Topics

قوّت ارادی کیا ہے؟

سوال: میں ایک عرصے سے روحانی ڈائجسٹ کا قاری ہوں۔ آپ اپنے مضامین میں اکثر و بیشتر ’’یقین‘‘ پر بہت زور دیتے ہیں۔ کیا یقین قوّت ارادی ’’وِل پاور‘‘ ہے؟۔۔۔۔۔۔براہِ کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب: اگر کبھی قرآنِ پاک کے مطالعے کا موقع ملے تو آپ کو جگہ جگہ ایمان اور ایمان والوں کا تذکرہ ملے گا۔ اسی ایمان کا اردو ترجمہ یقین ہے۔ صفحات کی کمی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یقین کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ:

یقین جملہ مظاہرات کا سرچشمہ ہے۔ قوّت ارادی بھی یقین ہی کا ایک یونٹ ہے۔ یقین کے حُصول کے لئے مشاہدہ ضروری ہے اور مشاہدے کی تکمیل صرف اسی صورت میں ہو گی جب یقین کے تین مدارج:

    علمُ الیقین،

    عینُ الیقین، اور

    حقُ الیقین

کو درجہ بدرجہ طے کیا جائے گا۔

مثال کے طور پر آپ کے سامنے پہلی بار کوئی سیب کا نام لیتا ہے اور اس کے رنگ، بناوٹ، ذائقے اور فوائد کا تذکرہ کرتا ہے۔ آپ کا علمُ الیقین ہو گیا۔ یہ مشاہدے کا پہلا قدم ہے۔

دوسرے قدم پر آپ سیب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور اس کے رنگ اور بناوٹ کا مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ یہ عینُ الیقین کا درجہ ہے۔

تیسرے درجے میں جسے آپ حقُ الیقین کہتے ہیں، یہ آپ کو سیب، سیب کے رنگ، اس کی بناوٹ، اس کے ذائقہ اور فوائد کا نہ صرف علم ہُوا بلکہ اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ بھی کر چکے ہیں۔   اپنے طور  پر سیب کر کھا کر اُس کا تجربہ بھی کر لیا ہو۔ یقین کی تکمیل صرف اُسی وقت ممکن ہے جب آپ کسی بات یا کسی چیز کی کُنہ تک پہنچ جائیں۔ زندگی اور زندگی کا ہر قدم، ہر سانس یقین کے گرد گھومتا ہے۔ یقین ہی زندگی کے جملہ نشیب و فراز، مسائل، افکار و اعمال کی پیدائش کا باعث ہے۔

اگر انسان کے اندر یقین کی وہ طاقت اور صلاحیت پیدا اور بیدار ہو جائے جس کا تذکرہ قرآنِ پاک میں خالقِ کائنات اللہ نے کیا ہے تو انسان ایسے ایسے کام انجام دے سکتا ہے جس کا گزر نَوعِ انسانی کی برادری کے شعور میں کبھی نہیں ہوا۔ یقین کی اس صلاحیت، طاقت، اس کے مظاہرے کے واقعات اور تذکرے، قرآنِ پاک میں جا بجا موجود ہیں مثلاً حضرت سلیمان علیہ السّلام کے واقعے میں اسی یقین کا مظاہرہ ایک آدم زاد بندے نے اس طرح کیا کہ سارے درباری یہ منظر دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ پلک جھپکنے سے پہلے ہزاروں مِیل دُور سے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے دربار میں بلقیس کا تخت موجود ہو گیا۔

Topics


Rooh Ki Pukar

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے