Topics
جواب:
غیب کے عالم میں داخل ہونا ہونا یا زمان و مکان سے ماوراء کسی چیز کو دیکھنا اس
وقت ممکن ہے جب آدمی خود زمان و مکاں سے آزاد ہو جائے۔ زمان و مکاں سے آزاد ہونا
اس وقت ممکن ہے جب کہ زمان و مکاں کو دیکھنے والی نظر زمان و مکاں کی حد بندیوں سے
آزاد ہو جائے۔ زمان و مکاں سے آزادی کو متحرک کر نے کے لئے ایسے طریقے اختیار کئے
جاتے ہیں جن سے انسانی ذہن اگر پوری طرح آزاد نہ ہو تو ایسی صورت حال ضرور پیدا ہو
جائے کہ وہ آزادی سے قریب تر ہو جائے۔
اب
یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ آدمی کے حواس زماں و مکاں کی گرفت سے کب اور کس
صورت آزاد ہوتے ہیں؟ اس کی ایک صورت ہمارے اوپر خواب کی کیفیت کا مسلّط ہو جانا
ہے۔ سونے کا مطلب دراصل بیداری کے حواس یعنی زمان و مکاں کے تسلّط سے آزادی ہے۔ ہم
جب سو جاتے ہیں تو بیداری کے حواس وہاں منتقل ہو جاتے ہیں جہاں زمان و مکاں کی
کیفیت تو موجود ہے لیکن فی الواقع لمحات کے وہ ٹکڑے موجود نہیں ہیں جن لمحوں میں
ہم قدم بہ قدم زندگی گزارتے ہیں۔ دوسری صورت جو بیداری میں واقع ہوتی ہے وہ یہ ہے
کہ آدمی کا ذہن پوری یکسوئی کے ساتھ کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے۔ مثلاً ہم کسی
کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں اور وہ کتاب ہمارے لئے اتنی دلچسپی رکھتی ہے کہ ہم ماحول
سے بے خبر ہو جاتے ہیں تو بھی زمان و مکاں کسی حد تک ہمارے ذہن سے نکل جاتے ہیں۔
اور جب ہم کتاب رکھ کر یہ دیکھتے ہیں کہ کئی گھنٹے گزر گئے اور وقت گزرنے کا احساس
ہی نہیں ہوا تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اتنا طویل وقفہ گزر گیا۔
قرآن
پاک میں جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زمان و مکاں سے ماوراء انکشافات یعنی
تورات عطا فرمانے کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’ہم
نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور چالیس راتوں سے اسے پورا کر دیا۔‘‘
رات
اور دن کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
’’ہم
داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔‘‘
دوسری
جگہ ارشاد ہے:
’’ہم
نکالتے ہیں رات کو دن میں سے اور نکالتے ہیں دن کو رات میں ہے۔‘‘
تیسری
جگہ ارشاد ہے:
’’ہم
ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو اور دن پر سے رات کو۔‘‘
اللہ
تعالیٰ کے ان ارشادات میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ رات دن دو حواس ہیں
اب ہم اس بات کو یوں کہیں گے کہ ہماری زندگی دو حواس میں منقصم ہے یا ہماری زندگی
دو حواس میں سفر کرتی ہے۔ ایک حواس کا نام دن ہے اور دوسرے کا رات۔ دن کے حواس میں
ہمارے اوپر زمان و مکاں کی جکڑ بندیاں مسلّط ہیں اور رات کے حواس میں ہم زمان و
مکاں کی قید سے آزاد ہیں۔
اللہ
تعالیٰ کا یہ فرمایا کہ
’’ہم
نے موسیٰ سے تیس(۳۰ ) راتوں
کا وعدہ کیا اور چالیس (۴۰) راتوں میں اسے پورا کر دیا۔‘‘
بہت
زیادہ فکر طلب ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طُور پر صرف چالیس راتیں
نہیں رہے بلکہ آپ کا قیام وہاں چالیس دن اور چالیس راتیں رہا۔ ایسا بھی نہیں ہوا
کہ وہ دن کے وقت کوہِ طُور سے نیچے آ جاتے ہوں اور رات کے وقت دوبارہ تشریف لے
جاتے ہوں۔ وہ مسلسل چالیس دن اور چالیس رات کوہِ طُور پر قیام فرما رہے۔ فکر طلب
بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دن کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ صرف رات کا ذکر کرتے ہیں۔ اس
