Topics
جواب:
روحانیت کے راستے پر چلنے والے سالک کے اندر یہ طرزِ فکر ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام
معاملات اللہ تعالیٰ کے اوپر چھوڑ دے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ
’’وہ لوگ
جو راسخ فی العلم ہیں کہتے ہیں ہمارا ایمان ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘
(سورۃ آلِ عمران – آیت نمبر 7)
یہی وہ
اصل طرزِ فکر ہے جو انسان کے اندر إستغناء پیدا کرتی ہے۔ إستغناء کا مطلب یہ نہیں
ہے کہ ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھا رہے۔ کوشش اور جدّوجہد اس پر لازم ہے۔ کوشش اور جدّ
و جہد کے ساتھ نتائج پر نظر نہیں ہونی چاہئے بلکہ نتائج اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔
یعنی جو کچھ ہو رہا ہے یا ہم کر رہے ہیں وہ سب اس لئے کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ
ایسا چاہتا ہے۔ روحانیت میں اس بات کو ذہن نشین کرا دیا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی
اور زندگی کے تمام اعمال و اشغال سب مِن جانب اللہ ہیں۔ اس کی نظر عذاب ثواب، توقع
اور صلہ و ستائش پر نہیں ہوتی وہ برائیوں سے اس لئے بچتا ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ
کو ناپسند ہے۔ اچھائیوں کو اس لئے اختیار کرتا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے
ہیں۔ عذاب و ثواب کا جب تذکرہ آتا ہے تو اس میں ڈر، خوف، دہشت، ہیبت اور آسائش و
آرام اور آسانیاں پیش نظر ہوتی ہیں۔ کسی سالک کے لئے یہ طرزِ فکر زہرِ قاتل ہے۔ اس
طرزِ فکر کا بندہ روحانیت میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا
خوف نہیں ہوتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سراپا محبت ہے۔ جہاں ڈر آ جاتا ہے
دوری واقع ہو جاتی ہے۔ اللہ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اللہ تعالیٰ سے دور
ہو گیا اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا منشا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے قریب
ہو۔
انسان
کی ذہنی طرزِ فکر ماحول سے بنتی ہے۔ جس قسم کا ماحول ہوتا ہے اس ماحول میں تمام اعمال
کے نقوش در و بست یا کم و بیش ذہن پر مُرتسم ہو جاتے ہیں۔ جس حد تک یہ نقوش ہلکے
یا گہرے ہوتے ہیں اسی مناسبت سے انسان کی زندگی کی ایک نہج بن جاتی ہے۔ اگر کوئی
بچہ ایسے ماحول میں پرورش پاتا ہے جہاں والدین اور اس کے ارد گرد ماحول کے لوگ
ذہنی پیچیدگی، بددیانتی اور ان اعمال کے عادی ہوں جو معاشرے کے لئے ناقابلِ قُبول
اور ناپسندیدہ ہیں، وہ بچہ لازمی طور پر قبول کرے گا۔ اسی طرح اگر بچے کا ماحول
پاکیزہ ہے تو وہ پاکیزہ نفس ہو گا۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو
ماں باپ بولتے ہیں وہی عادات و اطوار اختیار کرتا ہے جو والدین سے ورثہ میں منتقل
ہوتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ:
بچہ کا
ذہن آدھا والدین کا ورثہ ہوتا ہے اور آدھا ماحول کے زیر اثر بنتا ہے۔
یہ
مثال صرف بچوں کے لئے مخصوص نہیں، اِس میں افراد اور قوموں پر بھی یہ قانون لاگو
ہوتا ہے۔
ابتداءِ
آفرینش تا اِیں دَم، جو کچھ ہو چکا ہے، ہو رہا ہے یا آئندہ ہو گا وہ سب کا سب نوعِ
انسانی کا ورثہ ہے۔ یہ ورثہ قوموں میں اور افراد میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو
ہم ارتقاء کہتے ہیں۔
مختصراً
کسی روحانی طالب علم کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ طرزِ فکر دو ہیں۔ ایک طرزِ
فکر بندے کو اپنے خالق سے قریب کرتی ہے اور دوسری طرزِ فکر بندے کو اپنے خالق سے
دور کرتی ہے۔ ہم جب کسی انعام یافتہ شخص سے قربت حاصل کرتے ہیں جسے وہ طرزِ فکر
حاصل ہے جو خالق سے قریب کرتی ہے تو قانون کے مطابق ہمارے اندر وہی طرزِ فکر کام
کرنے لگتی ہے اور ہم جس حد تک اس انعام یافتہ شخص سے قریب ہو جاتے ہیں اتنی ہی اس
کی طرزِ فکر ہمیں حاصل ہو جاتی ہے اور انتہا یہ ہے کہ دونوں کی طرزِ فکر ایک بن
جاتی ہے۔