Topics
جواب:
سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کے اس ارشاد مبارک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
انسان خواہشات کو ختم کر دے یا خواہشات پر غلبہ حاصل کر لے۔ تصوّف کا قانون یہ ہے
کہ زندگی خواہشات کا دوسرا نام ہے۔ خواہشات اگر نہ ہوں تو زندگی بے معنی ہو کر رہ
جائے۔ کھانا ایک خواہش ہے۔ پینا ایک خواہش ہے۔ سونا ایک خواہش ہے۔ اللہ اور رسولﷺ
کے معاملات میں ایثار کرنا ایک خواہش اور جذبہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ کوئی زندہ آدمی
خواہشات سے انحراف نہیں کر سکتا۔ زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے اندر تسلسل سے
خواہشات پیدا ہوتی رہیں۔
’’مر
جاؤمرنے سے پہلے‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ موت کا یقین حاصل کر لو اور یقین کی تکمیل اس
وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ یقین مشاہدہ نہ بن جائے۔ انسان کو جب موت کا یقین ہو
جاتا ہے تو وہ مرنے کے بعد کی زندگی سے واقف ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس بات کا یقین حاصل
ہے کہ دنیا میں ایک جگہ لندن ہے اور دوسری جگہ لاہور ہے۔ یہ یقین ہی ہے جو ہمیں
لندن پہنچا دیتا ہے اور لاہور بھی لے جاتا ہے۔ جس طرح ہم لندن اور لاہور جا سکتے
ہیں اسی طرح ہم موت کے بعد کے عالم کا یقین حاصل کر کے اس زندگی میں رہتے ہوئے بھی
موت کے عالم میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ چونکہ موت کے بعد کے عالم کو ہم دیکھتے ہیں اس
لئے لندن اور لاہور کی طرح وہاں جانا بھی ہمارا اختیاری عمل بن جاتا ہے۔ موت سے ہم
اس لئے ڈرتے ہیں کہ ہم موت کے بعد کی زندگی سے ناواقف ہیں اور ناواقفیت کی وجہ یہ
ہے کہ ہم اپنے یقین کو متحرّک نہیں کرتے۔ موت دراصل ایک عالم سے دوسرے عالم میں
منتقل ہونے کا نام ہے۔
’’مر جاؤ
مرنے سے پہلے‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس عالمِ آب و گِل کی زندگی میں مرنے کے بعد
کی زندگی سے باخبری حاصل کر لیں۔
تفکر
کرنے سے یہ بات بہت آسانی کے ساتھ سامنے آ جاتی ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے
جو کچھ ارشاد کیا ہے۔ اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1.
ایک
حصّہ میں معاشرتی قواعد و ضوابط ہیں یعنی انسان کو زندگی میں کن اقدار کا پابند
ہونا ضروری ہے؟ اس حصّہ میں عام انسانوں کے حقوق، بیوی بچوں کے حقوق، شادی بیاہ،
پاکی ناپاکی اور معیشت و معاشرت کے تمام مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔
2.
دوسر
احصّہ نوعِ انسانی کی تاریخ پر مشتمل ہے یعنی انبیاءِ علیہم السّلام کی تعلیمات ان
کے قصّے اور قوموں کے عروج و زوال کا تذکرہ ، کس طرح قومیں بنیں؟ کتنی ترقی کی؟
کیسے اللہ تعالیٰ کے قانون سے انحراف کیا؟ اور کس طرح مٹ گئیں؟
3.
تیسرا
حصّہ ’’مَعاد‘‘ یعنی انسان مر کیوں جاتا ہے؟ اور مرنے کے بعد کی زندگی کیا ہے؟ اس
ضمن میں وہ تمام راز آشکار ہوتے ہیں جو تسخیر کائنات سے متعلق ہیں۔ کائنات کو مسخر
کرنے کے قوانین میں اور فارمولوں میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ٹائم اور اسپیس یعنی
زمان و مکان کی نفی کس طرح ممکن ہے؟ ایک آدمی زمین پر بیٹھے بیٹھے عرش پر کیسے
پہنچ جاتا ہے؟ اور اسے آسمانوں کی باتیں کس طرح معلوم ہونے لگتی ہیں؟ ظاہر ہے ان
مراحل سے گزرنے کے بعد جب انسانی دماغ کو اتنی سکت مل جائے گی کہ وہ آسمانوں میں
ہونے والی باتیں درپیش آنے والے حالات و واقعات کو دیکھ اور سمجھ لے تو اس کیلئے زمین
پر موجود کسی شئے کو چاہے اس کا فاصلہ کتنا ہی ہو دیکھ لینا اور اس کے متعلق
معلومات حاصل کر لینا معمولی بات ہے۔ موت کے بعد کی زندگی کیا ہے؟ آدمی مرنے کے
بعد کہاں جاتا ہے؟ وہاں اس کی بود و باش کی کیا قدریں ہیں؟ کیا کھاتا ہے؟ اور کس
طرح گفتگو کرتا ہے؟
یہ سب
باتیں قرآن پاک میں مَعاد کے عنوان سے بیان کی گئی ہیں۔ یہی باتیں چونکہ سمجھ میں
نہیں آتیں اس لئے متشابہات کہہ کر چھوڑ دی جاتی ہیں حالانکہ قرآن پاک میں کوئی بات
متشابہہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی پہلی آیتوں میں اس کی
وضاحت کر دی ہے:
’’یہ
کتاب، نہیں شک اس میں۔‘‘
اب یہ
لازم ہو جاتا ہے کہ اگر ہم حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کے فرمان ’’مر جاؤ
مرنے سے پہلے‘‘ پر عمل کرنے کیلئے قرآن پاک میں بیان کردہ مَعاد کی باتوں کو
سمجھنا چاہتے ہیں تو حضورﷺ کے شاگرد اور وراثت یافتہ کسی ایسے بندے کو تلاش کرنا
پڑے گا جو حضورﷺ کے علم کی روشنی میں قدم بہ قدم چلا کر ہمیں مَعاد کا مشاہدہ کرا
دے۔