Topics
جواب: روح کا جب تذکرہ آتا ہے تو قرآنِ پاک کے
ارشاد کے مطابق ہمیں یہ علم حاصل ہو جاتا ہے کہ روح ایک ایسا وصف ہے جو براہ راست
اللہ کی ذات سے ہم رشتہ ہے، یعنی بحیثیت خالق کے، اللہ کُل ہے اور اللہ کی صفَتِ
خالقیت کُل کا ایک جُزو ہے…. کُل کے اس جُزو کا نام روح ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے
ہیں کہ آدمی ناقابل تذکرہ شئے تھا، ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی پس یہ
دیکھتا، سنتا، بولتا اور محسوس کرتا آدمی بن گیا۔ یعنی جب تک انسان کے اندر اللہ
نے اپنی روح منتقل نہیں کی، آدمی کی حیثیت ایک لوتھڑے کی تھی اور جب اس لوتھڑے کو
روح نے سنبھال لیا تو اس کے اندر حواس منتقل ہو گئے۔
بولنا، دیکھنا، چکھنا، محسوس کرنا یہ سب روح کی
صفات ہیں اور روح کا تعلق براہِ راست اللہ کی ذات سے ہے۔ روح کو جاننے اور سمجھنے
کے لئے پہلا مرتبہ آدمی کے اندر یقین کی طرزیں مستحکم ہونا ہے ۔اگر بندے میں یقین
کی طرزیں مستحکم نہیں ہیں تو وہ روحانی علم نہیں سیکھ سکتا۔ یقین کی طرزوں سے مراد
وہ یقین نہیں ہے جو لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ دنیا کی بیشتر آبادی اللہ کے ہونے
کا اعتراف کرتی ہے لیکن چونکہ اللہ کو ماننا محض زبانی جمع خرچ ہے۔ اس لئے اس کے
اندر یقین کا پیٹرن نہیں بنتا۔ سورہ بقرہ میں اس بات کو واضح طور پر بیان کیا گیا
ہے:
’’یہ کتاب اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے
اور اس کے مندرجات میں ’’نور‘‘ ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو لوگ متقی ہیں اور
متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
یقین اس وقت یقین ہے جب مشاہدہ میں آ جائے۔
مثلاً کسی جج کے لئے گواہی اس وقت قابلِ قُبول ہوتی ہے جب گواہ چشم دید ہو۔ سنی
سنائی بات پر عدالت گواہی قبول نہیں کرتی۔ قرآن میں چونکہ شکوک و شبہات نہیں ہیں
اس لئے اس کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن سے استفادہ کرنے والے بندہ کا ذہن
شکوک و شبہات سے آزاد ہو۔ قرآن کی زبان میں وہ لوگ قرآن سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو
متقی ہیں۔ غیر متقی لوگوں کو قرآن ہدایت نہیں بخشتا۔ متقی لوگوں کی تعریف یہ ہے کہ
وہ غیب پر ایمان (یقین) رکھتے ہیں اور مشاہدہ کے بغیر یقین کی تکمیل نہیں ہوتی اور
قرآن ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو صلوٰۃ (تعلق) قائم کرتے ہیں، اللہ کے ساتھ۔ جو
کچھ بھی خرچ کرتے ہیں تو وہ جانتے ہیں، یہ انہیں اللہ نے دیا ہے۔