Topics
جواب:
کائنات کی بنیاد اور حقیقت ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کا ذہن علمِ
واجِب کہلاتا ہے۔ علمِ واجِب میں کائنات کا وجود اللہ تعالیٰ کے ارادے کے تحت
موجود تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کا مظاہرہ پسند فرمایا تو حکم دیا ’’کُن‘‘ یعنی
حرکت میں آ۔ چنانچہ بہ شکل کائنات، واجب میں جو کچھ موجود تھا اس نے پہلی کروٹ
بدلی اور حرکت شروع ہو گئی۔ پہلی حرکت تو یہ تھی کہ موجودات کے ہر فرد کو اپنا
ادراک ہو گیا۔ موجودات کے ہر فرد کی فکر میں یہ بات آئی کہ میں ہوں۔ یہ انداز فکر
ایک گم شدگی اور محویت کا عالم تھا۔ ہر فرد ناپیدا کنار دریائے توحید کے اندر غوطہ
زن تھا۔ ہر فرد کو صرف اتنا احساس تھا کہ میں ہوں۔ کہاں ہوں، کیا ہوں اور کس طرح
ہوں اس کا کوئی احساس اسے نہیں تھا۔ اس ہی عالَم کو عالَمِ وَحدت الوجود کہتے ہیں۔
اس عالَم کو اہل تصوّف وَحدت کا نام بھی دیتے ہیں۔ یہ وَحدت، وَحدت باری تعالیٰ
ہرگز نہیں ہے کیونکہ باری تعالیٰ کی کسی صفَت کو لفظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ یہ
وَحدت ذہنِ انسانی کی اپنی ایک اختراع ہے جو صرف انسان کے محدود دائرہ فکر کا
مظاہرہ کرتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے کسی لامحدود وصف کو صحیح طور پر بتانے سے قطعی
کوتاہ اور قاصر ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کسی لفظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفَت کا مکمل
اظہار ہو سکے۔
اس
حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ’’وَحدت‘‘ فکرِ انسانی کی اپنی ایک اختراع
ہونے کی حیثیت میں زیادہ سے زیادہ فکرِ انسانی کے علوم کی وسعت کو بیان کرتی ہے۔
جب کوئی انسان لفظ ’’وَحدت‘‘ استعمال کرتا ہے تو اس کے معنی بس یہی نکلتے ہیں کہ
وہ اللہ تعالیٰ کی یکتائی کو یہاں تک سمجھا ہے۔ بالفاظ دیگر لفظ ’’وَحدت‘‘
کا
مفہوم انسان کی اپنی حدِّ فکر تک محدود ہے۔ اس محدودیت ہی کو انسان لامحدودیت کا
نام دیتا ہے۔ فی الواقع اللہ تعالیٰ اس قسم کی توصیفی حدوں سے بہت ارفع و اعلیٰ
ہے۔ جب ہم ’’وَحدت‘‘ کہتے ہیں تو فی الحقیقت اپنی ہی وَحدت فکر کو تذکرہ کرتے ہیں۔
اس ہی
مقام سے عالمِ وَحدت الوُجود کے بعد عالمِ وَحدت الشُہود کا آغاز ہوتا ہے۔ اللہ
تعالیٰ روحوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ:
کیا
میں نہیں ہوں تمہارا رب؟ (سورۃ الاعراف)
یہاں سے
انسان یا امرِ ربّی کی نگاہ وجود میں آجاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ کسی نے مجھے مخاطب
کیا اور مخاطب پر اس کی نگاہ پڑتی ہے۔ وہ کہتا ہے:
’’جی
ہاں!‘‘ مجھے آپ کی ربّانیت کا اعتراف ہے اور میں آپ کو پہچانتا ہوں۔ (سورۃ الاعراف)
یہ ہے
وہ مقام جہاں امرِ ربّی نے دوسری حرکت کی۔ اس ہی مقام پر وہ کثرت سے متعارف ہوا۔
اس نے دیکھا کہ میرے سِوا اور بھی مخلوقات ہیں کیونکہ مخلوق کے ہجوم کا شُہود اسے
حاصل ہو چکا تھا، اسے دیکھنے والی نگاہ مل چکی تھی۔ یہ علمِ واجِب کا دوسرا تنزل
ہوا۔ اس تنزل کی حدود میں انسان نے اپنے وجود کی گہرائی کا احساس اور دوسری مخلوق
کی موجودگی کا شُہود پیدا کیا۔ پہلے تنزل کی حیثیت علم اور علیم کی تھی یعنی انسان
کو صرف اپنے ہونے کا ادراک ہوا تھا۔ میں ہوں۔ ’’میں‘‘ علیم اور ’’ہوں‘‘ علم ہے۔
دوسری منزل میں گم شدگی کی حد سے آگے بڑھا تو اس نے خود کو دیکھا اور دوسروں کو
بھی دیکھا۔ اس ہی کو عالمِ وَحدت الشُہود کہتے ہیں۔