Topics
جواب:
علم کی دو اقسام ہیں۔ علم کی ایک قسم کا نام علمِ حُضوری ہے اور دوسری کا دوسرا
نام علمِ حُصولی ہے۔ یعنی ایک علم یہ ہے کہ آدمی اپنی کوشش، محنت و جدّ و جہد اور
صلاحیتوں کے مطابق ظاہرہ اسباب میں رہ کر کوئی علم سیکھتا ہے اور اس علم میں مادّی
وسائل بروئے کار آتے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی لوہار بننا چاہتا ہے اب
اس کے سامنے تین چیزیں ہیں۔ ایک لوہا، دوسری وہ صلاحیت جو لوہے کو مختلف شکلوں میں
ڈھالتی ہے اور تیسرا صلاحیت کا استعمال جب وہ اس صلاحیت کو استعمال کرتا ہے تو اس
لوہے سے بے شمار چیزیں بن جاتی ہیں۔
کسی
علم کے سیکھنے کے لئے ایک کومن فیکٹر (Common Factor) نیّت
ہے یعنی وہ علم کس لئے سیکھا جا رہا ہے؟ اس علم کی بدولت جو چیزیں تخلیق پا رہی
ہیں۔ ان چیزوں میں تخریب کا پہلو نمایاں ہے یا اس کے اندر تعمیر پنہاں ہے جس طرح
لوہا ایک دھات ہے اس طرح صلاحیت بھی ایک ہے یعنی لوہے کو مختلف چیزوں میں ڈھالنا۔
لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ چیزیں کس مقصد کے لئے بنائی گئی ہیں۔ اس کے اندر
تعمیر ہے یا تخریب۔ لوہے کی دھات سے ایسی چیزیں بھی بنتی ہیں جن کے اوپر انسان کی
فلاح و بہبود کا دارومدار ہے۔ مثلاً چمٹا، پھونکنی، توا، ریل کے پہیے، ریل کے ڈبے،
ہوائی جہاز اور دوسری بے شمار چیزیں اور اگر نیّت میں تخریب ہے تو یہی دھات نوعِ
انسانی کی تباہی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے جیسے بم، میزائل، ٹینک وغیرہ۔
علمِ
حُصولی ایک ایسا علم ہے جو وسائل کے تعین کے ساتھ سیکھا جاتا ہے وسائل ہوں گے تو
یہ علم سیکھا جا سکتا ہے۔ وسائل نہیں ہوں گے تو یہ علم نہیں سیکھا جا سکتا۔ قلم ہو
گا تو تحریر کاغذ پر منتقل ہو گی۔ مطلب یہ ہے کہ قلم وسیلہ ہے اس بات کے لئے تحریر
کو کاغذ پر منتقل کیا جائے۔ علمِ حُصولی کے لئے وسائل کے ساتھ ساتھ استاد کی بھی
ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسا جو گوشت پوست سے مرکب ہو۔ اور ٹائم اسپیس میں مقید جسمانی
خدوخال کے ساتھ موجود ہو اور یہ بتائے کہ قلم اس طرح پکڑا جاتا ہے اور قلم سے الف،
ب۔۔۔۔۔۔اس طرح لکھی جاتی ہے۔
علم
کی دوسری قسم علمِ حُضوری ہے۔ علمِ حُضوری ایک ایسا علم ہے جو مادّی وسائل کی
محتاج نہیں ہے اس علم کو سیکھنے کے لئے کاغذ، قلم، دوات کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ
علم مادّی وسائل سے ماوراء ہے۔ جس طرح حُصولی علم کو سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت
ہے۔ اسی طرح حضوری علم کو سیکھنے کے لئے بھی استاد کی ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ یہ
علم ٹائم اسپیس کی حدود سے باہر ہے اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ استاد مادّی خدوخال
اور مادّی وسائل کے ساتھ شاگرد کے سامنے موجود ہو۔
علمِ
حُصولی کے طالب کو شاگرد کہا جاتا ہے اور علم سکھانے والے کو استاد کا نام دیا
جاتا ہے۔ علمِ حُضوری سیکھنے والے طالب علم کا نام مرید ہے اور سکھانے والے کا
اصطلاحی نام مراد ہے۔ جب کوئی مرید اپنے مراد سے کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو
اپنی طرزِ فکر میں تبدیلی پیدا کرنا ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر اس کے لئے استاد کی
