Topics
سوال :روحانی علم کا باب ’’انسان کی زندگی پر رنگوں کا اثر‘‘ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ہمہ وقت بے شمار رنگوں کی لہریں دوڑتی رہتی ہیں۔ ان بے شمار لہروں میں سے تقریباً ساٹھ رنگ سائنس نے دریافت کر لئے ہیں۔ اندر کا آدمی (روحانی انسان) اس بات کو جانتا اور سمجھتا ہے کہ رنگین لہروں کی کمی بیشی سے فہم و فراست، صحت اور بیماری کا براہِ راست تعلق ہے۔ اگر رنگوں میں اعتدال باقی نہ رہے تو آدمی بیمار ہو جاتا ہے اور اس کے فیصلسوال: قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تخلیق کے بعد اس سے مخاطب ہو کر فرمایا۔’’کیا نہیں ہوں میں ربّ تمہارا؟‘‘ مخلوق نے اقرار کیا کہ ’’بے شک آپ ہمارے ربّ ہیں‘‘۔ اس آیت کی روحانی تفسیر کیا ہے؟
جواب: جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میری عظمت، ربوبیت اور میری خالقیت کا اظہار ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ میری عظمت کا اظہار ہو تو یہ بات خود بخود سامنے آ جاتی ہے کہ عظمت کو پہچاننے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کو جاننے کے لئے اللہ تعالیٰ کے علاوہ بھی ایسا ذہن ہو جو اللہ تعالیٰ کی صناعی کو سمجھ اور دیکھ سکے۔
اب یہ بات اس طرح سمجھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں پہچانا جاؤں۔ جیسے ہی اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ میں پہچانا جاؤں۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ تھا یا ہے اس کی تخلیق عمل میں آ گئی۔ تخلیق کے لئے ضروری تھا کہ کوئی ضابطہ و قاعدہ موجود ہو۔ اور ہر تخلیق کے جداگانہ فارمولے مرتّب کئے جائیں۔ یہ ضابطے قاعدے اور فارمولے بھی اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو پروگرام تھا اس کو کُن کہہ کر ظاہر فرما دیا۔
جس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’کُن‘۔۔۔۔۔۔تو جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں تھا وہ قاعدوں، ضابطوں، فارمولوں اور شکل و صورت کے ساتھ عالَمِ وُجود میں آ گیا۔ جو کچھ عالَمِ وُجود میں آ گیا اس کا نام کائنات ہے۔ کائنات ایک ایسے خاندان کا نام ہے جس میں بے شمار نَوعیں ایک کنبے کی حیثیت رکھتی ہیں جیسے ہی کُن فیکون بنا تمام نَوعیں وجود میں آ گئیں۔
ان نَوعوں میں جنّات، فرشتے، انسان، جمادات و نباتات، حیوانات، زمینیں، سماوات اور بے شمار کہکشانی نظام ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ساری نَوعیں ایک کنبے کی حیثیت سے قیام پذیر ہیں۔ کوئی نَوع یہ نہیں جانتی کہ میں کیا ہوں؟کون ہوں؟ میری تخلیق کا منشاء کیا ہے؟
تخلیق کے پہلے مرحلے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جب ان تمام نَوعوں کو شعور بخشا تو نظر وجود میں آ گئی۔ جب اللہ نے کہا ’’میں ہوں تمہارا رب۔‘‘ تو کائنات میں موجود تمام نَوعیں اس آواز کی طرف متوجّہ ہو گئیں اور نَوعوں نے دیکھا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔ قانون یہ ہے کہ شعور اس وقت متحرّک ہوتا ہے جب صاحب شعور یہ جانتا ہے کہ میری اپنی ایک ہستی ہے اور میرے علاوہ دوسری ہستی بھی ہے۔
تخلیق کا دوسرا مرحلہ یہ بنا کہ کائنات نے جیسے ہی اللہ تعالیٰ کی آواز سنی اس کے اندر شعور کی دو صلاحیتیں پیدا ہو گئیں۔ ایک سننے کی صلاحیت دوسری دیکھنے کی صلاحیت، مخلوق نے سننے اور دیکھنے کی صلاحیت کو استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھا تو شعور کے اندر تیسری سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔
سننے، سیکھنے اور سمجھنے کے بعد چوتھی صلاحیت اپنے علاوہ دوسرے کو پہچاننے کی پیدا ہو گئی۔ پہچاننے کی صلاحیت کے بعد پانچویں صلاحیت پیدا ہوئی کہ نَوعوں نے خود کو پہچان لیا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ کسی عظیم اور بابرکت ہستی نے مجھے پیدا کیا ہے اور یہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے۔
کائنات نے اس بات کا اقرار کیا کہ ’’جی ہاں! ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ ہمارے ربّ ہیں آپ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔‘‘ اس عالَم میں کائنات (انسان) نے اللہ کو دیکھ لیا اور پہچان لیا۔ے صحیح نہیں ہوتے۔ کوئی نگینہ یا پتھر مخصوص رنگ کی کمی کو دور کر کے رنگوں کو اعتدال میں لے آتا ہے۔