Topics
جواب:
قناعت اور إستغناء کوئی لفظی معمہ نہیں ہے۔ یا کوئی حساب کا ہیر پھیر نہیں ہے۔
إستغناء فی العمل ایک کیفیت ہے، ایک واردات ہے، ایک حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جو
حقیقتِ مُطلَق کے متّصِل ہے۔ جب تک کوئی بندہ حقیقت مُطلَقہ سے متعارف نہیں ہوتا،
مشاہدہ نہیں کر لیتا اس وقت تک اس کے اندر إستغناء پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے
تو وہ اتنا ہوتا ہے کہ محض اس کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ جس آدمی کے اندر جس مناسبت
سے قناعت اور إستغناء موجود ہے اس آدمی کے اندر اسی مناسبت سے ڈر، خوف اور غم بھی
کم ہوتا ہے۔
صاحبِ
مراقبہ جب پہلی سیڑھی سے قدم بڑھا کر دوسری سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو اس کے سامنے
اس کا اصلی جسم جسمِ مثالی یا Aura آ
جاتا ہے پہلی بات جو سالک کے ذہن میں وارد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسے اس بات کا یقین
ہو جاتا ہے کہ مٹی کے ذرّات سے بنے ہوئے گوشت پوست کی حیثیت محض عارضی، فانی اور
مفروضہ ہے۔ حقیقی حیثیت روشنیوں کا وہ جسم ہے جس جسم نے گوشت پوست کے جسم کو
سنبھالا ہوا ہے۔ اس وقت کیونکہ تخلیقی فارمولوں کے تحت وہ قانون بیان ہو رہا ہے جس
قانون کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کرنے کی اجازت ہے، اس لئے یہاں روح اور جسمِ
مثالی کا فرق بیان کرنا ضروری ہے۔ مرنے کی حالت کو عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ
روح نکل گئی۔ مرنے کے بعد جس عالم میں آدمی منتقل ہوتا ہے اسکے بارے یہ کہا جاتا
ہے کہ مرنے والا اپنے دوستوں اور عزیزوں کی روحوں کے عالمِ اَعراف میں چلا گیا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اَعراف میں آدمی کھانا بھی کھاتا ہے، آدمی پانی بھی پیتا ہے،
سوتا جاگتا بھی ہے، وہاں اپنے رشتہ داروں سے ملتا بھی ہے، دکھ درد سکون راحت اور
اطمینان آشنا بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مرنے والے آدمی کی روح نکل گئی ہے
تو روح نکلنے سے مراد یہ ہو گی کہ اب آدمی نہ سن سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے نہ محسوس
کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم جس کو مرنا کہتے ہیں دراصل وہ ایسی حالت ہے جس کو ہم
روشنی کے ہالے کا مٹی کے جسم سے رشتہ منقطع کر لینے کا نام دے سکتے ہیں۔ حضور
قلندر بابا اولیاءؒ صاحب نے کتاب ’’لوح و قلم‘‘ میں اس بات کو بالوضاحت بیان کیا
ہے فرماتے ہیں:
آدمی
گرم و سرد سے محفوظ رہنے کے لئے اور اعضائے جسمانی کو تپش اور سرد لہروں سے بچانے
کے لئے ایک لباس اختراع کرتا ہے، یہ لباس سوتی کپڑے کا ہوتا ہے، اونی کپڑے کا ہوتا
ہے یا کسی بھی قسم کے بنے ہوئے دھاگوں کے تانے بانے سے مرکب یا بُنا ہوا ہوتا ہے۔
جب تک یہ خود تخلیق کردہ لباس جسم کے اوپر محفوظ ہے، اُس وقت تک اِس لباس میں حرکت
رہتی ہے جسم کے اوپر قمیض کی حرکت جسم کی حرکت کے تابع ہوتی ہے اگر قمیض جسم کے
اوپر ہے تو آستین ہاتھ کی حرکت کے ساتھ ہلنے پر مجبور ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہاتھ
ہلے اور آستین نہ ہلے۔ اس طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ پہنی ہوئی قمیض کی صرف آستین
ہلے تو اس کے ساتھ ہاتھ بھی حرکت کرے۔ ہمیشہ ہاتھ کی حرکت کے ساتھ قمیض کی آستین
میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اگر جسم پر پہنی ہوئی اسی قمیض کو اتار کر زمین پر یا
چارپائی پر ڈال دیا جائے اور اس قمیض سے کہا جائے کہ وہ حرکت کرے، چلے پھرے تو اس
