Topics
جواب: ہر نماز باعث برکت ہے لیکن ان کی خصوصیات
الگ الگ ہیں۔
فجر کی نماز ادا کرنے والا بندہ دوسری تمام
مخلوق کے ساتھ جب عبادت اور تسبیح میں مشغول ہوتا ہے تو دنیا کا پورا ماحول
مصفّٰی، مجّلٰی اور پُر انوار ہو جاتا ہے اور ماحول کی اس پاکیزگی سے انسان کو
روحانی اور جسمانی صحت نصیب ہوتی ہے۔
سورج کی تمازت ختم ہو کر جب زوال شروع ہوتا ہے
تو زمین کے اندر سے ایک گیس خارج ہوتی ہے۔ یہ گیس اس قدر زہریلی ہوتی ہے کہ اگر
آدمی کے اوپر اثر انداز ہو جائے تو وہ قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
دماغی نظام اس حد تک درہم برہم ہو سکتا ہے کہ اس کے اوپر ایک پاگل آدمی کا گمان
ہوتا ہے۔ اس وقت جو بندہ ذہنی طور پر عبادت میں مشغول ہو جاتا ہے تو اسے نماز کی
نورانی لہریں اس زہریلی گیس سے محفوظ رکھتی ہے۔ ان نورانی لہروں سے یہ زہریلی گیس
بے اثر ہو جاتی ہے۔ یہ ظہر کی نماز کی برکات ہیں۔
ہر ذی فہم انسان اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ سہ
پہر کے وقت اس کے اوپر ایسی کیفیات طاری ہوتی ہیں جس کو وہ تکان اور اِضمحلال کا
نام دیتا ہے۔ یہ تکان اور اِضمحلال جو اس پر لاشعوری حواس کی گرفت کا نتیجہ ہوتا
ہے۔ عصر کی نماز شعور کو اس حد تک مضمحل ہونے سے روک دیتی ہے۔ جس سے دماغ پر خراب
اثرات مرتّب ہوں۔ عصر کی نماز قائم کرنے والے بندے کے شعور مین اتنی طاقت آ جاتی
ہے کہ وہ لاشعوری نظام کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے اور اپنی روح سے قریب ہو جاتا
ہے۔ نماز عصر کی بہت سی برکات بیان کی گئی ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے
نماز عصر کھوئی اس نے دنیا کھوئی۔
آدمی بالفعل اس بات کا شکر ادا کرتا ہے کہ اسے
اللہ تعالیٰ نے رزق عطا فرمایا۔ ایسا گھر اور بہترین رفیقہ حیات عطا کی جس نے اس
کی اور اس کے بچوں کی غذائی ضروریات پوری کیں۔ شکر کے جذبات سے وہ مسرور اور خوش و
خرم اور پُرکیف ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر خالقِ کائنات کی وہ صفات متحرّک ہو جاتی
ہیں جن کے ذریعہ کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ پُرسکون
ذہن سے محو گفتگو ہوتا ہے تو اس کے اندر کی روشنیوں سے اَولاد کے دل میں ماں باپ
کا احترام اور وقار قائم ہوتا ہے۔ بچے غیر ارادی طور پر ماں باپ کی عادتوں کو تیزی
کے ساتھ اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور ان کے اندر ماں باپ کی اہمیت و عشق کا جذبہ
پیدا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغرب کی نماز صحیح طور پر اور پابندی کے ساتھ ادا کرنے
والے بندے کی اَولاد سعادت مند ہوتی ہے اور ماں باپ کے لئے ایک بہترین اثاثہ ہوتی
ہے۔
اب میں آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں کہ آخر اکثر
وظائف یا اوراد بعد نماز عشاء ہی کیوں پڑھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ دراصل عشاء کی
نماز غیب سے متعارف ہونے اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کا ایک خصوصی پروگرام
ہے کیونکہ عشاء کے وقت آدمی رات کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
روحانی تعلیم و تربیت کے اسباق اور وظائف عشاء کی نماز کے بعد پورے کئے جاتے ہیں۔
اس لئے جب آدمی رات کے حواس میں ہوتا ہے تو وہ
لاشعور اور روحانی طور پر غیب کی دنیا سے قریب اور بہت قریب ہو جاتا ہے اور اس کی
دعائیں قبول کر لی جاتی ہیں۔ عشاء کی نماز اس نعمت کا شکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
اسے بیداری کے حواس سے نجات عطا فرما کر وہ زندگی عطا فرما دی ہے جو نافرمانی کے
ارتکاب سے پہلے جنّت میں حضرت آدم علیہ السّلام کو حاصل تھی۔ یہی وہ حواس ہیں جن
میں آدمی خواب دیکھتا ہے اور خواب کے ذریعہ اس کے اوپر مسائل، مشکلات اور بیماریوں
سے محفوظ رہنے کا انکشاف ہوتا ہے۔ خواب کی تعبیر سے وہ مستقبل میں پیش آنے والی
مصیبتوں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سونے والے بندے
کی پوری رات لاشعوری طور پر عبادت میں گزرتی ہے اور اس کے اوپر اللہ کی رحمت نازل
ہوتی رہتی ہے۔ ایسے بندے کے خواب سچے اور بشارت پر مبنی ہوتے ہیں۔ عشاء کی نماز
ادا کرنے کے بعد چونکہ بندہ کے اندر روحانی صلاحیتیں پیدا ہو جاتی ہیں چنانچہ اس
نماز کے بعد وہ اسماءِ الٰہیہ کا وِرد کرتا ہے تو اس اسم یا کلام کے اندر کام کرنے
والی روحانی طاقت کا جلدی اثر ہوتا ہے اور زیادہ فائدہ پہنچتا ہے