Topics
جواب: مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے
اپنی کتاب لوح و قلم میں نہایت وضاحت سے یہ فرمایا ہے کہ :
’’یہاں کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ جس
کی شکل و صورت نہ ہو۔‘‘
انتہا یہ کہ کسی شخص کو بخار ہے تو اس بخار کی
بھی شکل و صورت ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار کی الگ شکل و صورت ہے۔ گردن توڑ بخار کی الگ
شکل و صورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہاں جتنی بھی چیزیں ہیں شکل و صورت کے ساتھ ساتھ اُن
کا ایک منفرد وَصف بھی ہے۔ ان کے اندر اپنی ایک طاقت بھی ہے۔ مثلاً اگر بخار کے
اندر طاقت نہ ہو تو بخار ہاتھی کو نہیں گرا سکتا۔ جیسا کہ مشہور ہے کہ بخار ہاتھی
کو بھی گرا دیتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہاتھی کی طاقت کے مقابلے میں بخار کی
طاقت زیادہ ہے۔ جب ہی تو وہ ہاتھی کو گرا دیتا ہے۔ ہاتھی گرانے والی اس طاقت کی جب
کوئی شکل و صورت نہ ہو اور اس کے اندر کوئی طاقت نہ ہو تو وہ ہاتھی کو کیسے گرا دے
گی۔
ہوا کی مثال لے لیجئے، ہَوا ہر وقت چلتی رہتی ہے۔
محسوس بھی ہوتی ہے۔ اگر ذرا سی تیز ہَوا چلے تو جسم کے اوپر اس کی چوٹ بھی پڑتی
ہے۔ ہَوا بھاری ہو تو محسوس بھی ہوتی ہے۔ لطیف ہو تو وہ بھی محسوس ہوتی ہے۔ ہَوا
میں خنکی اگر زیادہ ہو اس کے بھی تاثرات قائم ہوتے ہیں۔ ہَوا اگر لُو بن جائے تو
اس کے بھی تاثرات قائم ہوتے ہیں۔ یعنی تاثر قائم ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اس
چیز کے اندر انرجی بھی ہے اور اس چیز کے اندر طاقت بھی ہے اور اس چیز کی اپنی شکل
و صورت بھی ہے۔ بیکٹیریا کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ایک سوئی کی نوک پر کئی
لاکھ بیکٹیریا آ جاتے ہیں۔ جس نے بھی اس کو خوردبین سے دیکھا تو اسے بیکٹیریا نظر
آیا۔ اب اگر صورت نہیں تھی تو بیکٹیریا کو کیسے دیکھ لیا۔
جِنِّین پر آج کل بڑی ریسرچ ہو رہی ہے۔ یہ وہ
مادہ ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ اَولاد تخلیق کرتا ہے۔ جسے جِنِّین کہتے ہیں۔ ایک
ایک قُطرے میں کئی کئی لاکھ اور کروڑ ہوتے ہیں۔ اور ان میں کچھ زندہ ہوتے ہیں اور
کچھ مردہ ہوتے ہیں۔ کچھ بیمار ہوتے ہیں۔ ایک جِنِّین کا لیبارٹری میں اگر تجزیہ
کریں تو اس جِنِّین کے اندر یہ بھی نظر آتا ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کے بال بھورے
ہیں کہ کالے، آنکھیں اس کی کالی ہیں کہ بھوری، اس کا قد کتنا ہے، اس کا رنگ کیسا
ہے؟ اگر جِنِّین میں اپنی ذاتی شکل و صورت نہ ہو تو کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ آدمی
کے بال ایسے ہیں، آدمی کی آنکھ ایسی ہے، آدمی کا قد کیسا ہے، آدمی کا رنگ کیسا ہے؟
آپ نے بڑ کا درخت دیکھا ہو گا۔ بڑ کے درخت کی
عمر سینکڑوں سال ہوتی ہے اور ایک بڑ کا درخت اتنا بڑا ہوتا ہے کہ کبھی اس کے نیچے
باراتیں ٹھہر جاتی تھیں۔ پانچ سو ہزار آدمی بڑے آرام سے بڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ
سکتے ہیں اور یہ اس قدر گھنا ہوتا ہے کہ اس درخت کے نیچے بارش نہیں آتی۔ اب اس بڑ
کے درخت کا بیج اگر اپ دیکھیں تو وہ خشخاش کے دانے سے بھی چھوٹا ہے۔ اس میں اللہ
تعالیٰ نے اتنا بڑا درخت چھپایا ہوا ہے۔ اب آپ غور کریں کہ کوئی چیز چھوٹی سے
چھوٹی بھی ہے تو اس کے اندر آپ کو بڑی سے بڑی چیز مل جائے گی۔
یہ قدرت کا نظام ہے۔ بظاہر ایک چھوٹا سا بیج ہے
لیکن اس کے اندر بلند و بالا اور گھنا درخت چھپا ہوا ہے۔
حضور قلندر بابا اوّلیاءؒ کی تعلیمات کے مطابق
کوئی چیز یہاں ایسی نہیں ہے جس کی شکل و صورت نہ ہو اور اس کی اپنی خاصیت نہ ہو۔
اس قانون کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب ہم بولتے ہیں، ہمارے کہے ہوئے الفاظ کے اندر
