Topics
جواب: شَقی روح اور سعید روح سے مراد یہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے روحوں کو دو راستوں میں سے ایک راستے کے انتخاب کا حق دیا ہے۔ جن
روحوں نے سعید راستے کا انتخاب کیا وہ سعید ہیں اور جن روحوں نے شقاوت کے راستے کا
انتخاب کیا وہ شَقی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان دونوں باتوں سے بے نیاز ہے۔ بندوں نے
ان دونوں راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے قبول کر لیا۔
قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’دین میں جبر نہیں ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ – 256)
اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر
بھیجے لیکن لوگوں نے ان کی بات نہیں سنی۔ ان کو جھٹلایا۔ ان کو جادوگر کے لقب سے
پکارا لیکن وہ اپنے مشن میں مستقل مزاجی سے مشغول رہے اور جن لوگوں نے ان کی بات
سنی وہ صحابی ہو گئے۔۔۔۔۔۔اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو عذاب سے بچا لیا۔ جب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھائی اور برائی کے بارے میں معلومات فراہم کر دیں اور
انسان کو اچھائی اور برائی کے نفع و نقصان سے آگاہ کر دیا کہ اچھائی اور برائی کو
قبول کرنے، نہ کرنے کا اختیار بھی دے دیا تو انسان کی مرضی ہے کہ جنّت میں جائے یا
دوزخ میں۔
لیکن ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ خالق و مالک ہے۔
اللہ تعالیٰ نے معافی کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ بڑے سے بڑا ظالم و جابر بھی جب اللہ
تعالیٰ سے معافی کی درخواست کرتا ہے تو اللہ اپنی رحمت سے اسے معاف کر دیتے ہیں
لیکن جب کوئی انسان برائی پر ضد کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا ہے کہ آگ
ہاتھ جلا دیتی ہے۔ اور وہ آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ پھر وہ ضد میں یہ کہنے لگے کہ
اللہ نے آگ بنائی ہی کیوں؟؟ تو یہ کٹ حجتی ہے، مکر ہے اور عقل کی کوتاہ اندیشی ہے۔
اگر آدمی آگ میں ہاتھ ڈالے گا وہ ضرور جلے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کے بارے میں بھی
فرما دیا ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔
’’اے محمدﷺ! آپ توحید کا پیغام پہنچا دیں لوگ
سنیں یا نہ سنیں۔ آپ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کو اختیار
دیا گیا ہے۔‘‘ (سورۃ یونس – 108)
رسول اللہﷺ بتوں کی پرستش سے منع فرماتے تھے جب
لوگوں نے اپنا اختیار استعمال کیا۔ عقل و شعور سے کام لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی
مدد کی اور وہ اسلام پر گامزن ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے بڑے بڑے
کارنامے سر انجام دیئے۔