Topics

دماغ میں دو کھرب خانے

سوال: میں نے پڑھا ہے کہ انسان کے دماغ میں دو کھرب خانے ہوتے ہیں جن میں سے صرف دو سو متحرّک اور باعمل ہوتے ہیں اور اگر دو سو سے زیادہ خانے متحرّک ہو جائیں تو ہمیں غیب کی چیزیں نظر آ سکتی ہیں اور لاکھوں سال پہلے اور بعد میں ہونے والے واقعات نظر آ سکتے ہیں۔ مجھے آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا ایک عام آدمی میں یہ صلاحیت پیدا ہو سکتی ہے کہ اگر وہ دیکھنا چاہے کہ میرا فلاں دوست جو ہزاروں میل دور ہے وہ کیا کر رہا ہے یا فلاں رشتہ دار یا عزیز کس حال میں ہے یا کوئی ماضی یا مستقبل کا واقعہ دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے یا نہیں؟ اگر میں یہ سب دیکھنا چاہوں تو مجھے کیا عمل کرنا ہو گا؟

جواب: تصوّف نورِ باطن ہے۔ نورِ باطن نام ہے ایسے خالص ضمیر کا جس میں آلائش قطعاً نہیں ہوتی۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے سامنے دیکھنے کے بجائے پیچھے دیکھتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر مقصود صرف پیچھے دیکھنا ہوتا تو آنکھیں پیشانی پر ہونے کے بجائے سر کے پچھلے حصے میں ہوتیں۔

ہمارے تمام تر عقائد و طرزِ فکر کی بنیاد ماضی پر ہے جہاں کہیں ہمارا ذہن اٹکتا ہے۔ ہم بجائے اس کے کہ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے یا جو کچھ ہمارے اپنے تجربے میں ہے اس کی روشنی میں نتائج اخذ کرتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں، چاہے وہ صحیح ہوں یا غلط، جس کا لازماً نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری آزاد طرزِ فکر پر ضرب شدید پڑتی ہے اور بالآخر تواہم اور وسوسوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یقین مجروح ہوتا ہے ذہن منتشر ہوتا ہے اور اس طرح آدمی کے اندر دُوربینی کی صلاحیتیں مجروح اور معدوم ہو جاتی ہیں۔

اگر مستقبل بینی کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کیا جائے تو پہلے ہمیں مفروضہ حواس اور شکوک و وَسواس سے خود کو آزاد کرنا ہو گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی ایسے استاد کی رہنمائی میں سفر کا آغاز کیا جائے جو مستقبل بینی کے علم سے پوری طرح آگاہ ہو۔ قدرت نے ہر آدمی کے اندر یہ صلاحیت وُدیعت کی ہے کہ وہ دُور دراز کی چیزوں کا مشاہدہ کر سکے اور ہزاروں میل دُور رہنے والے دوستوں اور رشتہ داروں سے ہم کلامی کر سکے۔ مادّی دنیا میں اس کی مثال سائنس کی ترقی ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت سی آوازیں پھیلی ہوئی ہیں ان کے قُطر بہت چھوٹے اور بہت بڑے ہوتے ہیں جن کو انگریزی میں ویولینتھ (Wave Length) کہتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ چار سو قُطر سے نیچے کی آوازیں آدمی نہیں سن سکتا۔ سولہ سو قُطر سے زیادہ اونچی آوازیں بھی آدمی نہیں سن سکتا۔ چار سَو (400) ویولینتھ سے نیچے کی آوازیں برقی رَو کے ذریعہ سنی جا سکتی ہیں اور ایک ہزار چھ سو ویولینتھ کی آوازیں بھی برقی رَو کے ذریعہ سنی جا سکتی ہیں۔ یہ ایک قسم کا حسی عمل ہے جو دماغی خلیے بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق:

’’اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔‘‘

روشنی فی الواقع برقی رَو ہے۔ برقی رَو جب دماغ کے خلیوں میں دور کرتی ہے تو آسمانوں اور زمین میں موجود نظام کو دیکھنے کے لئے غیب بینی کی صلاحیت بیدار اور متحرّک ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی انسان تفکر کے ذریعہ روشنی (برقی رَو) کا مطالعہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ کائنات میں کوئی شئے دیکھنے کے عمل میں مزاحمت نہیں کر سکتی اس لئے کہ خالق کائنات نے ہر شئے کو انسان کے لئے مسخر کر دیا ہے۔

Topics


Rooh Ki Pukar

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے