Topics
جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی سورہ
البقرۃ میں فرمایا ہے کہ یہ کتاب ایسی ہے کہ جس میں کسی قسم کا شک و شبہ یا وسوسہ
یا ابہام نہیں ہے۔ یہ کتاب متقی لوگوں کیلئے ہدایت کا سرچشمہ ہے پھر اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں کہ متقی لوگ کون ہیں، متقی وہ لوگ ہیں جن کا غیب پر یقین ہوتا ہے۔ غیب
پر ایمان کا مطلب ہے یقین اور ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوتا ہے۔ تو یہ کتاب
ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے اور جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں اس کے بارے میں وہ یہ کہتے
ہیں وہ یہ جانتے ہیں اور ان کا ایمان ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ خرچ کر رہے ہیں یہ
ہمارا نہیں بلکہ یہ سب اللہ کا ہے۔ خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جتنے بھی وسائل
ہمارے لئے موجود ہیں۔ زمین کے اوپر جیسے ماں باپ ہوں، اَولاد ہو، بیوی بچے ہوں،
رشتہ دار ہوں، کاروبار ہو۔ یہ سب اللہ کی عنایت ہے۔ اللہ کا دیا ہوا ہے، وہی لوگ
ہدایت یافتہ ہیں اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
قرآن کی ان آیتوں سے یہ بات بالکل پوری طرح
واضح ہو جاتی ہے کہ:
قرآن کو سمجھنے کیلئے قرآن سے ہدایت پانے کیلئے
چار باتوں کا ہونا ضروری ہے۔
1. ایک یہ کہ آدمی متقی ہو۔
2. دوسرے یہ کہ اس آدمی کا غیب پر یقین ہو۔ غیب
کے یقین کو روحانی لوگ مشاہدہ کہتے ہیں۔ یعنی وہ غیب کو دیکھتا ہو
3. تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اس سے تعلق قائم
ہو اور
4. چوتھے یہ کہ جو کچھ اس کو مل رہا ہے یعنی
پیدا ہونا، مرنا، جینا، جوان ہونا، اَولاد، کاروبار سب کو وہ منجانب اللہ سمجھتا
ہو۔
جب یہ چاروں صفات کسی انسان کے اندر آ جائیں گی
اس کو قرآن سے ہداہت ملے گی اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