Topics

شہود کی قسمیں

سوال: کیا اللہ تعالیٰ نے ہماری کفالت کا ذمہ لے رکھا ہے؟

جواب: شُہود کی تین قسمیں ہیں:

۱۔ علم الیقین

۲۔ عین الیقین

۳۔ حق الیقین

علم الیقین کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد انسان پر پہلی بات جو منکشف ہوتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارا خالق اللہ ہے۔ ایسا اللہ جس نے ہماری تر ضروریات کی کفالت اپنے ذمہ لے لی ہے۔ ضروریات پورا ہونا اور مسلسل پورا ہونا اور بغیر کسی مادّی قانون کے پورا ہونا آدمی کو بالآخر یہ سوچنے پر اور یقین کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ فی الواقع رازق اللہ ہے۔ فی الواقع ربّ اللہ ہے۔ فی الواقع زندگی دینے اور زندگی لینے والا اللہ ہے۔ اللہ ہی عزت دیتا ہے، اللہ ہی ذلّت دیتا ہے، اللہ ہی ابتداء ہے، اللہ ہی انتہا ہے۔ اللہ ہی ظاہر ہے، اللہ ہی باطن ہے۔ اور اللہ ہی ہر شئے پر محیط ہے۔ اس منزل میں داخل ہوئے بغیر آدمی کے اندر کبھی إستغناء پیدا نہیں ہوتا اور جس بندے کے اندر إستغناء پیدا نہیں ہوتا وہ راہِ سلوک کا بھٹکا ہوا مسافر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے اپنی باطنی قوتوں کو بیدار کر کے متحرّک کر کے ایسے کمالات اور خرقِ عادات کا اظہار کیا کہ لوگ حیران ہیں پریشان ہیں۔ بعض باتیں ان سے اس قسم کی بھی سرزد ہوتی ہیں کہ بڑے بڑے صاحب علم لوگ ان کی روحانی قوت پر ایمان لے آتے ہیں۔ اور راستہ بھٹک جاتے ہیں۔

میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ آدمی اپنی استطاعت اپنی صلاحیت اپنی استعداد اپنے ارادے سے خرقِ عادت کو پیدا کر سکتا ہے لیکن ایسے بندے کے اندر إستغناء پیدا نہیں ہوتا۔ کیا آپ نے ایسے لوگ نہیں دیکھے کہ جو جادو ٹونے کا کام کرتے ہیں۔ لوگوں کو پریشان کرتے ہیں اور لوگوں کے بنے ہوئے کاموں کو خراب کر دیتے ہیں لیکن فیس لیتے ہیں۔ کیا آپ نے ایسے عامل نہیں دیکھے کہ پیری کی گدی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ صورت شکل فرشتوں جیسی بنائی ہوئی ہے۔ قال اللہ اور قال الرّسولؐ کا چرچا ہے۔ لباس عین اسلام کے مطابق ہے۔ جبے قّبے میں ڈھکے ہوئے ہیں لیکن لوگوں سے پیسے وصول کر رہے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں میں میرے پاس ایک خاتون تشریف لائیں۔ انہوں نے جو عامل صاحب کا نقشہ کھینچا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ کوئی بہت ہی عابد زاہد زندہ شب بدھار ہے۔ مسائل اور مشکلات کا حل یہ بتایا کہ صدقہ کر دو۔ خاتون نے پوچھا کس چیز کا صدقہ کروں؟ پیر صاحب نے بتایا کہ اونٹ کا صدقہ کرو اور ۳۰۰۰ روپے لے لئے۔