کے اندر ہرگز کوئی حرکت پیدا نہیں ہو گی۔ بابا صاحب قبلہ گوشت پوست کے جسم کو جسمِ
مثالی کا لباس قرار دیتے ہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ کپڑے کی بنی ہوئی قمیض
جسم کے اوپر ہوتی ہے اور جسمِ مثالی گوشت پوست کے اوپر ہوتا ہے۔ لباس اور گوشت
پوست کے جسم کی حیثیت قائم کر کے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک مرے ہوئے آدمی کا جسم
یا لاش جب زمین پر پڑی ہوئی ہوتی ہے تو قمیض کی طرح اس کے اندر اپنی کوئی حرکت
نہیں ہوتی۔ آپ لاکھ کوشش کریں کہ یہ لاش اپنی مرضی اور اپنے اختیارات سے حرکت کرے
یہ تمام کوشش بے کار اور بے سود ثابت ہوں گی۔ اس لئے بے سود ثابت ہوتی ہیں کہ جس
جسم کا یہ لباس تھا اُس جسم نے اِسے اتار پھینکا ہے۔
عام
حالات میں جب إستغناء کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ کس آدمی کو
اللہ تعالیٰ کے اوپر کتنا توکل اور بھروسہ ہے۔ توکل اور بھروسہ کم و بیش ہر آدمی
کی زندگی میں داخل ہے لیکن جب ہم توکل اور بھروسہ کی تعریف بیان کرتے ہیں تو ہمیں
بجز اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہماری دوسری عبادات کی طرح بھروسہ اور توکل بھی
دراصل لفظوں کا ایک خوش نما جال ہے۔
توکل
اور بھروسہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے
لیکن جب ہم فی العمل زندگی کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ بات محض نعرہ اور
غیر یقینی ہے اور یہ ایسی بات ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں اس کا عمل دخل جاری و
ساری ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی فرم میں ملازمت کرتا ہے۔ اس کے پیش نظر یہ بات رہتی
ہے کہ فرم کا مالک یا سیٹھ ساہوکار اگر مجھ سے ناراض ہو گیا تو ملازمت سے برخواست
کر دیا جاؤں گا، یا میری ترقی نہیں ہو گی، یا ترقی تنزلی میں بدل جائے گی۔ ظاہر ہے
یہ بات بھروسہ اور توکل کے سراسر خلاف ہے۔ اس کے برعکس ہم زندگی میں یہ بات بار
بار دہراتے ہیں کہ اگر کوئی کام نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟
یہ
بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب کسی کام کا نتیجہ اچھا مرتّب ہوتا ہے تو ہم یہ کہتے
ہیں کہ یہ نتیجہ ہماری عقل اور ہماری فراست و فہم سے مرتّب ہوا ہے۔ اس قسم کی بے
شمار مثالیں ہیں جن سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ کے اوپر توکل
اور بھروسہ محض مفروضہ ہے۔ جس بندے کے اندر توکل اور بھروسہ پیدا نہیں ہوتا، اس کے
اندر إستغناء بھی نہیں ہوتا۔
إستغناء
سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی گزارنے میں بندے کا اپنا ذاتی اختیار شامل نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ اگر مرغی کھلاتے ہیں اس میں خوش رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اگر چٹنی سے
روٹی دیتے ہیں اس میں بھی خوش رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر کھدّر کے کپڑے پہناتا ہے
بندہ اس میں بھی خوش رہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے ہر عمل اور
حرکت کو اللہ کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ پہلے بندے کے اندر توکل اور بھروسہ پیدا
ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ استغنا کے دائرے میں قدم بڑھاتا ہے۔ توکل اور بھروسہ
دراصل ایک خاص تعلق ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان براہِ راست قائم ہے اور جس بندے
کا اللہ کے ساتھ یہ رابطہ قائم ہو جاتا ہے اس بندے کے اندر سے دنیا کا تمام لالچ
نکل جاتا ہے۔ ایسا بندہ دوسرے تمام بندوں کی امداد اور تعاون سے بے نیاز ہو جاتا
