Topics
جواب:
ایک غیر اختیاری اور ایک اختیاری۔ غیر اختیاری یہ کہ بچہ جو کچھ گھر کی چار دیواری
اور اپنے ماحول میں دیکھتا ہے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اختیاری صورت یہ ہے کہ والدین
اسے ایک مخصوص تربیت کے ساتھ معاشرے میں روشناس کراتے ہیں اور جب یہ نابالغ فرد
بالغ ہو جاتا ہے، اُس کی ایک شخصیت بن جاتی ہے اور وہ اپنی شخصیت کو سامنے رکھ کر
والدین اور ماحول سے ملے ہوئے تاثرات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک کردار مُتعیّن کرتا
ہے اور یہ کردار اس کا اپنا تشخّص بن جاتا ہے۔ ان الفاظ کو مختصر الفاظ میں یوں
کہا جاتا ہے کہ کسی بندے کے کردار کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ اسے مخصوص طرزِ فکر
حاصل کرنے کے لئے قربت حاصل ہو۔ جس طرح ایک عام فرد کے لئے ماحول والدین رشتہ دار
اور تعلیمی درسگاہیں قربت کا ذریعہ بن کر اس کے کردار کی تشکیل کرتی ہیں اسی طرح
روحانی آدمی کے کردار کی بھی تشکیل ہوتی ہے اور وہ اس طرح ہوتی ہے کہ اسے ایسے کسی
بندے کی قربت حاصل ہو جائے جس کا کردار روحانی قدروں پر محیط ہے۔ پیر و مرشد یا
مراد وہ شخصیت ہے جس کا کردار عوامُ النّاس سے اور ان لوگوں سے جو روحانی حقیقتوں
سے بے خبر ہیں ممتا زہوتا ہے۔ اس ممتاز شخصیت سے جس حد تک قربت ہوتی جاتی ہے اسی
مناسبت سے مرید کے اندر روحانی اَوصاف منتقل ہوتے رہتے ہیں اور مراد کی طرزِ فکر
کا ایک ایک جزو مرید کے دماغ کی اسکرین پر نقش ہو جاتا ہے۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے جس
طرزِ فکر کا نام سلوک ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر کوئی سالک اپنے اندر موجود
روحانی قوتوں سے متعارف ہوتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کے اوپر اس بات کا دارومدار ہے
کہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات صفات سے کتنا متعارف ہے اور اسے پیغمبر علیہ
الصّلوٰۃ و السّلام کی نسبت کس حد تک حاصل ہے۔
قرآن
پاک میں بیان کردہ پیغمبروں کے واقعات پیغمبروں کی زندگی اور پیغمبروں کے مشن پر
اگر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ پیغمبروں نے ایک
مخصوص طرزِ فکر کا پرچار کیا ہے۔ اس مخصوص طر زفکر میں بہت گہری نظر سے دیکھا جائے
تو یہ نظر آتا ہے کہ پیغمبرانہ وصف میں یہ بات شامل ہے کہ ہر بندہ برائی اور
اچھائی میں تمیز کر سکے یعنی پیغمبروں نے نوعِ انسانی کو اچھائی اور برائی کے
تصوّر سے آشنا کیا ہے۔
ہم
بتا چکے ہیں کہ جہاں زندگی کے تقاضوں کا تعلق ہے تقاضوں کے اعتبار سے اللہ کی سب
مخلوق یکساں حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری مخلوق کے سامنے اگر انسان کی ممتاز حیثیت ہے تو
وہ یہ ہے کہ انسان اچھائی اور برائی کے تصوّر سے واقف ہے اسے اس بات کا علم دیا
گیا ہے کہ:
1.
زندہ
رہنے کے لئے مخصوص طرزیں انسان کو اچھا بناتی ہیں …اور
2.
زندہ رہنے کے لئے مخصوص
طرزیں اچھائی سے دور کر دیتی ہیں۔
اچھائی کے تصوّر کے ساتھ
ساتھ یہ بات بھی انسان کا علم بن جاتی ہے کہ اچھا فرد وہ ہے جو اپنی اصل سے واقف
ہو اور باخبر ہو۔ اصل سے باخبری اسے ایک ایسے علم سے روشناس کراتی ہے کہ جو علم
اسے اپنے اندر کام کرنے والی مخفی صلاحیتوں سے واقف کراتا ہے اور یہ مخفی صلاحیتیں
دراصل روحانی قدریں ہیں۔ جو بندہ جس مناسبت سے روحانی قدروں سے واقف ہے اتنا ہی وہ
کردار کے اعتبار سے مصفّیٰ اور پاکیزہ ہے اور جو آدمی روحانی قدروں سے جس حد تک
ناواقف ہے اسی مناسبت سے اس کا کردار غیر مصفّیٰ اور دُھندلا ہے۔ ایک بکری اور
انسان کی زندگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی بات کہنے پر آدمی مجبور ہے کہ
بکری اور انسان میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں۔ انسان کو بکری سے ممتاز کرنے
والی صلاحیّت یہ ہے کہ انسان اپنے اندر روحانی قدروں سے واقف ہو جاتا ہے اور اگر کوئی
انسان اپنے اندر روحانی قدروں سے ناواقف ہے یا اسے اپنی ذات کا عرفان حاصل نہیں ہے
تو وہ ہرگز بکری یا کسی دوسرے جانور سے ممتاز نہیں ہے۔ روحانی قدروں سے واقف ہونے
کے لئے ضروری ہے کہ اسے اپنے ایسے باپ کی آغوش میسر ہو جس کے اندر روحانی قدروں کا
دریا مؤجزن ہو اور اسے ایسا ماحول میسر ہو۔ جس ماحول میں پاکیزگی موجود ہو۔ باپ سے