میرے مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک سائل کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ پیر اور فقیر میں فرق ہے۔ فقیر کی تعریف یہ ہے کہ اس کے اندر إستغناء ملے گا۔ اس کے اندر دنیاوی لالچ نہیں ہو گا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا کفیل صرف اور صرف اللہ ہے۔ اللہ اس کو اطلس و کمخواب پہنا دیتا ہے۔ وہ خوش ہو کر پہن لیتا ہے، اللہ اس کو کھدّر پہنا دیتا ہے۔ اس میں بھی وہ خوش رہتا ہے۔ اللہ اس کو لنگوٹی پہنا دیتا ہے۔ وہ اس میں بھی خوش رہتا ہے۔ اللہ اس سے لنگوٹی چھین لیتا ہے وہ اس میں بھی خوش رہتا ہے اور دوسری پہچان یہ فرمائی کہ جب تک بندہ فی الواقع کسی فقیر کی صحبت میں رہتا ہے اس کا ذہن صرف اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ شاذ و نادر ہی اسے دنیا کے کام کا خیال آتا ہے۔

خرقِ عادات کے ضمن میں آج کل سائنسی نقطہ نظر سے جو کوشش کی جا رہی ہیں ان سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان اپنی ذاتی کوششوں سے اور مُتعیّنہ مشقوں سے اپنے اندر ماورائی صلاحیتوں کو بیدار کر لیتا ہے۔ ٹیلی پیتھی اور ہپناٹزم کے سلسلے میں یورپ اور بالخصوص روس میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے انسان اس بات پر یقین کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر ہم عبادت و ریاضت کو ماورائی علوم کے حُصول کا ذریعہ سمجھیں تو یہ بات بظاہر کمزور نظر آتی ہے۔ کیونکہ روس جس کا مذہب پر کوئی عقیدہ نہیں ہے، ماورائی علوم کے حُصول میں قابل تذکرہ حد تک ترقی کر چکا ہے۔

توّچف میں ایک تذکرہ آتا ہے ’’تصرّف کرنا‘‘… یعنی شیخ اپنے مرید پر توجہ کر کے اس کے اندر کچھ تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ یہ تصرّف آج کی دنیا میں ایک سائنس دان بھی کر لیتا ہے۔ اور وہ ٹیلی پیتھی کے ذریعے اپنے حسبِ منشاء دوسرے آدمی کو متاثر کر کے اس کو وہ کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جو اس کے ذہن میں ہوتا ہے۔

تصوّف میں دوسری بڑی اور اہم چیز اندر دیکھنا ہے یعنی آدمی کے اندر ایسی باطنی نظر کام کرنے لگتی ہے جس نظر سے وہ سیارے سے باہر کی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آج کے دور میں یہ بات بھی ہمارے سامنے آ چکی ہے کہ مراقبہ بھی ایک سائنس بن چکا ہے۔ یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو مراقبہ اور مراقبے کی کیفیات پر سیر حاصل بحث کرتی ہیں۔

تیسری چیز جو روحانیت، تصوّف یا مذہب میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر ایسی صلاحیتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ ایسے علوم کا اظہار کرتا ہے جو علوم بظاہر کتابوں میں نہیں ملتے۔ سائنس نے اس سلسلے میں بھی کافی پیش رفت کی ہے اور ایسے علوم کا اظہار ہو چکا ہے کہ جن پر شعور انسانی نے یقین بھی نہیں کیا اور بالآخر وہ چیزیں وجود میں بھی آئیں ار انسان ان پر یقین کرنے پر مجبور ہو گیا۔

ان حالات میں تصوّف کی اصطلاحیں توجہ، تصرّف، باطنی نگاہ کا کھلنا، ٹائم اسپیس یا زمان و مکاں سے آزادی ایک معمّہ بن گئی ہیں۔

اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ ماورائی نظر کا متحرّک ہونا صرف ذکر و فکر اور اشغال سے ممکن ہے۔ ان حالات میں سمجھنا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ جب ایسے لوگ جو مذہب پر عقیدہ نہیں رکھتے تصرّف کر سکتے ہیں، ان کی باطنی نگاہ بیدار ہو سکتی ہے، وہ نئے نئے علوم کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں پھر یہ تصوّف کیا ہے؟