طرزِ فکر حاصل کرنا واجب ہے۔
علمِ
حُصولی میں استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ طالب علم کو صلاحیتوں کا استعمال سکھا
دے۔ ایک آدمی تصویر بنانے کا فن سیکھنا چاہتا ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ
شاگرد کو یہ بتا دے کہ تصویر کس طرح بنتی ہے، پنسل کس طرح پکڑی جاتی ہے؟ لکیروں،
دائروں اور قوسوں کے تناسب سے تصویر کس طرح تشکیل پاتی ہے؟ شاگرد جب استاد کی
ہدایات پر عمل کرتا ہے تو وہ تصویر بنا لیتا ہے لیکن یہ تصویر اس کی اپنی صلاحیتوں
کا اظہار ہوتی ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا تھا کہ اسے تصویر بنانے کا قاعدہ سمجھا
دیا۔ جتنی مشق کی جائے گی۔ اسی مناسبت سے تصویر کے خدوخال بہتر اور خوبصورت ہوتے
چلے جائیں گے۔ اس کے متضاد علمِ حُضوری میں مراد مرید کے اندر اپنی صلاحیتیں منتقل
کر دیتا ہے۔ مرید جب تصویر کشی کرے گا تو اس تصویر میں مراد کی صلاحیت کا عکس
نمایاں ہو گا۔ صلاحیتوں کا منتقل کرنا مادّی وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ صلاحیتوں کو
قبول کرنے کے لئے اور مراد کی طرزِ فکر کو اپنانے کے لئے صرف اور صرف ایک بات کی
ضرورت ہے اور وہ یہ کہ مرید خود کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ مراد کے سپرد
کر دے۔ اور اپنی ذات کی اس طرح نفی کر دے کہ اس کے اندر بجز مراد کے کوئی چیز نظر
نہ آئے۔ جیسے جیسے یہ طرز مرید کے اندر مستحکم ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے مراد کی
طرزِ فکر مرید کے اندر منتقل ہوتی رہتی ہے۔ حضرت اُویس قرنیؓ کی مثال ہمارے سامنے
ہے۔ حضرت اُویس قرنیؓ کی حضور اکرمﷺ سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ لیکن محبت اور قربت
کا یہ عالم تھا کہ حضرت اُویسؓ کے تذکرے سے حضورﷺ کا چہرہ مبارک خوشی سے تمتما
اٹھتا تھا۔
دماغ
آدمی کے اندر دراصل ایک اسکرین ہے۔ بالکل ٹی وی کی طرح۔ ٹی وی اسٹیشن سے آواز اور
تصویر نشر ہوتی ہے اور بغیر کسی وقفہ کے ٹی وی اسکرین پر منتقل ہو جاتی ہے اسی طرح
جب مراد اپنے مرید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو مراد کی ٹائم اسپیس کو حذف کرنے والی
صلاحیتیں مرید کے دماغ کی اسکرین پر متحرک ہو جاتی ہیں اور جیسے جیسے یہ منتقلی
عمل میں آتی ہے مرید کے اندر ذہنی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ مرید
کی طرزِ فکر مراد کی طرح ہو جاتی ہے۔
مراد کی صلاحیتیں مرید کی صلاحیتیں بن جاتی ہیں اور جب
یہ عمل اپنے عروج پر پہنچتا ہے تو مراد اور مرید ایک ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ
دونوں کی گفتگو ایک ہو جاتی ہے ۔ دونوں کی شکل و صورت ایک ہو جاتی ہے اور دونوں کی
طرز گفتگو ایک ہو جاتی ہے۔ ایسے بے شمار واقعات تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں کہ
مراد کے جسم کے کسی حصہ میں درد ہوا تو مرید نے بھی اسی وقت اپنے جسم کے اسی حصہ
میں درد محسوس کیا۔ مراد کو بخار ہوا۔ مرید بھی بخار میں تپنے لگا۔ جب کہ مرید
مراد سے ہزاروں میل کے فاصلے پر موجود تھا۔
اگر
مرید کے اندر جذبہ صادق ہے اور مرید مراد سے عشق کے درجہ میں محبت کرتا ہے تو پھر
دور دراز کے فاصلے معدوم ہو جاتے ہیں اور مرید ہزاروں میل دُور رہ کر بھی مراد یا
پیر و مرشد سے فیضیاب ہوتا ہے۔