Topics
جواب:
ایک برقی رَو تمام فضا میں گشت کرتی رہی ہے۔ یہ ہمیشہ ایک ہی رفتار سے نہیں چلتی
اور ایک ہی انداز پر نہیں رہتی۔ کبھی سست ہو جاتی ہے، کبھی تیز۔ اکثر شام کے وقت
دیکھا گیا ہے کہ درخت کے پتوں سے ایک قسم کی شعاع برآمد ہوتی ہے۔ یہ شعاع بھی اِسی
برقی رَو کا نتیجہ ہے۔ اگر برقی رَو نہ ہو تو یہ شعاع خارج نہیں ہو گی۔ اگرچہ برقی
رَو اور شعاع الگ الگ چیزیں ہیں لیکن متحد ہو کر ہر پتہ کی نوک سے خارج ہوتی رہتی
ہے۔ غور سے دیکھا جائے اور تیز نگاہ آدمی اسے دیکھنے کی کوشش کرے تو یہ نظر آتی
ہے۔ یہی برقی رَو انسانوں، جانوروں، درختوں، گھاس اور جنّات وغیرہ میں زندگی پیدا
کرتی ہے۔ اگر یہ برقی رَو کسی وجہ سے اپنی توجّہ درخت کی طرف سے ہٹا لے تو یہ درخت
خشک ہو جائے گا۔ جب کہ ہم اس کی وجہ یہ سمجھتے ہیں کہ جڑوں کو پانی نہیں ملا یا
کھاد نہیں ملی، اِس وجہ سے درخت سوکھ گیا ہے۔
انسانوں
اور جانوروں کو بھی یہی برقی رَو زندگی بخشتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے انسانوں اور
جانوروں سے برقی رَو کا سلسلہ منقطع ہو جائے تو فوراً موت واقع ہو جاتی ہے یا جس
مناسبت سے برقی رَو توجّہ ہٹا لے اسی مناسبت سے زندگی مفلوج ہوتی رہتی ہے۔ عرض یہ
کرنا ہے کہ یہ برقی رَو ایک ایسی توانائی ہے جو زمین کے رہنے والوں اور زمین سے
پیدا ہونے والوں کو جانتی، سمجھتی اور سنبھالتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کے اندر
سمجھ نہ ہو۔ یہ ہر چیز کو سمجھتی ہے اور بقدر ضروریات کام کرتی ہے۔ اس کی ضرورت
کتنی ہے؟ اور کیوں ہے؟ یہ اس کو خوب سمجھتی ہے۔
سائنسدان
زندگی کی وجہ نائٹروجن اور آکسیجن کو قرار دیتے ہیں اور ان دونوں میں آکسیجن زیادہ
اہمیت رکھتی ہے، لیکن آدمی مرتا ہے۔ اس کے ارد گرد آکسیجن اور نائٹروجن کی وافر
مقدار موجود رہتی ہے۔ اس کے باوجود مر جاتا ہے۔
آخر
ایسا کیوں ہے؟
یہ
مسئلہ بہت زیادہ فکر طلب ہے یہی وہ برقی رَو ہے جس کو ہم روح کا نام دیتے ہیں۔ ایک
مکتبہ فکر اس کو لائف اسٹریم بھی کہتا ہے۔ لائف اسٹریم، زمین کے ہر حصّہ میں گشت
کرتی رہتی ہے۔ اور اس کی توجّہ کا مرکز ہمارا پورا سیّارہ ہے۔ اور پورے سیّارے کی
وہ تمام چیزیں جو سیّارے میں پائی جاتی ہیں، چاہے وہ مٹی کا ذرّہ ہو، چاہے وہ کوئی
ایسی چیز ہو جس سے ہم ابھی تک ناواقف ہیں۔ بہرکیف، جس قانون کے تحت اس کی توجّہ
مرکوز رہتی ہے وہ نیچر کا ہی قانون ہے، ہم اسے نیچر کے قانون سے الگ نہیں کر سکتے۔
اب
سوال یہ ہے کہ اس کی رفتار کیا ہو سکتی ہے؟ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے کہیں
زیادہ تیز ہے۔ (روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سَو بیاسی میل فی سیکنڈ
بتائی جاتی ہے) لیکن یہ برقی رَو اتنی تیز ہوتی ہے کہ باوجود گردش کے ہم اسے ساکت
دیکھتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بیک وقت ہر جگہ موجود ہے۔ جہاں تک انسان کے اندر اس کی
گردش کا سوال ہے تو یہ اُس کے ارادہ میں موجود رہتی ہے اور ارادہ کے ساتھ بالفعل
کام کرتی ہے۔
انسان
ارادہ کرتا ہے۔ ارادہ میں یہی روح موجود ہے اور کام کرتی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا
ہے کہ اس نے کوئی کام نہیں کیا، حالانکہ یہ موجود ہے اور برابر ارادہ میں دَور کر
رہی ہے۔ اِس کی مثال یہ ہے کہ انسانی ہاتھ میں بھی ارادہ کام کرتا ہے۔ اگر وہ ارادہ
کرے اور ہاتھ کو حرکت نہ دے تو ہاتھ جنبش بھی نہیں کرے گا، یا کسی چیز کو نہیں
پکڑے گا، یا کوئی وزن نہیں اٹھا سکے گا، جب تک کہ ارادہ میں کوئی چیز موجود نہ ہو۔
اگر ارادہ میں وزن اٹھانے کی نیّت موجود ہے تو ہاتھ وزن اٹھا سکتا ہے ورنہ نہیں۔
سورہ
یٰسین کی آیت نمبر 82 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اس کا
امر یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی چیز کا تو کہتا ہے ‘‘ہوجا’’
اور
وہ وہ جاتی ہے۔‘‘
غور
طلب بات یہ ہے کہ صرف ارادہ کام نہیں کرتا بلکہ ارادہ میں حرکت کام کرتی ہے اور