کا مطلب بالکل واضح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر چالیس دن اور چالیس راتیں رات
کے حواس غالب رہے۔ وہی رات کے حواس جو زمان و مکاں سے کسی انسان کو آزاد کر دیتے ہیں۔
قانون
یہ بنا کہ اگر کوئی انسان اپنے اوپر رات اور دن کے وقفے میں رات کے حواس غالب کرے
تو وہ زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے اور زمان و مکاں سے آزادی دراصل غیبی
انکشافات کا ذریعہ ہے۔
قرآن
پاک اس پروگرام اور اس عمل کا نام ’’قیامِ صلوٰۃ‘‘ رکھتا ہے جس کے ذریعے دن کے
حواس سے آزادی حاصل کر کے رات کے حواس میں سفر کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ
کہا جا سکتا ہے کہ نماز قائم کرنے کا لازمی نتیجہ دن کے حواس کی نفی اور رات کے
حواس میں مرکزیت حاصل ہونا ہے۔ نماز کے ساتھ لفظ ’’قائم
کرنا‘‘ اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی نماز اپنی اس بنیادی شرط کو پورا نہیں
کرتی کہ وہ کسی شخص کو رات کے حواس سے متعارف کرا دے تو وہ حقیقی نماز نہیں ہے۔ اس
سلسلے میں حضرت علیؓ کا ایک مشہور واقعہ سامنے لانا بھی نماز کی تشریح اور وضاحت
میں معاون ثابت ہو گا۔
کسی
جنگ میں دشمن کا ایک تیر حضرت علیؓ کی پشت میں پیوست ہو گیا۔ جب اس تیر کو نکالنے
کی کوشش کی گئی تو حضرت علیؓ نے تکلیف محسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں نماز قائم
کرتا ہوں۔‘‘ حضرت علیؓ نے نیت باندھی اور لوگوں نے تیر کو کھینچ کر نکال لیا۔ اور
مرہم پٹی کر دی۔ لیکن حضرت علیؓ کو اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ تیر نکال کر مرہم
پٹی کر دی گئی ہے۔
اس
واقعہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قیامِ نماز میں ان حواس کی نفی ہو
جاتی ہے جن میں تکلیف اور پابندی موجود ہے۔ حضرت علیؓ نے جب نماز کی نیت باندھی تو
وہ دن کے حواس سے نکل کر رات کے حواس میں پہنچ گئے۔ اور جیسے ہی ان کا ذہن رات کے
حواس میں مرکوز ہوا ان کی توجہ دن کے حواس (پابندی
ور تکلیف) سے ہٹ گئی۔
روحانیت
کی بنیاد اس حقیقت پر قائم ہے کہ انسان میں دو حواس، دو دماغ اور دو زندگیاں سرگرم
عمل ہیں۔ جیسے ایک ورق کے دو صفحات۔ یعنی دو رخ۔ دو زندگیوں میں سے ایک کا نام
پابندی ہے اور دوسری زندگی کا نام آزادی۔ پابند زندگی دن، بیداری اور شعور ہے جبکہ
آزاد زندگی کا دوسرا نام رات، راحت، سکون اور اطمینان قلب ہے۔
اس
زندگی کو حاصل کرنے کے لئے روحانیت میں ایک بہت آسان طریقہ مراقبہ ہے۔ مراقبہ
دراصل اس کوشش اس مشق اور اس طرز فکر کا نام ہے جس کے ذریعہ کوئی روحانی آدمی
بیداری کے حواس کو قائم رکھتے ہوئے رات کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ چونکہ بیداری
کے حواس سے رات کے حواس میں داخل ہونا اس کی عادت طرز فکر اور ماحول کے خلاف ہے اس
لئے جب وہ اس راستے پر قدم بڑھتا ہے تو بیداری کے حواس اور شعور پر ضرب پڑتی ہے۔
اور بعض اوقات یہ ضرب اتنی شدید ہوتی ہے کہ نہ صرف شعوری توازن خراب ہو جاتا ہے
بلکہ شعور بکھر جاتا ہے۔ اور انسان شوضری زندگی کی کڑیوں کو آپس میں ملانے میں ناکام
ہو جاتا ہے۔ اسی کو عرف عام میں پاگل پن کہا جاتا ہے۔
شعور
کو اس ضرب سے محفوظ رکھنے کے لئے کسی ایسے آدمی یا ایسے استاد کی ضرورت پیش آتی ہے
کہ جو صاحب نظر ہو اور اس راہ سے گزر چکا ہو اور اس طرح وہ کسی شخص کو قدم بہ قدم
ضرب شدید سے بچاتا ہوا لاشعور میں داخل کر دے۔ اسی راہ سلوک سے واقف تجربہ کار
استاد کو پیر یا مرشد کہا جاتا ہے۔ اور جب کوئی شخص کسی ایسے عرفان کے قانون سے
واقف استاد کے دستِ حق پر بیعت کرتا ہے تو مرید کہلاتا ہے۔