تصوّف کے ساتھ ساتھ مذہب کا تذکرہ بھی آتا ہے۔ مذہب کی بنیادیں بھی انہی اصولوں پر رکھی گئی ہیں کہ آدمی مذہبی فرائض پورے کرنے کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی یا دوسروں کی زندگی میں تصرّف کر سکے۔ اس کی باطنی نگاہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرنے لگے۔ لیکن جب ہم مذہب کے پیروکاروں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہزاروں لاکھوں میں ہمیں ایک آدمی بھی ایسا نہیں ملتا جس کے تصرّف کی طاقت بحال ہو گئی ہو اور جس کے اندر باطنی نگاہ کام کرتی ہو۔

یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ مذہبی لوگ ان علوم سے بے خبر ہیں جن علوم کی نشان دہی ایسے لوگوں نے کی ہے جو مذہب پر عقیدہ نہیں رکھتے یا مذہب کو ایک مجبوری سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں ہر سنجیدہ آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے تو پھر تصوّف اور مذہب کیا ہے؟ اس بات کو ہم یہاں مختصر کر کے پھر اپنے اصل موضوع إستغناء کی طرف لوٹتے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے تذکرہ میں وضاحت کے ساتھ فرعون اور جادوگروں کا تذکرہ کیا ہے۔ فرعون نے جب یہ دیکھا کہ اس کی خدائی پر حرف آ رہا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام اس کی تباہی اور بربادی کا ذریعہ بن رہے ہیں تو اس نے اپنی مملکت کے تمام جادوگروں کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے مقابلہ کریں۔ اس دعوت میں جادوگروں کے لئے جو متوجہ کرنے کی سب سے بڑی چیز تھی وہ یہ تھی کہ اگر تم نے موسیٰ کو شکست دے دی تو تمہیں انعام و اکرام سے مالا مال کر دیا جائے۔

ایک میدان اور تاریخ مقرر ہوئی۔ جادوگر جمع ہو گئے۔ موسیٰ علیہ السّلام بھی تشریف لائے۔ جادوگروں نے لاٹھیاں بانس اور رسیاں میدان میں پھینکیں وہ سانپ بن گئے۔ اژدہے بن گئے، لگتا تھا کہ میدان بڑے بڑے سانپوں اور اژدھوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور سانپوں کی پھنکار تھی۔ صورت حال جب بہت نازک ہو گئی اتنی نازک کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام بھی گھبرا گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے موسیٰ ڈر مت! اپنا عصا پھینک۔ موسیٰ علیہ السّلام نے اپنا عصا زمین پر پھینک دیا۔ وہ عصا ایک بہت بڑا اژدھا بن کر میدان میں دوڑتے ہوئے تمام سانپوں اور اژدہوں کو نگل گیا۔ اور اس طرح فرعون جس کو اپنی دنیاوی دولت اور مال و اسباب پر گھمنڈ تھا ذلیل و خوار ہوا اور وہ جادوگر جو دولت اور انعام و اکرام کے لالچ میں دور دراز سے موسیٰ علیہ السّلام کو شکست دینے آئے تھے وہ بھی نامراد لوٹ گئے۔

