Topics

علم استدراج اور علم نوری میں فرق

 سوال: علم استدراج اور علم نوری سے کیا مراد ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے قصے میں قرآن میں بتایا گیا؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔’’اے موسیٰ! ڈر مت اپنے عصا کو پھینک دے۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا عصاء یا لاٹھی ایک بڑا اژدھا بن گیا اور اس نے میدان میں موجود تمام سانپوں اور اژدھوں کو نگل لیا۔ اور اس طرح علم استدراج یا جادو کے علوم پر علمِ حُضوری کو فتح حاصل ہوئی۔ لیکن یہ بات محل نظر ہے کہ جادوگروں نے رسی پھینکی تو سانپ بن گئی اور بانس پھینکے تو اژدھے بنے اور موسیٰ علیہ السّلام نے لاٹھی پھینکی تو وہ بھی ایک اژدھا بن گئی۔ فرق اگر کچھ ہے تو یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السّلام کی ایک لاٹھی اتنا بڑا اژدھا بن گئی کہ اس نے میدان میں موجود بے شمار سانپوں اورا ژدھوں کو نگل لیا۔ لیکن جہاں تک جادوگروں کی خرق عادت یا جادو کا تعلق ہے ان کی رسیاں بھی سانپ بنتی ہیں اور جہاں تک موسیٰ علیہ السّلام کے معجزہ کا تعلق ہے ان کی لاٹھی بھی اژدھے کی صورت اختیار کرتی ہے البتہ ایک بات ہمیں نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ موسی ٰ علیہ السّلام کا بنایا ہوا اژھا بہت زیادہ طاقتور تھا۔ یعنی جادو اور علمِ حق دونوں علوم کا وجود تو ہے مگر علمِ حق ہمیشہ شیطانی علوم یا استدراج پر غالب آتا ہے۔

اس بات کو ذرا آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس طرح کہا جائے گا کہ علم کا تعیّن دو درجوں میں ہوتا ہے ایک درجہ یہ ہے کہ اس علم کی بنیاد زر پرستی، جاہ طلبی اور دنیاوی عزت و وقار ہوتا ہے اور علمِ حق کی تعریف یہ ہے کہ علمِ حق میں ماسوا اللہ کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ علمِ حق والا بندہ جو کچھ کرتا ہے جو کچھ دیکھتا ہے جو کچھ سنتا ہے وہ حق کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے پیش نظر کوئی نام وَری نہیں ہوتی اس کے پیش نظر نعوذ باللہ زر پرستی نہیں ہوتی۔ اس کے پیش نظر کوئی دنیاوی لالچ نہیں ہوتا۔ اس کے ذہن میں کبھی یہ بات نہیں آتی کہ مجھ سے کوئی ایسی خرق عادت صادرہو جس کی وجہ سے لوگ مرعوب ہوں اور میری عزت کریں۔ اس کے برخلاف علم استدراج والوں کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کارنامے دکھا کر دنیا حاصل کریں اور دنیا کی نظر میں سرخرو ہوں۔ اس کی سند بھی قرآن پاک سے ملتی ہے۔ فرعون مصر نے جادوگروں کو طلب کر کے کہا کہ اگر تم نے موسیٰ کو زیر کر دیا تو میں تم کو مالا مال کر دوں گا اور تمہیں اپنا مصاحب بنا لوں گا۔۔۔۔۔۔اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادو کے زور پر جو کارنامے انجام دیئے اس کے پیچھے ان کے خیالات، اغراض و مقاصد اور دنیا پرستی تھی۔ جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو میدان میں آنے سے پہلے اس قسم کی کسی بات کا خیال تک نہیں آیا۔ محض حق کے غلبہ کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کو ظاہر کرنے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ شیطانی علوم علمِ حق کے سامنے باطل ہیں۔ کمزور ہیں، جھوٹے ہیں، میدان میں تشریف لے آئے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ڈر مت پھینک دے، یہ ثابت کرتا ہے کہ موسیٰ علیہ السّلام کے ساتھ میدان میں جو کچھ پیش آیا وہ اس کے لئے تیار نہیں تھے محض اللہ کے بھروسہ پر ان بڑے بڑے طاقت ور جادوگروں کے سامنے اللہ کے لئے کھڑے ہو گئے۔ اس واقعہ میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جادوگروں نے جو رسیاں پھینکی تھیں اور ان کے سانپ بن گئے تھے اور جو بانس پھینکے تھے ان کے اژدھے بن گئے تھے۔ یہ سب فریب دھوکہ اور فکشن تھا اس لئے کہ جب موسیٰ علیہ السّلام کی لاٹھی نے ان کو نگل لیا تو اس کا کوئی وجود قائم نہیں رہا جب کہ موسیٰ علیہ السّلام نے اپنی لاٹھی پر دوبارہ ہاتھ ڈالا تو ان کی لاٹھی موجود تھی۔ معجزہ اور جادو میں یہ فرق بہت نمایاں ہے۔ جادو کے زور سے کوئی چیز قائم کی جائے یا کسی کے اندر تصرّف کیا جائے چونکہ وہ اس ذہن کی پیداوار نہیں ہے جو ذہن حقیقت سے آشنا ہے اس لئے جادو کی تخلیق یا جادو کا یہ مظاہرہ عارضی ہوتا ہے۔ قانون یہ ہے کہ حقیقت ادلتی بدلتی نہیں ہے۔ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے اور حقیقیت رہتی ہے۔ جادو کے زور سے بنے ہوئے سانپ اور جادو کے زور سے بنے ہوئے اژھے سب نیست و نابود ہو گئے اور موسیٰ علیہ السّلام کی لاٹھی اپنی جگہ موجود رہی۔ اس واقعہ سے روحانیت میں چلنے والے شاگردوں کے لئے یہ راز ظاہر ہوتا ہے کہ طرزِ فکر اگر غیر حقیقی ہو وہ عارضی ہوتی ہے اور اس سے آدمی ذہنی طور پر فرار حاصل کر لیتا ہے۔ طرزِ فکر اگر حقیقی ہو تو حقیقت آشنا، طرزِ فکر جہاں بھی منتقل ہو جائے حقیقت آشنا رہتی ہے اور حقیقیت میں ردّ و بدل نہیں ہوتا۔ ایک استاد یا گُرو اپنے چیلے کو جب استدراجی علوم سکھاتا ہے اور یہ علوم سکھانے کے لئے چیلے کے اندر اپنی طرزِ فکر منتقل کرتا ہے تو وہ چیلا گُرو بن جاتا ہے لیکن یہ گُرو کسی بھی وقت اس طرزِ فکر سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے یا کر سکتا ہے اور ایک ایسا بندہ جو سیدنا حضورﷺ یا پیغمران کرام علیہم السّلام کی طرزِ فکر سے آشنا ہے یا اولیاء اللہ کی طرزِ فکر اسے فی الواقع منتقل ہو گئی ہے تو یہ بندہ اس طرزِ فکر سے کبھی آزاد نہیں ہوتا اور اس طرزِ فکر میں برابر اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ حقیقت حقیقت سے گلے مل لیتی ہے۔

تاریخ میں ایسی ایک مثال موجود نہیں ہے کہ کسی ایسے بندے نے جو حقیقی طرزِ فکر کا حامل تھا علم استدراج کی طرف رجوع کیا ہو اور ایسی ہزار ہا مثالیں موجود ہیں کہ علم استدراج کے بڑے بڑے ماہر اور دانش وروں نے اسلام کی حقانیت کو قبول کر کے شیطانی علوم سے اپنا دامن صاف کر لیا ہے۔ پیر و مرشد دراصل ایک استاد یا گرو کی طرح ہے بات صرف اتنی سی ہے کہ استاد کے اندر طرزِ فکر کون سی کام کر رہی ہے؟ اس طرزِ فکر کا تعلق شیطنیت سے ہے یا اس طرزِ فکر کی رسائی حق تک ہے۔ جس کی طرزِ فکر کی رسائی حق تک ہے وہی طرزِ فکر بندے کو اللہ سے متعارف کراتی ہے اور ایسا ہی بندہ راہِ سلوک میں قدم قدم چل کر اللہ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔

طرزِ فکر کے بارے میں جو کچھ عرض کیا گیا اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دراصل انسان کا کردار اس کی طرزِ فکر سے تعمیر ہوتا ہے۔ طرزِ فکر میں اگر پیچ ہے تو کسی بندے کا کردار بھی پُر پیچ بن جاتا ہے۔ طرزِ فکر سادہ ہے تو بندے کی زندگی میں سادگی کارفرما ہوتی ہے۔ طرزِ فکر اگر سطحی ہے تو ایسا بندہ ہر چیز کو بالکل سطحی طریقہ پر سوچتا ہے۔ طرزِ فکر میں اگر گہرائی ہے تو بندہ ہر چیز کے اندر گہرائی تلاش کرنے کے لئے تفکر کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اسی طرزِ فکر کی نشاندہی کی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے سورج کو دیکھا تو سمجھا کہ یہی خدا ہے لیکن جب اسے زوال پذیر ہوتے دیکھا تو طرزِ فکر کی گہرائی نے ان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ گھٹنے والی چیز کبھی خدا نہیں ہو سکتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ماحول میں جتنے اور لوگ تھے ان کی سمجھ میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ بدلنے والی اور گھٹنے والی چیز کبھی خدا نہیں ہو سکتی۔ ہزاروں لاکھوں آدمیوں کی موجودگی میں ایک فرد واحد کی سوچ الگ ہے اور اس سوچ میں حقیقت پسندی اور گہرائی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے واقعہ سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ بہت برے ماحول میں ایک خاص طرزِ فکر کے لوگوں میں رہتے ہوئے بھی طرزِ فکر الگ ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت پسندانہ طرزِ فکر کہاں سے منتقل ہوئی۔ جب کہ پورے ماحول میں یہ کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ حقیقت پسندانہ طرزِ فکر ہر آدمی کے اندر موجود ہے لیکن ہر آدمی اسے استعمال نہیں کرتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بتوں کو توڑ ڈالا۔ لوگوں کے اندر اشتعال پیدا ہو گیا۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے پوچھا کہ ان خداؤں کو کس نے توڑا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اپنے ان خداؤں سے پوچھ لو۔ باوجود یہ کہ ان لوگوں کے سامنے یہ بات آ گئی کہ بت اپنی مرضی اور منشاء کو استعمال نہیں کر سکتے اور انہیں توڑا پھوڑا جا سکتا ہے۔ ان کے اندر حقیقت پسندی نے حرکت نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی غیر حقیقی باتوں کو اصل اور حقیقی سمجھتا ہے۔ تصوّف میں سالک جب راہِ سلوک اختیا رکرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی طرزِ فکر میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اوراس طرزِ فکر کی داغ بیل اس طرح پڑتی ہے کہ روحانی استاد یا پیر و مرشد بتدریج اپنے شاگرد سے اس قسم کی باتیں کرتا ہے جو اس کے ماحول میں موجود نہیں ہیں یا ماحول میں بسنے والے لوگ ان کی طرف اپنے اختیار سے توجہ نہیں دیتے۔ مثلاً اگر یہ کہ فی الواقع کوئی روحانی شخصیت ہے اس کی مجلس میں بیٹھ کر ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں جو عام طور پر دوسری مجلسوں میں نہیں کہی جاتیں۔ بعض اوقات یہ باتیں اتنی دلچسپ اور عجیب ہوتی ہیں کہ ایسے لوگ بھی جن کی طرزِ فکر ناقص ہے اور یہ ناقص طرزِ فکر ان کے اندر مستحکم ہے وہ بھی ان باتوں کو سننے کے لئے اس مجلس میں شریک ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے پیر و مرشد جو کام سر انجام دیتا ہے وہ یہ ہے کہ مرید کے اندر اس بات کو راسخ کر دیتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی مفروضہ فکشن اور عارضی ہے جو چیز مفروضہ فکشن اور عارضی ہے اس کو حقیقت نہیں کہا جا سکتا۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ باوجود یہ کہ آدمی خود کو بااختیار سمجھتا ہے۔ زندگی کے شب و روز میں کہیں بھی اس کا اختیار زیر بحث نہیں آتا۔ وہ پیدائش کے بعد بالکل غیر اختیاری طور پر بڑھتا رہتا ہے۔ جوانی کے بعد یہ نہ چاہنے کے باوجود کہ وہ بوڑھا ہو بالآخر بوڑھا ہو جاتا ہے۔ دنیا کا ایک فرد واحد بھی نہیں چاہتا کہ وہ مر جائے لیکن جو آدمی پیدا ہوتا ہے وہ ضرور مرتا ہے۔ آدمی کو اس بات پر تو اختیار حاصل ہے جیسا کہ وہ سمجھتا ہے کہ غذائی ضروریات کو کم یا زیادہ کر لے لیکن اِس بات پر اُس کو بالکل دسترس حاصل نہیں کہ وہ ساری زندگی کھانا نہ کھائے یا ساری زندگی پانی نہ پیئے۔ یا ہفتوں مہینوں بیدار رہے۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ جو ہر شخص کے ساتھ نہ صرف یہ کہ پیش آتی ہیں بلکہ اس کے ہر ہر لمحہ کے ساتھ چپکی ہوئی ہیں۔

لمحات وقت گھنٹے دن مہینے اور سالوں کا یہ تغیّر ایک ایسا تغیّر ہے جس سے کوئی باہوش آدمی انکار نہیں کر سکتا۔ ان تمام تغیّرات کی نشاندہی کر کے پیر و مرشد یہ بات بتاتا ہے کہ اس تغیّر کے پیچھے یہ حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ کوئی ذات ایسی ہے جس کے ہاتھ میں اس تغیّر و تبدل کی ڈوریاں ہیں اور وہ ہاتھ سے ان ڈوریوں کو جس طرح حرکت دے رہا ہے زندگی تغیّر پذیر ہو رہی ہے۔ جب سالک کے ذہن میں یہ دن رات کا ایسا مشاہدہ جس کے اوپر عوامُ النّاس نے پردہ ڈالا ہوا ہے سامنے آتا ہے تو اس کا ذہن خود بخود اس ہستی مطلق کی طرف رجوع ہوتا ہے جس ہستی کے ہاتھ میں تغیّر و تبدل کی ڈوریاں حرکت کر رہی ہیں۔ یہ طرزِ فکر کا پہلا بیج ہے جو کسی مرید یا سالک کے دماغ میں بو دیا جاتا ہے پھر اس بیج کو پروان چڑھانے کے لئے پیر و مرشد مزید جدّ و جہد اور کوشش کرتا ہے اور وہ یہ کہ وہ ایسے برگزیدہ حضرات کو سامنے لاتا ہے جن کی طرزِ فکر میں حقیقت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

Topics


Rooh Ki Pukar

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے