Topics
سوال: آپ روحانی طالب علموں کو معرفت و طریقت میں کامیابی اور غیب کے مشاہدے کے لئے مراقبہ کی تلقین کرتے ہیں اور اس کے بہت سے فوائد بتاتے ہیں اور یہ کہ مراقبہ حضرت محمدﷺ کی غار حرا میں پہلی سنت ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ نے اپنے پیروکاروں کو مراقبہ کا حکم نہیں دیا بلکہ نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ مراقبہ نماز سے کہیں آسان ہے اور اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے مراقبہ کا حکم نہیں دیا ہے؟
جواب: مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان عالمِ ظاہر کی طرح اپنے اندر موجود متحرّک اور مسلسل عمل کرنے والی مخفی دنیا سے روشناس ہوتا ہے۔ جس طرح ہم خواب کی حالت میں جسم کے تقاضوں سے آزاد ہو کر اس دنیا میں سفر کرتے ہیں، جس دنیا کو بیداری کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس طرح مراقبے میں ہم اس دنیا کو دیکھتے ہیں جس دنیا کو ظاہری آنکھ نہیں دیکھ سکتی ہے۔ ہم جب بیدار ہوتے ہیں تو مرحلہ وار یہ دنیا ہمارے لئے ایک تجرباتی دنیا بن جاتی ہے۔ یہ تجربہ ہی دراصل ہماری زندگی ہے۔ اِسی طرح جب پیراسائیکالوجی کے طالب علم کی نظر اپنے باطن میں کھلتی ہے تو عالمِ غیب میں بسنے والی دنیاؤں کے تجربات شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسے جیسے غیب کی دنیا میں اِنہماک ہوتا ہے۔ غیب میں بسنے والے افراد سے تعارف ہوتا رہتا ہے اور غیب کی دنیا کے شب و روز سے پوری واقفیت ہو جاتی ہے۔
غیب کی دنیاہو یا مظاہراتی دنیا، دونوں تجربات کے مدار پر گھوم رہی ہیں۔ جس طرح پیدائش کے بعد رفتہ رفتہ شعور حاصل ہوتا ہے اسی طرح غیب کی دنیا میں بھی ترقی پذیر شعور کارفرما ہے۔ غیب کی دنیا کا ترقی پذیر شعور مظاہراتی دنیا کا تصوّر ہے۔ مظاہراتی دنیا میں ہمارا مشاہدہ ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد:
1. پہلے ماں کی خوشبو کا احساس کرتا ہے۔
2. پھر وہ ماں کو پہچانتا ہے۔
3. اس کے ماحول میں قریب رہنے والے افراد باپ، بھائی، بہنوں، دادی، نانی اور دادا، نانا کو پہچانتا ہے۔
4. اس کے بعد قریبی رشتہ داروں سے مانوس ہوتا ہے
5. پھر شعور میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ دنیاوی علوم حاصل کر کے اپنا ایک مقام بنا لیتا ہے اور دنیا میں اپنی انفرادی حیثیت کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔
اسی طرح پیراسائیکالوجی کا طالب علم جب اپنے انر میں موجود غیب کی دنیا سے روشناس ہو جاتا ہے تو اس کی نگاہ میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ زمان کے دونوں کناروں کو احاطہ کر لیتا ہے۔ زمان کے غیب کی دنیا میں جو کچھ ہے اسے چھو لیتا ہے۔ زمین سے باہر افراد کائنات سے ملاقات کرنا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، ستاروں میں گھومنا اور افلاک کی سیر کرنا اس کے لئے شعوری زندگی بن جاتا ہے۔
نظریۂ رنگ و نور کی روشنی میں جو غیب مشاہدہ بن جاتا ہے وہ غیب نہیں رہتا۔ افلاک کے بے شمار نظاموں میں فرشتوں کی مخلوق اور اس مخلوق کی کارکردگی سے واقف ہو کر فرشتوں سے ہمکلام ہونا آسان کام بن جاتا ہے۔ وہ یہ دیکھ لیتا ہے کہ:
• کائنات کی ساخت میں کس قسم کی روشنیاں برسرِعمل ہیں؟
• ان روشنیوں کا سورس کیا ہے؟
• یہ روشنیاں کس طرح بن رہی ہیں؟
• یہ روشنیاں افراد کائنات میں کس طرح تقسیم ہو رہی ہیں؟ اور
• روشنیوں کی مقداروں کے ردِّ عمل سے کائنات کے نقوش کس طرح بن رہے ہیں؟
• تجلّی نزول کر کے نور کیسے بنی؟ اور
• نور نزول کر کے روشنی کس طرح بنا؟
• نور اور روشنی کن قاعدوں اور کن ضابطوں پر قائم ہے؟
کائنات کا ایک ممتاز فرد انسان جب نزولی دائرے سے نکل کر لاشعوری دائرے میں قدم رکھتا ہے تو اس کے اوپر انکشاف ہوا ہے کہ شعوری حواس ذات سے دُور کرتے ہیں اور لاشعوری حواس ذات سے قریب کرتے ہیں۔ ذات سے قربت صعود ہے اور ذات سے دُوری نزول ہے۔ ذات سے قریب ہونے اور وجدان حاصل کرنے کے لئے موثر اور یقینی عمل مراقبہ ہے۔
آخری کتاب قرآن شریف نزولی اور صعودی کیفیات کو متحرّک کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ قرآن کے اس پروگرام کی بنیاد نماز اور زکوٰۃ ہے۔ نماز اور زکوٰۃ دونوں روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔ نماز یا صلوٰۃ روح کا وظیفہ ہے اور زکوٰۃ جسم کا وظیفہ ہے۔
ہم جب نماز کے ارکان اور نماز کے اندر حرکات و سکنات کو بغور دیکھتے اور سمجھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نماز مجموعی طور پر ایک ایسا عمل ہے جس عمل میں تمام انسانی حرکات و سکنات موجود ہیں۔ مثلاً کھڑے ہو کر ہاتھ باندھنا، سیدھا کھڑے ہونا، ہاتھ اوپر اٹھانا، بولنا، پڑھنا، سننا، دیکھنا، ہاتھ باندھنا، جھکنا، جھک کر دوبارہ کھڑے ہونا، کھڑے ہونے کے بعد لیٹنا، لیٹنے کے بعد بیٹھنا، بیٹھنے کے بعد پھر لیٹنا (یعنی سجدہ کرنا) پھر کھڑے ہونا اِدھر اُدھر دیکھنا وغیرہ وغیرہ۔ نماز کے پروگرام سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نماز زندگی کے ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت کا احاطہ کرتی ہے۔ نماز میں ساری جسمانی حرکات و سکنات کا تعلق اس حقیقت پر قائم ہے کہ بندہ ساری حرکات خالقِ کائنات اللہ کے لئے کر رہا ہے یعنی نماز ایک ایسا پروگرام ہے جس پر عمل کر کے انسان زندگی کی ہر حرکت میں خالقِ کائنات کے ساتھ اپنی وابستگی قائم کر لیتا ہے۔ پروگرام کی کامیابی کے نتیجے میں وہ دیکھ لیتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔ بندے کے مشاہدے میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ نایز کا یہ تربیتی پروگرام دس بارہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ اور اٹھارہ بیس سال تک اس کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ اگر اٹھارہ بیس سال تک اس پروگرام کی تکمیل نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نماز کی تکمیل نہیں ہوئی۔ نماز کے اثرات مرتّب ہونے چاہئے تھے لیکن اس لئے مرتّب نہیں ہوئے کہ نماز کا پروگرام نتیجے کو سامنے رکھے بغیر کیا جا رہا ہے۔ کوئی پروگرام نتیجہ سے خالی ہو تو اس کی اہمیت نہیں ہوتی۔
بندہ پندرہ بیس سال تک جب وظیفہ اعضاء کی حرکت کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر اس بات کی مشق کرتا ہے کہ اس کے ہر عمل اور ہر حرکت میں خالقِ کائنات کے ساتھ وابستگی قائم ہو جائے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں خالق کی طرف متوجّہ رہنے اور ساتھ ساتھ دنیا کے سارے کام انجام دینے کا عادی ہو جاتا ہے۔
دوسرا پروگرام زکوٰۃ کا ہے۔ زکوٰۃ ایک ایسا عمل ہے جس کا منشاء مخلصانہ اور بے لوث خدمت خلق ہے۔ زکوٰۃ زندگی کا ایک ایسا پروگرام ہے جو اللہ کا اپنا شعار ہے۔ جب بندہ مخلصانہ قدروں میں اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے تو دراصل اس نے وہ کام شروع کر دیا ہے جو خالقِ کائنات خود کرتا ہے۔ خالق کا ذاتی وصف یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔
اللہ کے ساتھ وابستگی حاصل کرنے کے لئے پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی امّت کو نماز (صلوٰۃ) کا پروگرام عطا کیا ہے۔ علمِ لدُنّی میں صلوٰۃ کا ایک ترجمہ ’’مراقبہ‘‘ بھی ہے۔ صلوٰۃ کے ذریعے انسان اپنے اندر مخفی علوم کو تلاش کر لیتا ہے۔ ذہنی یکسوئی اور یقین کے پیٹرن کے ساتھ صلوٰۃ (مراقبہ) قائم کرنے سے بندہ اس کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے جس کیفیت کو پیغمبرِ اسلامﷺ نے مؤمن کی معراج کہا ہے اور جب کوئی فرد صلوٰۃ کے پروگرام کے بعد زکوٰۃ کا پروگرام پورا کر لیتا ہے تو وہ اللہ کی عادت (مخلوق کی خدمت) کا ایک یونٹ بن جاتا ہے اس کے اوپر عرفان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