حرکت اس طرح دی جاتی ہے کہ کہا جائے۔ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔
اللہ
تعالیٰ نے یہ قانون بیان فرمایا ہے۔ اس میں إستثناء نہیں ہے۔ اس قانون کے ساتھ یہ
بھی کہہ دیا گیا ہے کہ روح میرے ربّ کے امر سے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ روح کام
کر سکتی ہے۔
البتہ
یہ مسئلہ زیر بحث آتا ہے کہ ہر آدمی ایسا نہیں کر سکتا حالانکہ ہر آدمی کے اندر
روح موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شخص ابھی ایک ارادہ کرتا ہے۔ نیّت نہیں کی ہے
اور ارادہ بدل دیتا ہے۔ ایسا اکثر اوقات ہوتا ہے کہ دوسرا ارادہ پہلے ارادہ کے
بالکل برعکس ہوتا ہے اور ارادہ میں نیّت شامل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے کوئی نتیجہ
برآمد نہیں ہوتا۔
ارادہ
کے ساتھ نیّت یا حرکت کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان کا ذہن کسی ایک نقطہ
پر مرکوز ہو جائے۔
ذہن کو
ایک نقطہ پر مرکوز کرنے کے لئے مراقبہ، خود ترغیبی، سانس کی مشقیں وغیرہ کرائی
جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ نیّت کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور
یقین کی طاقت بڑھتی رہتی ہے۔
روح کی
قوت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جتنی روح کی قوت بڑھے گی اتنا ہی اس کا سرکل (circle)
بڑھتا
جائے گا۔ اس کا احاطہ زیاہ ہوتا جائے گا۔ اور جتنے فاصلہ پر بھی وہ ذہنی قوت سے
کام لینا چاہے گا۔ لے سکے گا۔ لیکن ایک چیز ضروری ہے اور وہ میڈیم ہے۔ آدمی کسی
چیز کو میڈیم بناتا ہے اور میڈیم بنا کر کام کرتا ہے۔ خواہ وہ میڈیم کوئی بھی ہو۔
کوئی جاندار شئے ہو یا کوئی غیر جاندار چیز ہو۔ کوئی تصوّر ہو، کوئی نقطہ ہو۔
قانون:
جسے
آدمی بے جان کہتا ہے دراصل وہ بے جان نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے اندر برقی رَو گردش کر
رہی ہے۔ میڈیم بنانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کسی شخص کو اپنی قوتوں پر کوئی بھروسہ
نہیں ہے اور ابتدائی حالات میں تو بالکل نہیں ہوتا۔
تعویذ،
عمل، توجّہ اور دَم دُرود کے ذریعے علاج عورتوں میں زیادہ رائج ہے۔ اس کی وجہ ہے
کہ مرد کے دماغ میں ایچ پینچ، چون چراں اور منطق کی بہت سی شاخیں ہوتی ہیں۔ کم از
کم ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ذہن میں اس قسم کی باتیں نہیں ہوتیں۔ ان کو جو بتا
دیا جاتا ہے وہ اس پر یقین کر لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ارادہ اور نیّت کی
قوتیں الگ الگ بہت کم ہوتی ہیں۔ اکثر مجتمع ہوتی ہیں اور ان کا اجتماع جو بذات خود
’’روشنی‘‘ ہے، قوت بخشتا ہے۔
لوحِ
محفوظ:
اللہ
تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق تخلیق میں دوہرے دو رخ کام کر رہے ہیں۔
’’ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْن‘‘ (سورۃ
الرعد – آیت نمبر 3)
قانون
یہ ہے کہ جب دو اشیاء باہم ملتی ہیں تو ایک نئی شئے وجود میں آ جاتی ہے۔
مثال:
کسی
صاحب یقین نے کسی کاغذ کے پرزہ پر کوئی آیت یا کوئی نقش لکھ کر دیا۔ جس نے یہ نقش
حاصل کیا ہے اس کے اندر بھی یقین ہے۔ جب دو یقین ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو جو
کچھ ارادہ میں موجود ہے وہ ظاہر ہو جاتا ہے۔
ایک
طالب علم اِمتحان میں کامیابی کے لئے پوری محنت اور لگن سے کورس کی کتابیں پڑھتا
ہے مگر ساتھ ساتھ اس کے ذہن میں یہ خیال بھی ہے کہ شاید اِمتحان میں کامیابی نہ
ہو، اتنا اچھا رزلٹ نہ آئے جس کی اسے ضرورت ہے، وہ غیبی امداد حاصل کرنے کے لئے
تعویذ حاصل کرتا ہے یا کوئی عمل پڑھتا ہے تو اس طرز عمل سے اس کے اندر یقین کی قوت
پیدا ہو جائے گی۔ اور یقین کی اس طاقت سے منتشر ذہن یک سُو ہو جائے گا۔ ذہنی
یکسوئی حافظہ کی بحالی اور فہم پیدا کرتی ہے۔چونکہ ذہن منتشر نہیں ہے یقین موجود
ہے۔ حافظہ ٹھیک کام کر رہا ہے۔ فہم اپنی جگہ مصروف عمل ہے۔ پرچے حل کرنے میں اسے
کوئی دقّت پیش نہیں آئے گی اور وہ اپنے منشاء کے مطابق اِمتحان میں کامیابی حاصل
کر لے گا۔