اس واقعہ میں اگر تفکر کیا جائے تو بہت سادہ بات یہ ہے کہ جادوگروں نے جب بانس پھینکے تو اُن سے خرقِ عادت کا ظہور ہوا اور وہ سانپ بن گئے۔ موسیٰ علیہ السّلام نے جب عصا پھینکا وہ اژدھا بن گیا اور تمام سانپوں کو نگل گیا۔ ابھی ہم نے عرض کیا ہے کہ آدمی اپنی کوششوں اور مُتعیّن طریقوں پر مشقیں کرنے کے بعد اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے خرقِ عادت کا اظہار کر سکے جیسا کہ جادوگروں نے اپنے ارادے اور اختیار سے خرقِ عادت کو ظاہر کیا کہ ایک مخلوق نے اس کا مشاہدہ کیا لیکن اس میں ایک بنیادی فرق ہے۔ جادوگر لاتعداد ہیں، بانس اور رسیاں جو اژدہے اور سانپ بنے وہ بے شمار ہیں۔ جادوگروں کو ایک بہت بڑے بادشاہ کا تعاون بھی حاصل ہے۔ موسیٰ علیہ السّلام تنہا ہیں اُن کا تکیہ اُن کا بھروسہ اللہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس بات کو اس طرح سمجھا جائے گا کہ جادوگروں کے دلوں میں چونکہ مال و دولت کی خواہش موجود ہے اس لئے ان میں إستغناء نہیں تھا۔ یہی صورت حال تصوّف میں توجہ تصرّف اور باطنی نگاہ کی بھی ہے۔ اگر کسی بندے میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلّقِ خاطر پیدا نہیں ہوا اور اس کے اندر إستغناء کی قوتیں نہیں ابھریں تو اس سے جو کچھ خرقِ عادت صادر ہو گی وہ استدراج ہے، جادو ہے۔

مذہبی عبادت کا بھی یہی قانون ہے۔ مذہب نے جو عبادتیں فرض کر دی ہیں ان فرائض کی ادائیگی میں اگر بندے کا ذہن اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہے تو یہ عبادت ہے ورنہ یہ عبادت نہیں ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ یہ سب ارکان اس بنیاد پر قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس طرح چاہتے ہیں ۔ اس لئے ہم پر لازم ہے کہ ان فرائض کی ادائیگی میں ہم کوئی کوتاہی نہ کریں لیکن اگر فرض کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ یقین قائم نہ ہو تو یہ فرض کی ادائیگی نہیں ہو گی اور بندہ بالآخر نقصان اور خسارے میں ہو گا۔

زندگی میں دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ عید کا چاند دیکھنے کے بعد بچوں کی عیدی کے سلسلے میں فکر لاحق ہوئی۔ اور میں اپنے ایک دوست کے پاس کچھ روپے ادھار لینے کیلئے چلا گیا۔ دوست نے مجھ سے کہا۔ یہ روپے تو میرے پاس موجود ہیں لیکن کسی کی امانت ہیں۔ طبیعت نے اس بات کو گوارہ نہ کیا کہ دوست کو امانت میں خیانت کرنے کا مجرم قرار دیا جائے۔ وہاں سے چلتا ہوا میں بازار میں آ گیا۔ وہاں مجھے ایک دوست ملے۔ بہت اچھی طرح پیش آئے اور انہوں نے پیشکش کی کہ آپ کو عید کے سلسلے میں کچھ روپے پیسے کی ضرورت ہو تو لے لیں۔ میرے پاس کافی رقم موجود ہے۔ نہ معلوم طریقے پر میں نے ان کی اس پیشکش کو نامنظور کر دیا۔ انہوں نے کہا۔ صاحب میں نے آپ سے کسی زمانے میں کچھ روپے ادھار لئے تھے۔ وہ میں ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اور انہوں نے میری جیب میں ساٹھ روپے ڈال دیئے۔ میں گھر چلا آیا اور ان ساٹھ روپوں سے عید کی تمام ضروریات پوری ہو گئیں۔

اس واقعہ پر بہت زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ دوست سے میں ۳۰ روپے ادھار لینے گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنے پیسے دیئے جو میری ضروریات کے لئے پورے تھے۔ ظاہر ہے کہ اگر ۳۰ روپے قرض مل جاتے تو ضرورت پوری نہ ہوتی۔ یہ پیسے اور روپے کے سلسلے میں دو واقعات میں نے گوش گزار کئے ہیں۔ اس قسم کے بے شمار واقعات زندگی میں پیش آئے۔ ان بے شمار واقعات پیش آنے کے نتیجہ میں یہ یقین مستحکم اور پختہ ہو گیا کہ ضروریات کے واحد کفیل اللہ تعالیٰ ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم رازق ہیں۔ وہ بہرحال رزق پہنچاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وہ کارندے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ‘‘فی الارض خلیفہ’’ کہا ہے، اِس بات پر کاربند ہیں کہ وہ مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے وسائل فراہم کریں۔ بہت عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے پیدا کرتے ہیں۔ جب تک وہ چاہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے۔ اور جب وہ نہیں چاہتے تو آدمی سیکنڈ کے ہزارویں حصّہ میں بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ میں اپنے اختیار سے زندہ ہوں۔ معاشی سلسلہ میرے اپنے اختیار سے قائم ہے۔

اِسی سلسلے میں ایک مرتبہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔ ’’کسان جب کھیتی کاٹتا ہے تو جھاڑو سے ایک ایک دانہ سمیٹ لیتا ہے اور جو دانے خراب ہوتے ہیں یا گھن کھائے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی اکٹھا کر کے جانوروں کے آگے ڈال دیتا ہے۔ جس زمین پر گیہوں بالوں سے علیحدہ کر کے صاف کیا جاتا ہے وہاں اگر آپ تلاش کریں تو مشکل سے چند دانے نظر آئیں گے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پرندے اربوں اور کھربوں کی تعداد میں دانہ چگتے ہیں، اُن کی غذا ہی دانہ ہے، تو یہ معمّہ حل نہیں ہوتا کہ کسان تو ایک دانہ نہیں چھوڑتا۔ ان پرندوں کے لئے کوئی مخصوص کاشت نہیں ہوتی پھر یہ پرندے کہاں سے کھاتے ہیں؟‘‘

حضور قبلہ نے فرمایا کہ قانون یہ ہے کہ پرندوں کا غول جب زمین پر اس ارادے سے اترتا ہے کہ ہمیں یہاں دانہ چگنا ہے، اِس سے پہلے کہ اُن کے پنجے زمین پر لگیں قدرت وہاں دانہ پیدا کر دیتی ہے۔ اگر پرندوں کی غذا کا دارومدار حضرتِ انسان یعنی کسان پر ہوتا تو سارے پرندے بھوک سے مر جاتے۔

دوسری مثال حضور بابا صاحبؒ نے یہ ارشاد فرمائی ہے کہ چوپائے بہرحال انسانوں سے بہت بڑی تعداد میں زمین پر موجود ہیں۔ بظاہر وہ زمین پر اُگی ہوئی گھاس کھاتے ہیں، درختوں کے پتے چرتے ہیں۔ لیکن جس مقدار میں گھاس اور درختوں کے پتے کھاتے ہیں۔ زمین پر کوئی درخت نہیں رہنا چاہئے۔ قدرت ان کی غذا کی کفالت پوری کرنے کے لئے اتنی بھاری تعداد میں درخت اور گھاس پیدا کرتی ہے کہ چرندے سیر ہو کر کھاتے رہتے ہیں۔ گھاس اور پتوں میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ ان درختوں اور گھاس کا تذکرہ ہے جس میں انسان کا کوئی تصرّف نہیں ہے۔ قدرت اپنی مرضی سے پیدا کرتی ہے۔ اپنی مرضی سے درختوں کی پرورش کرتی ہے۔ اور اپنی مرضی سے انہیں سرسبز و شاداب رکھتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جو زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر انسان کی زندگی میں دو چار واقعات ایسے ضرور پیش آتے ہیں جن کی وہ کوئی عملی، عقلی، سائنسی توجیہ پیش نہیں کر سکتا۔ اَنہونی باتیں ہوتی رہتی ہیں آدمی اتفاق کہہ کر گزرتا رہتا ہے۔ حالانکہ کائنات میں کسی اتفاق کسی حادثہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔

Topics


Rooh Ki Pukar

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے