں سے کہے ’’کہاں ہے وہ عذاب جس کی تم وعید دیتے تھے وہ آتا کیوں نہیں ہے۔‘‘
ایسی
صورت میں اللہ تعالیٰ کی بے نیازی سامنے آ گئی اور اللہ نے فرمایا:
’’اب جو
کچھ تم چاہتے ہو وہ تمہارے لئے مقرر کر دیا ہے۔‘‘
’’مہر
لگا دی اللہ نے دلوں پر اور دبیز پردے لگا دیئے آنکھوں پر اور ان کے لئے درد ناک
عذاب کی بشارت ہے۔‘‘