Topics
جواب:
کائنات کا یکجائی پروگرام لوحِ محفوظ پر ثبت ہے اور یہ پروگرام اللہ تعالیٰ کے ذہن
کے مطابق مسلسل اور پیہم جاری و ساری ہے۔ لوحِ محفوظ پر جو کچھ ہے اس کی نشریات کا
قانون یہ ہے کہ لوحِ محفوظ سے پورا پروگرام یکجا اور پیہم نزول کر کے لوح دوئم پر
آ جاتا ہے۔ لوح دوئم کو تصوف میں عالم برزخ یا علم ’’جُو‘‘ کہتے ہیں۔ لوح دوئم سے
یہی پروگرام انفرادی طور پر نشر ہوتا ہے اور لوح دوئم کی نشریات کا قانون یہ ہے کہ
اس میں انسانی ارادے شامل ہوتے ہیں یعنی یہ کہ لوحِ محفوظ سے یہ پروگرام نشر ہوا
کہ کسی آدمی کو ایک کام کرنا ہے۔ یہ کام ذہن انسانی پر بالکل اسی طرح وارد ہوتا
ہے۔ اب انسان اپنا ذاتی ارادہ استعمال کرتا ہے۔ یہ ارادہ صعود کر کے لوح دوئم میں
لوحِ محفوظ کے اس پروگرام کے ساتھ ہو جاتا ہے اور لوح دوئم سے یہ مخلوط دوبارہ
نزول کر کے انسانی ذہن پر وارد ہوتا ہے اور وہ اس کام کو سر کر لیتا ہے۔ یہاں یہ
اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ لوحِ محفوظ سے نازل ہونے والے کسی پروگرام کے پورا ہونے
کا دارومدار اگر انسانی ارادوں پر ہے تو انسان لوحِ محفوظ کا تابع نہیں ہوا بلکہ
لوحِ محفوظ کی نشریات میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ انسان کو نیت اور ارادہ کرنے
کا اختیار حاصل ہے۔ اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ لوحِ محفوظ پر پوری کائنات بشمول
فرشتے، جنّات، سیارے، کہکشانی نظام، ہماری حرکات و سکنات اور ہماری پوری زندگی
ریکارڈ ہے۔ یہ پوری کائنات نشر (Display) ہو
کر جب لوح دوئم کی اسکرین پر آتی ہے تو یہاں ایک اور فلم بن جاتی ہے اور جب یہ فلم
نشر ہوتی ہے تو کائنات میں موجود ہر تخلیق الگ الگ ہو جاتی ہے۔ یعنی کہکشانی نظام
الگ، نوع جنّات الگ، نوع ملائکہ الگ، نوع انسان الگ، نوع نباتات الگ اور نوع
حیوانات الگ خدوخال میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہ بات بہت ہی عجیب ہے کہ کائنات کی ہر
تخلیق باہم دیگر ایک مخفی رشتہ کے ساتھ منسلک ہے یعنی جس طرح انسان کے اندر پوری
کائنات موجود ہے اسی طرح فرشتہ کے اندر بشمول انسان پوری کائنات موجود ہے اور بکری
اور کبوتر کے اندر بھی پوری کائنات موجود ہے۔ اگر کائنات کی موجودگی اس طرح نہ ہو
تو کوئی فرد دوسرے فرد کو پہچان نہیں سکتا۔ ہم ستاروں کو اس لئے پہچانتے ہیں کہ
ستاروں سے ہمارا ایک مخفی رشتہ ہے۔ ان دیکھی مخلوق، ملائکہ اور جنّات کا یقین کرنے
پر ہم اس لئے مجبور ہیں کہ ان کا تشخص اور تمثل ہمارے اندر موجود ہے۔ کوئی صاحب
اگر یہ اعتراض کریں کہ ایک مکتب فکر جنّات کو مانتا ہی نہیں ہے تو اس بات سے کوئی
فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے کہ انکار بجائے خود اس بات کا اقرار ہے کہ کوئی چیز موجود
ہے۔ اگر کسی چیز کا وجود ہی نہیں تو انکار یا اقرار دونوں ہی زیر بحث نہیں آتے۔
واضح
یہ کرنا ہے کہ انسان کے اندر پوری کائنات تو موجود ہے لیکن چونکہ وہ اس بات سے
واقف نہیں کہ وہ کائنات کا ایک حصہ ہے یا پوری کائنات کے اجزائے ترکیبی میں سے ایک
جزو ہے اس لئے وہ اس بات کا مشاہدہ نہیں کر پاتا۔
شیخ
یا مراد اس بات کو جانتا ہے کہ مرید کائنات کا ایک جزو ہے اور کائنات میں موجود ہر
تخلیق کے ساتھ اس کا قریبی رشتہ قائم ہے۔ مراد مرید کی شعوری صلاحیت کے پیش نظر
ایسا پروگرام ترتیب دیتا ہے جس پر قدم بہ قدم مرید کو چلا کر اس بات سے واقف کر
دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی کنبے کا ایک فرد ہے اور اس کا اس کے ساتھ ربط
ضبط، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، محسوس کرنا، دیکھنا، سننا اور سمجھنا سب مشترک ہے
یعنی تخلیقی اجزاء میں سے وہ ایک جزو ہے اور ظاہر ہے کہ اجزاء میں سے ایک جزو کو
الگ کر دیا جائے تو تخلیق نامکمل رہ جاتی ہے۔
کہنا
یہ ہے کہ کائنات میں موجود ہر تخلیق ایک دوسرے سے رشتہ رکھتی ہے اور ایک دوسرے کو
پہچانتی ہے۔ جاننا اور پہچاننا اس وقت ممکن ہے جب جاننے اور پہچاننے کی صلاحیت
موجود ہو اور صلاحیت کا پیدا ہونا اس وقت ممکن ہے جب صاحب صلاحیت کی طرف سے جاننے
اور پہچاننے کی یہ صلاحیت منتقل ہو کہ صاحب صلاحیت دراصل اللہ تعالیٰ ہیں۔ اور
اللہ تعالیٰ کی صفات ہی سننے، دیکھنے، سمجھنے اور پہچاننے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
اللہ
تعالیٰ نے مخلوقات کا ایک کنبہ بنایا اور اس کنبے میں کھربوں کہکشانی نظام اور ان
نظاموں میں سنکھوں نوعیں اور ان نوعوں میں انسانی شماریات سے باہر مخلوق پیدا کی
اور ان کے اندر سوچنے سمجھنے اور زندہ رہنے کی تحریکات عطا کیں۔ اصل میں پہچان کا
ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور وہ اس لئے کہ مخلوق جداگانہ ہیں اور ان تمام
مخلوق کا پیدا کرنیوالا یکتا اور ایک ہے۔