Topics
1۔ انسانی جسم میں لطیفے (روشن نقطے) ہوتے ہیں۔
لطیفے کا کیا مطلب ہے؟
2۔ ’’علمِ لدُنّی‘‘ کون سا علم ہے؟۔۔۔۔۔۔اس کے
کیا معنی ہیں؟
3۔ پیر و مرشد کے وصال کے بعد مرید کس طرح
رہنمائی حاصل کرے؟۔۔۔۔۔۔یکسوئی حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
4۔ وسوسوں اور خیالات سے کس طرح چھٹکارا حاصل
کیا جائے؟
جواب: ہم ایک مکان بناتے ہیں لیکن مکان کی اس
وقت تک تکمیل نہ ہو گی جب تک پہلے اس کی بنیاد نہ رکھی جائے اور بنیاد کے اوپر
دیواریں کھڑی نہ کی جائیں۔ اسی طرح روح کی حقیقت یا بنیاد کو سمجھنے کے لئے اہلِ
تصوّف نے تین حصے کئے ہیں اور ہر حصے کو دو رخ پر تقسیم کیا ہے۔ اس طرح ان کی کل
تعداد چھ ہو گئی….. یہی چھ رخ تصوّف میں لطیفے کہلاتے ہیں۔ ہم جب کوئی عمل کرتے
ہیں تو تین کیفیتوں سے گزرتے ہیں۔
خیال
تصوّر، اور
احساس۔
کیفیت دو رخ پر قائم ہے اس طرح چھ رخ یا لطیفے
مُتعیّن ہو گئے۔
روح
کے ایک حصّہ کو روح حیوانی،
دوسرے حصّہ کو روح انسانی، اور
تیسرے حصّہ کو روح اعظم کہا جاتا ہے۔
روح حیوانی کے دو رخ….. لطیفۂِ نفسی اور لطیفہ قلبی ہیں۔
روح انسانی کے دو رخ…… لطیفۂِ
روح اور لطیفہ سری ہیں۔
روح اعظم کے دو رخ…… لطیفۂِ
خفی اور اخفیٰ ہیں۔
خفی،
اخفیٰ میں ….خیال تشکیل پاتا ہے۔
سری اور روح میں…. تصوّر کی منظر کشی ہوتی ہے۔
قلب اور نفس میں….. کسی چیز کا احساس یا مشاہدہ ہوتا ہے۔
علمِ لدُنّی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں
کو اپنی خاص رحمت سے عطا کرتے ہیں۔
اوّلیاء اللہ کے وصال کے بعد ان کی روح سے فیض
حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یاد رکھئے روح کبھی نہیں مرتی…… روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے
کیونکہ وہ قائم بالذّات ہے۔
یکسوئی حاصل کرنے کے لئے میرے تجربے میں مراقبہ
سے زیادہ کوئی عمل موثر نہیں ہے۔ مراقبہ کے ذریعے سالک کو یکسوئی کی اتنی زیادہ
مشق ہو جاتی ہے کہ وہ نماز بھی یکسوئی سے قائم کرتا ہے۔ محسوس کرتا ہے کہ مجھے
اللہ دیکھ رہا ہے اور میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