مراد پیر و مرشد ہے اور ماحول سے مراد یہ ہے کہ اس پیر و مرشد کی ایسی اولاد جو اس
سے روحانی رشتہ میں وابستہ ہے۔ زمین پر ہونے والے بچہ کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے
ہم یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ بچے کا شعور والدین کی گود، گھر کی چاردیواری اور ماحول
سے بنتا ہے۔ ماحول میں اگر کثافت ہے تعفن ہے، گھٹن ہے، گندگی ہے، بے سکونی ہے،
اضطراب ہے تو بچہ بھی ذہنی طور پر ذہنی سکون سے نا آشنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر
گھر میں سکون ہے، آرام ہے، والدین کی آواز میں شیرینی اور مٹھاس ہے لہجے میں پیار
ہے اور دماغی اعتبار سے وہ پرسکون ہیں، اس کا ماحول بھی پرسکون ہے، بچہ بالکل غیر
اختیاری طور پر سکون کا حامل ہوتا ہے۔
یہ بات ہمارے مشاہدے میں
ہے کہ چیخ کر بولنے والے ماں باپ کے بچے بھی چیخ کر بولتے ہیں۔ غصے اور نفرت سے
بولنے والے والدین کے بچوں کے اندر بھی غصہ اور نفرت پیدا ہو جاتے ہیں۔ ندیدے اور
لالچی والدین کے بچے بھی ندیدے اور لالچی ہوتے ہیں۔ کبر و نخوت کے دلدادہ والدین
کے بچوں کے اندر بھی کبر و نخوت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ ضدی اور سرکش والدین کے
بچے بھی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں اس کے برعکس حلیم الطبع ماں باپ کی اولاد حلیم
الطبع ہوتی ہے۔
پیغمبروں کی زندگی کا
مشاہدہ کرنے کے بعد یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخصوص کردار کے
لوگوں کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور جو لوگ اس سلسلے سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ان
کی وابستگی قربت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو ان کے اندر وہی قدریں منتقل ہو جاتی
ہیں۔ جو اس مخصوص کردار کے مقدّس لوگوں کا حصّہ ہیں۔ راہِ سلوک پر چلنے کے لئے کسی
سالک کو کسی شخص کا ہاتھ پکڑنا اس لئے ضروری ہے کہ اسے ایک روحانی باپ کی شفقت
میسر آئے اور اس روحانی باپ کی اولاد کا ایک ماحول میسر آ جائے تا کہ اس ماحول میں
رہ کر اس کی ذہنی تربیت ہو سکے۔
ذہنی تربیت کا تجزیہ کیا جائے تو ہم
یہ دیکھتے ہیں کہ تربیت کے مختلف پہلو ہیں اور تربیت کا یہ ہر مختلف پہلو انسانی
زندگی میں ایک مستقل کردار ادا کرتا ہے۔ جس ماحول اور جس گہوارے میں ہم لوگ رہتے
ہیں اس ماحول کے مطابق کم یا زیادہ ذہن کا متاثر ہونا ضروری ہے۔ مثلاً ایک آدمی
ایسے ماحول میں رہتا ہے جس ماحول کے رہنے والے لوگ سب کے سب نمازی ہیں اور ان کی
زندگی میں دین کا عمل دخل پوری طرح موجود ہے۔ اس ماحول سے متاثر ہو کر ہم بھی انہی
قدروں کو اپنا لیتے ہیں جو قدریں ماحول میں رائج ہیں۔ ایک آدمی طبعی طور پر کتنا
ہی خشک کیوں نہ ہو جب وہ ایسے ماحول میں چلا جاتا ہے۔ جہاں رنگ و روشنی کی محفلیں
منعقد ہوتی ہیں اور گانوں کے اونچے نیچے سُروں سے فضا معمور ہوتی ہے تو بالآخر وہ
بندہ گانے بجانے میں دلچسپی لینے لگتا ہے اور گانے بجانے کے قواعد و ضوابط سے بھی
اسے آگاہی ہو جاتی ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا
ہے۔ ابھی ہم بتا چکے ہیں کہ اگر ایک بچے کی ایسے ماحول میں پرورش کی جائے جس ماحول
میں گالی دینا معیوب بات نہ ہوتو بچہ اختیاری اور غیر اختیاری طور پر گالیاں بکتا
رہتا ہے۔ اس کی تربیت اگر ایسے ماحول میں کی جائے جس ماحول میں ظلم سختی اور
درندگی ہو تو بچہ کا ذہن بھی سختی اور درندگی کی طرف ہو جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں
پرورش کی جائے جس ماحول میں خود غرضی کے علاوہ اور کوئی بات موجود نہ ہو ہر کام اس
لئے کیا جاتا ہو کہ اس کے ساتھ کوئی غرض وابستہ ہو۔ ذہنی طور پر ماحول میں سارے
بندے کاروباری ذہن رکھتے ہوں تو بچہ بھی کاروباری ذہن پر اٹھتا ہے۔ ماحول میں
سخاوت کی بجائے بخیلی اور کنجوسی ہو تو بچوں کا دل بھی کھلا ہوا نہیں ہوتا۔ ان
روزمرّہ مشاہدات کے پیش نظر یہ بات مُسلّمہ امر بن گئی کہ دنیا میں جتنے گروہ آباد
ہیں ان کا تعلق اپنی اپنی طرزِ فکر سے ہے اور اس طرزِ فکر کی بنیاد پر ہی کسی گروہ
کا کسی ذات کا کسی برادری کا کسی کردار کا کسی تشخّص کا تعیّن کیا جاتا ہے۔ ہمارے
سامنے پیغمبروں کا بھی کردار ہے۔