Topics

بغیر استاد کیا نقصان ہوتا ہے؟

سوال: ٹیلی پیتھی کے اسباق میں یہ بات کئی بار کہی جا چکی ہے کہ ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم اور اس نَوع کی دیگر مشقیں جن کا مقصد ذہنی قوّتوں کو بیدار کرنا ہوتا ہے کسی ماہر استاد کی اجازت و نگرانی کے بغیر نہیں کرنی چاہئیں۔ یقیناً اس تنبیہہ کے پسِ پشت ٹھوس حقائق ہوں گے۔ کیا آپ اس امر پر روشنی دالیں گے کہ بغیر استاد کی نگرانی کے اس قسم کی مشقیں کرنے سے آدمی کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟

جواب: اگر کوئی شخص از خود اس قسم کی مشقیں شروع کر دے جس میں شعوری سکت نہیں ہے یا کم ہے تو وہ بہت جلد جسم میں خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ سارا جسم سوکھنے لگتا ہے۔ معدے کا فعل بگڑ سکتا ہے اور پھیپھڑوں کی کارکردگی کم ہو سکتی ہے۔ شعور کے اوپر اگر سکت سے زیادہ وزن پڑ جاتا ہے تو آدمی کا دماغی توازن خراب ہو جاتا ہے۔ ٹیلی پیتھی کی مشقیں کرنے سے لاشعور کو تحریک ملتی ہے جس کی وجہ سے شعور پر دباؤ پڑتا ہے۔ لہٰذا وہ دماغ کو بھاری کر کے ان مشقوں سے باز رکھنا چاہتا ہے۔ کبھی کبھی یہ بھاری پن سخت اشتعال، جذباتی گھٹن، سماجی اونچ نیچ اور گہرے احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی لئے روحانی استاد مشقیں شروع کرنے سے پہلے طلبہ اورطالبات کے ذہنوں کی صفائی پر بطورِ خاص زور دیتے ہیں۔

بلا اجازت مشقیں کرنے سے جنسی جذبات بھڑک اٹھنے اور جنسی امراض پیدا ہو جانے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے جبکہ ان مشقوں کے دَوران جنسی توانائی کو محفوظ رکھنے کی بالخصوص ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کو اندھا دھند خرچ کرتے رہنے سے یہ مشقین نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

میرے پاس ایک لڑکی کو لایا گیا۔ شکایت یہ بتائی گئی کہ اس کی آنکھیں آسمان کو گھورتی رہتی ہیں اور کچھ دیر بعد اس کے اعصاب اکڑ جاتے ہیں اور وہ بے ہوش ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ خواب آور تیز دوائیں بھی کام نہیں کرتیں اور یہ لڑکی مستقل بہتر72گھنٹے سے جاگ رہی ہے۔ سب ٹیسٹ نارمل ہیں، جسمانی طور پر کوئی خرابی نہیں معالجین کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ لڑکی کو کوئی سایہ نظر آتا ہے جس سے وہ باتیں کرتی رہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

سوالات اور تحلیلِ نفسی کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ لڑکی نے کسی رسالے میں ٹیلی پیتھی کے اوپر شائع ہونے والی کہانی سے متاثر ہو کر سورج بینی شروع کر دی تھی اور گھر والوں کے علم میں لائے بغیر دوپہر کو چھت پر جا کر سورج دیکھا کرتی تھی۔ قصہ کوتاہ! یہ علاج تجویز کیا گیا کہ لڑکی کو دن کی روشنی میں کمرہ سے باہر نہ نکالا جائے۔ خواہ یہ کتنا بھی احتجاج کرے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بچی ٹھیک ہو گئی۔

اگر یہی مشق قاعدے قرینے سے کسی استاد کے زیر نگرانی کی جاتی تو نتائج منفی نہ ہوتے۔ بلکہ مثبت نتائج مرتّب ہونے سے دماغ طاقتور اور حافظہ روشن ہو جاتا۔ چہرہ میں مقناطیسیت کے چراغ جلتے بجھتے۔ فہم و فراست کے خزانے کھل جاتے۔ غیب بینی کی صلاحیت متحرّک اور بیدار ہو جاتی۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہوتی کہ انسانی رشتوں میں محبت کی چاشنی پیدا ہو جاتی۔

ہر علم میں استاد کی جگہ خالی ہے۔ جب تک استاد نہ ہو یہ جگہ پُر نہیں ہوتی۔ ہر پیدا ہونے والے بچہ کو استاد کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر بچے کا پہلا استاد اس کی ماں اور اس کا باپ ہوتا ہے۔

Topics


Rooh Ki Pukar

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے