Topics
جواب:
یہ سوال جب سے دنیا بنی اور دنیا میں آدم علیہ السّلام کا وجود ظاہر ہُوا، اُس وقت
سے ہی ذہنِ آدم میں بار بار ابھر رہا ہے۔ جب آدم کی اولاد زمین پر پھیلی تو رفتہ
رفتہ اس کی زندگی میں نئے نئے تقاضے پیدا ہوئے اور ان تقاضوں کی تکمیل کے لئے نئی
نئی ایجادات کی گئیں۔ انواع و اقسام کے علوم کی داغ بیل پڑی۔ یہ علوم شاخ در شاخ
پھیلتے گئے اور نتیجہ میں بے شمار فلسفے اور اَن گنت تحقیقی راہیں ہمارے سامنے
آئیں۔ جب ان علوم کی کوئی انتہا نظر نہ آئی اور انسان نے باوجود عقل و شعور کے خود
کو بے بس اور مجبور پایا تو بالآخر اس کے سامنے یہ بات آئی کہ کوئی ہستی ہے جو
کائنات اور کائنات میں موجود سیّارے اور سیّاروں میں مخلوقات اور مخلوقات میں
موجود علم و ہنر کی تحریک کو سنبھالے ہوئے ہے۔
اب اس
ذات کی تلاش شروع ہوئی۔ جب تلاش کا کوئی نتیجہ نہیں مرتب ہوا،تولوگ کوشش اور جدّ و جہد
ترک کرنے پر آمادہ ہوئے اوربھٹک گئے۔ جب یہ صورت حال واقع ہوئی تو اللہ
تعالیٰ نے اپنے پیغمبر علیہم الصّلوٰۃ و السّلام بھیجے۔ انبیائے کرام نے نوعِ
انسان کے فطری اور طبعی تقاضوں کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے کا ایک لائحہ عمل بنا
دیا اور قواعد و ضوابالترتیب دیئے۔ اچھائی اور برائی کے پہلو نمایاں کر کے اچھائیوں
پر گامزن رہنے کی تلقین اور برائیوں سے بچنے کی ہدایت کی اور یہ بتایا کہ انسان کے
اندر ہمہ وقت دو رخ کام کرتے ہیں۔ ایک رخ بھلائی کی طرف متوجہ کرتا ہے اور دوسرا
رخ برائی کی ترغیب دیتا ہے۔ برائی کا رخ دراصل روح سے دور کرنے والی ایجنسی ہے اور
بھلائی کا رخ روح تک پہنچنے والا ایک دروازہ ہے۔
لوگوں
نے انبیاء کرام کی اس تعلیم کو سمجھا اور اس کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا ارادہ
کیا۔ لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ بھلائیوں کے عمل کے ساتھ ایک صلہ جس کا نام ثواب رکھا
گیا، مُتعیّن کر لیا گیا۔ یہ بجائے خود روح سے دوری کا پیغام ثابت ہوا۔ ایک آدمی
نے اس بنیاد پر ایک اچھا کام کیا کہ اسے اس کا صلہ ملے گا۔ یہ عمل نادیدہ مستقبل
میں چلا گیا۔ صلہ کب ملے گا؟ اس کا کچھ پتہ نہیں۔ انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ
فی الواقع اس کا عمل بارگاہ الٰہی میں قبول بھی ہوا ہے یا نہیں۔
اللہ
تعالیٰ کا کوئی نبی ایسا نہیں ہوا کہ جو خود سے واقف نہ ہو۔ جنّت سے واقف نہ ہو،
دوزخ کے بارے میں نہ جانتا ہو، اللہ کے فرشتوں کے بارے میں وافر علم نہ رکھتا ہو،
کائنات کے اسرار و رموز سے وقوف نہ رکھتا ہو۔ اسے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل نہ
ہو۔ کوئی نبی جب اپنی تعلیمات کو عام کرتا ہے تو دراصل اس کے پیش نظر یہ پروگرام
ہوتا ہے کہ اللہ کی مخلوق اور میری امّت کے افراد میری طرح اپنی استعداد اور
صلاحیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کو جانتے اور پہچانتے ہوں، اُس کے فرشتوں سے واقف
ہوں، اِس دنیا میں رہتے ہوئے جنّت کا نظارہ کر لیں، دوزخ کی صعوبتیں اُن کے سامنے
آ جائیں، پیدا ہونے سے پہلے وہ کہاں تھے اور مرنے کے بعد وہ کہاں چلے جاتے ہیں اور
وہاں کے شب و روز کس طرح طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ ان کے علم میں یہ بات بھی ہو کہ
گوشت پوست سے مرکب آدمی اصل آدمی نہیں ہے بلکہ اس کی اصل روح ہے۔ وہ روح جو نہ
گھٹتی ہے، نہ بوڑھی ہوتی ہے اورنہ اس کے اوپر موت وارد ہوتی ہے۔
جب تک
کوئی بندہ اپنی روح سے واقف نہیں ہوتا وہ دریائے توحید میں قدم نہیں رکھ سکتا۔
اللہ تعالیٰ سے متعارف ہونے کے لئے پہلے خود سے متعارف ہونا ضروری ہے۔ خود سے
متعارف ہونے کے لئے مفروضہ حواس اور اس عارضی زندگی کی نفی کرنا ضروری ہے۔ نفی کرنے
کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پیر توڑ کر اور سب کچھ ترک کر کے گوشہ نشین
ہو جائے۔ اپنی نفی کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان دنیاوی زندگی گزارنے کے لئے وظیفہ
اعضاء پورا کرے لیکن نتیجہ اللہ تعالیٰ کے اوپر چھوڑ دے۔ ہر حال میں شکر کو اپنا
شعار بنائے۔ مخلوق خدا کی خدمت کر کے اور رات کی تنہائیوں میں ہر طرف سے اپنا ذہن
ہٹا کر مراقبہ میں یہ تصوّر کرے کہ اسے اور اس کے ہر عمل کو اللہ دیکھ رہا ہے۔ یہ
تصوّر جب مشاہدہ بن جاتا ہے تو اس کے اوپر سے مفروضہ حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور
وہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے۔