ہے اور اس بندے کی حیثیت ایسی ہو جاتی ہے کہ جس حیثیت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے
سورۂ اخلاص کی ۵
آیتوں میں کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اخلاص میں پانچ حتمی باتیں بیان فرمائی
ہیں۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اخلاص میں اپنی
ذات پر سے پردہ اٹھا دیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ جو صفات اللہ تعالیٰ کے اندر
موجود ہیں یا جو صفات اللہ تعالیٰ کی ہیں وہ صفات مخلوق کے اندر موجود نہیں ہیں۔
سورۂ اخلاص کی پانچ آیتیں ہمیں خالق اور مخلوق کا امّتیاز سکھاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں:
’’اے
پیغمبرﷺ! آپ فرما دیجئے اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ کسی سے احتیاج نہیں رکھتا۔
اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ اللہ کسی کا باپ ہے۔ اللہ تعالیٰ کوئی خاندان بھی
نہیں رکھتا۔‘‘
ان
صفات کی روشنی میں جب ہم مخلوق کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ:
1. مخلوق کبھی ایک نہیں ہوتی۔ مخلوق ہمیشہ
بکثرت ہوتی ہے۔
2. مخلوق
زندگی کے اعمال و حرکات پورے کرنے پر کسی احتیاج کی پابند ہے۔
3. یہ
بھی ضروری ہے کہ مخلوق کسی کی اولاد ہو، اور
4. یہ
بھی ضروری ہے کہ مخلوق کی کوئی اولاد ہو۔
5. مخلوق
کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا کوئی خاندان ہو۔
اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ ان پانچ صفات میں جب لاشعوری
تفکر سے کام لیا جاتا ہے تو ہمیں ایک بات ایسی ملتی ہے کہ ہم ان صفات کو جو اللہ
تعالیٰ نے بیان کی ہیں ان میں سے ایک صفَت اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے اوپر
وارد کر سکتے ہیں۔
مخلوق
کے لئے یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ وہ کثرت سے بے نیاز ہو۔ مخلوق اس بات پر بھی مجبور
ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ اسی طرح مخلوق کا خاندان ہونا بھی ضروری ہے۔ مطلب یہ
ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ پانچ صفات میں سے چار صفات ہیں۔ مخلوق اپنا
اختیار استعمال کرنے کے لئے بے بس اور مجبور ہے۔ صرف ایک ایجنسی ایسی ہے کہ مخلوق
اللہ تعالیٰ کی صفَت کو اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے اوپر وارد کر سکتی ہے اور
وہ ہے، اللہ احتیاج سے ماوراء ہے۔ مخلوق کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دنیاوی تمام
مسائل سے اپنی ضروریات اور احتیاج کو توڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا
تعلق وابستہ کر لے۔ یہ وابستگی توکل اور بھروسہ ہے۔ اگر بندے کے اندر مخلوق کے
ساتھ احتیاجی عوامل کام کر رہے ہیں تو وہ توکل اور بھروسہ کے اعمال سے دُور ہے۔
راہِ سلوک کے مسافر کو سب سے پہلے اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ زندگی کے تمام
تقاضے اور زندگی کی تمام حرکات و سکنات پیر و مرشد کے تابع ہیں۔ زندگی کی حرکات و
سکنات جب سالک پیر و مرشد کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ اس کی تمام ضروریات کا کفیل بن
جاتا ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح ایک دودھ پیتے بچے کے کفیل اس کے والدین ہوتے ہیں۔
ان بچوں کی کفالت زیر بحث آتی ہے جنہوں نے ابھی تک شعور کے دائرے میں قدم نہیں
رکھا ہے۔ جب تک بچہ شعور کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا والدین چوبیس گھنٹے اس کی
فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