شکل و صورت نہ ہو تو ان الفاظ کا دباؤ نہیں پڑ سکتا۔ مثلاً ایک آدمی غصے سے بات
کرتا ہے، تو دوسرے آدمی کے دماغ پر اس غصے کا اثر پڑتا ہے، وہی آدمی وہی بات پیار
سے ادا کرتا ہے تو اس کا اچھا اثر پڑتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ لہجے میں بھی
ایک طاقت ہے۔ اگر آپ زور سے نفرت سے بولیں گے تو دوسرے آدمی کو برا لگے گا۔ وہی
الفاظ آپ پیار محبت سے کہیں گے تو دوسرے آدمی کو برا محسوس نہیں ہو گا۔
قرآنِ پاک سے جب ہم رجوع کرتے ہیں تو اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (سورۃ
النّور – 35)
ترجمہ: اللہ زمین و آسمان کی روشنی ہے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین اور تمام آسمان،
زمین کے اندر تمام مخلوقات اور آسمان کے اندر تمام مخلوقات روشنیوں کے غلاف میں
بند ہیں۔ یعنی ہر چیز کے اوپر روشنی کا ایک غلاف ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ ہر چیز
روشنی ہے۔ اس روشنی کی بھی اپنی طاقت ہے۔ روشنی بہت لطیف بھی ہوتی ہے۔ مثلاً X-Ray کی روشنیاں، یہ اتنی لطیف ہوتی ہیں کہ نظر
نہیں آتیں، لیکن پورے جسم میں سے اور ہڈیوں میں سے گزر کر فلم بنا دیتی ہیں۔ لیزر
کی روشنی تو اتنی زیادہ لطیف ہے کہ اس سے آنکھ کا آپریشن کر لیا جاتا ہے۔ ایک خبر
چھپی تھی کہ کسی خلائی جہاز میں سوراخ ہو گیا تھا اوراس کے زمین پر گر جانے کا
خطرہ تھا۔ لیکن یہاں سے سائنس دانوں نے سینکڑوں مِیل دُور سے لیزر شعاعیں بھیج کر
اس سوراخ کو بند کر دیا اور خلائی جہاز ٹھیک ہو کر اپنے مدار میں گھومتا رہا۔ اب
تک کی گفتگو سے اس قانون کی کافی وضاحت ہو گئی ہے کہ یہاں ہر چیز کے پس پردہ اس کی
ہیئت روشنی کی صورت میں ہے۔
چنانچہ نقطہ یہ سامنے آیا کہ یہاں ہر لفظ روشنی
ہے۔ جب ہم کسی اسم کا وِرد کرتے ہیں یا کسی آیت کا وِرد کرتے ہیں تو اس وِرد سے
ہمارے اندر اس لفظ کی یا اس کی یا آیت کی یا سُورۃ کی روشنی ہمارے اندر منتقل ہو
کر ذخیرہ ہو جاتی ہے جیسے جیسے وہ روشنیاں ذخیرہ ہوتی ہیں، ان روشنیوں کا ایک
تشخّص بنتا ہے، ایک ہیئت بن جاتی ہے، ایک شکل و صورت بن جاتی ہے۔ اس شکل و صورت کو
روحانی لوگ ’’مؤکل‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی کسی اسم کا روشن پہلو یا کسی اسم کی روشن شکل
و صورت کا نام مؤکل ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتے ہیں۔
’’اگر ہم قرآن کو پہاڑوں پر نازل کرتے تو پہاڑ
ریزہ ریزہ ہو جاتے۔‘‘ (سورۃ الحشر – 21)
جب ہم قرآن کے الفاظ کا تذکرہ کرتے ہیں تو قرآن
کا ہر لفظ روشنی اور نور ہے۔ قرآن کا کوئی نقطہ، کوئی آیت اور کوئی بھی سورۃ روشنی
ہے اور اس کی شکل و صورت بھی ہے اور اسی شکل و صورت کو مؤکل کہا جاتا ہے۔ جب کوئی
آدمی کوئی اسم یا آیت پڑھتا ہے اور بار بار پڑھتا ہے اور اس پڑھائی میں الفاظ کی
تکرار کرتا ہے کہ اس کی طاقت سوا لاکھ (125000) مرتبہ ہو جائے تو وہ اس مؤکل سے
یعنی اس کی طاقت سے قریب ہو جاتا ہے۔ جو سورۃ کے اندر، آیت کے اندر موجود ہے، اور
جب وہ اس سے قریب ہو جاتا ہے تو اس سے واقف ہو جاتا ہے۔ شعوری طور پر چاہے وہ اس
سے واقف نہ بھی ہو لیکن لاشعوری طور پر وہ اس سے ضرور واقف ہو جاتا ہے۔ اس واقفیت
کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ اجازت یافتہ ہے اور اس نے آیت کی طاقت کو اور اس آیت میں
جو روشنی ہے اس کو حاصل کر لیا ہے اور وہ صاحب اجازت ہو گیا ہے۔ اس کے بعد آپ کے
اندر کتنا یقین ہے اس یقین کے مطابق اللہ کے اسم یا آیت میں مخفی طاقت کام کرتی ہے
اور اس پر عملدرآمد کرتی ہے۔ کسی بھی اسم یا آیت کی زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے روحانی
استاد کی اجازت اور نگرانی ضروری ہے۔