Topics
جواب:
تصوّف نام ہے نورِ باطن کا اور نورِ باطن ایسا خالص ضمیر ہے جو تمام آلائش سے پاک
ہو۔ تصوّف سالک کو غیب سے متعارف کراتا ہے اور غیب میں مصروف روحانی دنیا کا
مشاہدہ و مطالعہ کراتا ہے۔ تصوّف بندہ کو خدا تک لے جاتا ہے۔ بندہ اس منزل پر پہنچ
جاتا ہے جس مقام کے حامل بندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں ان کا
ہاتھ ان کی آنکھ ان کی سماعت اور ان کی زبان بن جاتا ہوں۔
کسی
بھی علم کو سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت مُسلّمہ ہے۔ استاد کے بغیر کوئی بھی علم
شجرِ بے ثمر ہے۔ استاد اپنے شاگردوں کی طبیعت، صلاحیت، سکت اور سمجھ کے مطابق
تربیت کرتا ہے۔ استاد اس روحانی شخصیت کا نام ہے جس کو کسی علم پر پورا پورا عبور
حاصل ہو اس علم کے اصول و ضوابط اور قوانین سے پوری طرح واقف ہو اور اس کے حُصول
میں پیش آنے والے مسائل، آسانیاں، مشکلات وغیرہ سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہو بلکہ
ان کا سدِّباب بھی جانتا ہو۔ استاد سالک کو مختلف منزلوں سے گزار کر وہ گوہرِ
مقصود سالک کے حوالے کر دیتا ہے جو کسی سالک کا مقصود اور منشاء ہوتی ہے۔ تصوّف
سیکھنے کے لئے اسی بیعت کا ہونا ضروری ہے۔ ایک دفعہ بیعت ہونے کے بعد قانوناً آدمی
کسی بھی دوسری جگہ بیعت نہیں کر سکتا۔ جس طرح کسی شخص کی دو مائیں نہیں ہو سکتیں
اسی طرح روحانیت کے حُصول کے سلسلے میں دو پیر و مرشد کا تصوّر ممکن نہیں۔ جہاں تک
فیض کا تعلق ہے وہ پیر و مرشد کے وصال کے بعد ان کی روح پُرفتوح سے حاصل کیا جا
سکتا ہے۔ یاد رکھئے روح کبھی نہیں مرتی وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے کیونکہ وہ قائم
بالذات ہے۔ لیکن اگر مرید کا ظرف بننے سے پہلے اگر پیر و مرشد کا وصال ہو گیا ہو
اور وہ اس کی تربیت پوری نہ کر سکا ہو تو مرید اس ظرف کو بنانے اور تربیت پوری
کرنے کے لئے کسی روحانی استاد جس کو اس نے اچھی طرح پرکھ لیا ہو، کے حضور طالب ہو
سکتا ہے لیکن فیض صرف اسی پیر و مرشد سے حاصل ہو گا جس کے ہاتھوں پر پہلی بار اس
نے بیعت کی ہے۔